اپوزیشن کا بل صرف ایک خاندان کے احتساب کیلئے بنایا گیا، حزب اختلا ف نے تحقیقات کو پانامہ تک محدود کر کے اپنے ساتھیوں کو بچانے کی کوشش کی ہے ، سب جانتے ہیں کہ کس کس کی کمپنیاں بیرون ملک ہیں، تحریک انصاف کے لوگوں کی کمپنیاں بیرون ممالک ہیں، ان کا پانامہ میں ذکر نہیں اور اپوزیشن نے ان کو تحقیقات سے ازخود آزاد کردیا،اپوزیشن کا اپنا مستقبل تاریک نظر آ رہا ہے اسی لیے سڑکوں کی سیاست کی جا ر ہی ہے، ملک لوٹنے والوں کا احتساب کمیشن آف انکوائری ایکٹ کے تحت ہی ممکن ہے،حکومتی بل میں کمیشن کو 1956کے ایکٹ کے تمام اختیارات حاصل ہیں ، تمام اختیارات کمیشن کو دے دیئے ہیں ، قومی اسمبلی اور سینیٹ میں متفقہ طور پر منظور تحاریک کو مدنظر رکھ کر قانون بنایا ، پی ٹی آئی نے وزیراعظم کی نااہلی کیلئے سپریم کورٹ، الیکشن کمیشن اور اسپیکر قومی اسمبلی کو ریفرنس جمع کرایا، پی ٹی آئی کو کسی ایک ادارے پر بھی بھروسہ نہیں ، آزادکشمیر اور دیگر ضمنی انتخابات میں شرمناک شکست کے بعد اپوزیشن کو اپنا مستقبل تاریک دکھائی دے رہا ، پوزیشن نے پانامہ کو صرف وزیراعظم تک محدود ، اپنے بل میں ان کوہی مجرم قرار دیکرسزا کا بھی تعین کردیا، بس ابھی ان کو جیل بھیجنا باقی ہے

ٹی او آرز کمیٹی کے ارکان اور وفاقی وزراء اسحاق ڈار، زاہد حامد، اکرم درانی ،میر حاصل بزنجو اور وزیر مملکت انوشہ رحمان کا مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب

جمعہ 2 ستمبر 2016 19:44

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔2 ستمبر ۔2016ء) پانامہ لیکس معاملے پر ضابطہ کا ر طے کرنے کیلئے قائم ٹی او آرز کمیٹی کے حکومتی ارکان اور وفاقی وزراء نے کہا ہے کہ اپوزیشن کا بل صرف ایک خاندان کے احتساب کیلئے بنایا گیا، اپوزیشن کی جانب سے تحقیقات کو پانامہ تک محدود کر کے اپنے ساتھیوں کو بچانے کی کوشش کی ہے ، سب جانتے ہیں کہ کس کس کی کمپنیاں بیرون ممالک ہیں، تحریک انصاف کے لوگوں کی کمپنیاں دیگر بیرون ممالک ہیں جن کا پانامہ میں ذکر نہیں اور اپوزیشن نے ان کو تحقیقات سے ازخود آزاد کردیا،اپوزیشن کا اپنا مستقبل تاریک نظر آ رہا ہے اسی لیے سڑکوں کی سیاست کی جا ر ہی ہے، ملک لوٹنے والوں کا احتساب کمیشن آف انکوائری ایکٹ کے تحت ہی ممکن ہے،حکومتی بل میں کمیشن کو 1956کے ایکٹ کے تمام اختیارات حاصل ہیں،بل میں تمام صوبائی حکومتوں اور وفاقی اداروں کو تحقیقات میں مدد کاپابند، کمیشن کو بیرونی ممالک میں جانے کیلئے ایک سپیشل ٹیم بنانے کا اختیار، غیر ملکی ماہرین کی خدمات ، بیرونی اداروں سے دستاویزات اور تمام رپورٹس پبلک کر نے کا اختیار دیا گیا ہے ، سپریم کورٹ کی ہدایت کے مطابق قانون میں تمام اختیارات کمیشن کو دے دیئے ہیں، حکومت نے قومی اسمبلی اور سینیٹ میں متفقہ طور پر منظور ہو نے والی تحاریک کو مدنظر رکھ کر قانون بنایا ، پی ٹی آئی نے وزیراعظم کی نااہلی کیلئے سپریم کورٹ، الیکشن کمیشن اور اسپیکر قومی اسمبلی کو ریفرنس جمع کرایا،اس کا مطلب ہے کہ پی ٹی آئی کو کسی ایک ادارے پر بھروسہ نہیں، اپوزیشن کو شاید جلدی اس لئے ہے کہ پاکستان ترقی کر رہا ہے اور آزادکشمیر اور دیگر ضمنی انتخابات میں شرم ناک شکست کے بعد ان کو اپنا مستقبل تاریک دکھائی دے رہا ، حیران ہیں کہ آزادکشمیر اور دیگر ضمنی انتخابات میں مینڈیٹ چوری ہونے کا شور کیوں نہیں مچایا گیا ،اپوزیشن نے پانامہ کو صرف وزیراعظم تک محدود کر دیاہے اور اپنے بل میں وزیراعظم کو مجرم قرار دیتے ہوئے سزا کا بھی تعین کردیا بس ابھی وزیراعظم کو جیل بھیجنا باقی ہے۔

(جاری ہے)

جمعہ کو ان خیالات کا اظہار وفاقی وزیرخزانہ اسحاق ڈار،وفاقی وزیر قانون زاہد حامد،وزیرمملکت برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی انوشہ رحمان،وفاقی وزیر ہاؤسنگ اکرم درانی اور وفاقی وزیر پورٹس اینڈشپنگ میر حاصل بزنجو نے مشترکہ پریس کانفرنس میں کیا۔وفاقی وزیرخزانہ اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ پاناما لیکس میں مسلم لیگ (ن)کی لیڈر شپ کا نام نہیں اور نہ ہی ہم اس معاملے میں کوئی استثنی چاہتے ہیں، ہماری لیڈر شپ کے جن بچوں کا نام ہے وہ آکر اپنی وضاحت کریں گے جس کے بعد آئین اور قانون کے تحت فیصلہ ہو جائے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ سقوط ڈھاکا سے لے کر ایبٹ آباد واقعہ تک تمام کمیشن ایک ہی قانون کے تحت بنے لیکن ہم نے کرپشن کی تحقیقات کے لئے نیا قانون قومی اسمبلی میں جمع کرادیا ہے جو صرف پاناما لیکس کے لئے نہیں بلکہ آئندہ کئی دہائیوں کیلئے ہوگا۔اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ پاناما لیکس کے معاملے پر کسی قسم کا استثنی نہیں چاہتے لیکن جن لوگوں نے بینکوں سے قرضہ معاف کرایا ہے ان کے خلاف بھی بلا امتیاز کارروائی ہونی چاہیئے لیکن اپوزیشن صرف وزراعظم نواز شریف کی فیملی کے خلاف تحقیقات چاہتی ہے۔

انھوں نے کہا کہ اپوزیشن کے مطالبے پر ٹی او آرز کمیٹی کا کوئی چیرمین نہیں بن سکا جب کہ سانحہ کوئٹہ کی وجہ سے ٹی او آرز کے معاملے پر اپوزیشن کے ساتھ بات آگے نہیں بڑھ سکی، اپوزیشن نے پاناما لیکس کمیشن کے لئے اپنے ٹی او آرز پیش کئے، اگر اپوزیشن سینیٹ میں اپنے ٹی او آرز پیش نہ کرتی تو شاید آج ہم بھی یہ قانون پیش نہ کرتے اور ٹی او آرز کے معاملے پر ایک اور میٹنگ کر کے معاملات طے کر لیتے ۔

انہوں نے کہا کہ بدھ کو کابینہ اجلاس میں سپریم کورٹ کی ہدایات کے مطابق پاکستان کمیشن آف انکوائری بل 2016کی منظوری لیگئی،جس کے دو سے تین گھنٹوں کے بعد اپوزیشن کی جانب سے سینیٹ میں ایک بل جمع کروادیا گیا۔انہوں نے کہا کہ حکومت کی جانب سے پاکستان کمیشن آف انکوائری بل 2016 قومی اسمبلی میں پیش کردیا گیا ہے جو قائمہ کمیٹی کو ارسال کردیا گیا ہے،جس کے تحت پانامہ پیپرز کے 400کیسز سمیت وزیراعظم کا خاندان انکوائری کمیشن کے سامنے جواب دے ہوگا،اگر اپوزیشن سینیٹ میں بل پیش نہ کرتی تو حکومت اپنے بل کیلئے اپوزیشن کے ساتھ مشاورت ضرور کرتی،اپوزیشن نے اپنے بل کے ساتھ ٹی او آرز بھی لگا دیئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہمارا ہدف پانامہ سمیت قرضوں کی معافی، ملک سے باہر جائیدادیں اور ملک میں کرپشن کاخاتمہ ہے مگر اپوزیشن کی جانب سے سینٹ میں جمع کرایا گئے بل میں صرف ایک خاندان کو سامنے رکھ کر قانون بنایا گیا ہے۔اس موقع پر وفاقی وزیر قانون زاہد حامد نے کہا کہ حکومت نے اپوزیشن کے تحفظات کو مدنظر رکھتے ہوئے پاکستان کمیشن آف انکوائری بل 2016بنایا جس میں 1956کے ایکٹ کے تمام اختیارات شامل ہیں،بل میں تمام صوبائی حکومتوں اور وفاقی اداروں کو انکوائری کمیشن کو تحقیقات کیلئے مدد کاپابند بنایا گیاہے،اس کے علاوہ کمیشن کو یہ اختیار بھی دیا گیا ہے کہ وہ بیرونی ممالک میں جانے کیلئے ایک اسپیشل ٹیم بھی بناسکے اور تحقیقات کیلئے غیر ملکی ماہرین کی خدمات بھی حاصل کرسکے،حکومتی قانون کے تحت کمیشن بیرونی اداروں سے دستاویزات بھی حاصل کرنے کا مجاز ہوگا،قانون کے تحت کمیشن تمام رپورٹس پبلک کرسکے گااور کمیشن کو اختیار ہوگا کہ وہ جن دستاویزات کو حساس سمجھے پبلک نہ کرے۔

سپریم کورٹ کی ہدایت کے مطابق قانون میں تمام اختیارات کمیشن کو دے دیئے گئے ہیں۔انہوں نے کہا کہ قومی اسمبلی اور سینیٹ میں جو تحریک متفقہ طور پر منظور ہوئیں ان میں پانامہ پیپرز کے علاوہ دیگر ممالکمیں کمپنیاں فنڈز کی غیر قانونی بیرون ملک منتقلی،غیرقانونی قرضوں کی معافی کی تحقیقات شامل ہیں،ہم نے ان تحاریک کو مدنظر رکھ کر قانون بنایا۔

وفاقی وزیرقانون نے کہا کہ اپوزیشن نے سینیٹ میں جمع کرائے گئے اپنے بل کو صرف پانامہ پیپرز تک محدود کیا ہے،تحریک انصاف کے تمام ممبران کی کمپنیاں دیگر بیرون ممالک ہیں جن کا پانامہ میں ذکر نہیں اور اپوزیشن نے ان کو تحقیقات سے ازخود آزاد کردیا،اپوزیشن نے اپنے بل میں انکوائری کمیشن کو وزیراعظم نواز شریف کے خاندان کی تحقیقات مکمل ہونے تک کسی دوسرے کیس کو نہ لینے کا پابند بنایا ہے۔

وفاقی وزیر پورٹس اینڈ شپنگ میر حاصل بزنجو نے کہا ہے کہ ہم نے اپنی طرف سے پوری کوشش کی اپوزیشن کے ساتھ مل کر ایسا قانون بنائیں جس میں منی لانڈرنگ،کرپشن،پانامہ،قرضوں کی معافی ودیگر کااحتساب ہوسکے،مجھے بڑا افسوس ہوا کہ پانامہ کمیٹی میں آنے سے پہلے اپوزیشن اراکین یہ کہتے ہیں کہ کمیٹی میں جانا اب صرف ٹائم پاس ہے،اپوزیشن نے پانامہ کو صرف وزیراعظم تک محدود کر دیاہے اور اپوزیشن نے وزیراعظم کو مجرم قرار دیتے ہوئے سزا کا بھی تعین کردیا ہے بس ابھی وزیراعظم کو جیل بیھجنا باقی ہے۔

ہم نے ٹی اوآرزکمیٹی میں جب قرضوں کی معافی کی بات کی تو اپوزیشن اراکین نے کہا کہ قرضوں کی معافی ہمارا مسئلہ نہیں اس کا مطلب ہے کہ صرف وزیراعظم نوازشریف آپ کا مسئلہ ہے۔اس موقع پر وفاقی وزیرہاؤسنگ اکرم درانی نے کہا کہ اپوزیشن ٹی او آرز کمیٹی میں کوئی اور بات کرتی ہے اور کمیٹی سے باہر کوئی اور بات۔ٹی او آرز کے حوالے سے اپوزیشن اراکین میں آپس میں بھی اختلافات تھے،قوم کے سامنے دونوں فریقین کا موقف آگیا ہے اب قوم فیصلہ کرے کون ٹھیک ہے اور کون غلط،اپوزیشن میں شامل کچھ لوگوں نے قرضے لیے اور پھر ان کو معاف کروایا اور اب خود کو بے قصور بھی قرار دے دیا،اپوزیشن کا بل صرف ایک خاندان کے حوالے سے ہے جو ناانصافی ہے۔

وزیر مملکت انفارمیشن ٹیکنالوجی انوشہ رحمان نے کہا کہ اپوزیشن نے اپنے بل میں یہ کہا ہے کہ وزیراعظم نواز شریف خود کو احتساب کیلئے پیش کرچکے ہیں اسلئے سب سے پہلے ان کا احتساب کیا جائے ۔ایک سوال کے جواب میں وفاقی وزیرخزانہ اسحاق ڈار نے کہا کہ حکومتی بل اگر سینیٹ میں پاس نہ ہوا تو اپنا آئینی حق استعمال کرتے ہوئے بل کو مشترکہ اجلاس میں لے جائیں گے،مشترکہ اجلاس کا راستہ ہمیں اپوزیشن نے دکھایا ہے،اپوزیشن نے اپنے بل کو صرف پانامہ تک محدود کرکے اپنے ساتھیوں کو بچانے کی کوشش کی،سب جانتے ہیں کہ کس کس کی کمپنیاں بیرون ممالک ہیں۔

انہوں نے کہا کہ تحریک انصاف نے وزیراعظم کی نااہلی کیلئے سپریم کورٹ الیکشن کمیشن اور اسپیکر قومی اسمبلی کو ریفرنس جمع کرایا،اس کا مطلب ہے کہ پی ٹی آئی کو کسی ایک ادارے پر بھروسہ نہیں ،ایک ادارے نے تو ان کو کہیں اور کا راستہ دکھایا ہے،اپوزیشن کو شاید جلدی اس لئے ہے کہ پاکستان ترقی کر رہا ہے یا شاید آزادکشمیر اور دیگر ضمنی انتخابات میں شرم ناک شکست کے بعد ان کو اپنا مستقبل تاریک دکھائی دے رہا ہے،تحریک انصاف وزیراعظم نواز شریف کے خلاف ریفرنس دائر کرنے کے بعد اب سڑکوں پر جانے کی بات کر رہی ہے،پہلے بھی انہوں نے 126دن کے دھرنے میں ملک کو اربوں روپے کا نقصان پہنچایا ،وہ ملک کو کس طرف لے جانا چاہ رہے ہیں،پی ٹی آئی چیئرمین جب تک اپنے دماغ سے وزیراعظم بننے کا خواب نہیں نکالتے تب تک معاملات ٹھیک نہیں ہوسکتے ،حیران ہوں کہ آزادکشمیر اور دیگر ضمنی انتخابات میں مینڈیٹ چوری ہونے کا شور کیوں نہیں مچایا گیا۔

انہوں نے کہا کہ سینیٹ اور قومی اسمبلی میں حکومتی بل پر بحث سے حاصل ہونیوا لی مثبت تجاویز کو بھی بل کا حصہ بنائیں گے،ٹی او آرز کمیٹی کے دروازے نہ پہلے کبھی بند کیے تھے نہ اب کریں گے۔