قومی اسمبلی میں پاکستان کمیشن آف انکوائری 2016ء بل پیش کردیا گیا

جمعہ 2 ستمبر 2016 17:01

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔02 ستمبر۔2016ء) قومی اسمبلی میں جمعہ کو پاکستان کمیشن آف انکوائری 2016ء بل پیش کردیا گیا ہے ‘بل کے تحت کمیشن آف انکوائری تمام امور کی تحقیقات کر سکے گا‘ کمیشن عدالتی‘ تحقیقاتی اور غیر ملکی شواہد حاصل کرسکے گا اور کسی کو بھی تحقیقات کے لئے نامزد کرسکے گا۔ جمعہ کو قومی اسمبلی کے اجلاس میں وفاقی وزیر قانون زاہد حامد نے پاکستان کمیشن آف انکوائری 2016ء ایوان میں پیش کیا وفاقی وزیر زاہد حامد نے بل کے اغراض و مقاصد بیان کرتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم نے جب پانامہ پیپرز کے حوالے سے قوم سے خطاب کیا تھا اس کے بعد حکومت نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا کہ فوری طور پر اس کی تحقیقات کے لئے کمیشن قائم کیا جائے۔

سپریم کورٹ نے اس بارے میں حکم دیا کہ جو کمیشن بنایا جارہا ہے 1956ء کے ایکٹ کے تحت اس کا سکوپ محدود ہے۔

(جاری ہے)

اس کے ٹی او آر بہت وسیع ہیں وہ چاہتے ہیں جو فریقین متاثر ہوتے ہیں ان کی فہرست بنا کردی جائے اس کے بعد پارلیمانی کمیٹی قائم ہوئی جس کے آٹھ اجلاس ہوئے۔ ہم نے لچک بھی دکھائی مگر اس کے باوجود ٹی او آر کمیٹی میں ڈیڈ لاک کی صورتحال درپیش ہے۔

اپوزیشن کا مطالبہ تھا کہ ان کی تمام ٹی او آر مکمل طور پر تسلیم کی جائیں۔ یہ بات درست نہیں کہ ہم نے کمیشن محدود دائرہ کار کے طور پر بنایا ہے۔ اپوزیشن کا بل یکطرفہ ہے۔ ہم نے مجبوری کے تحت بل پیش کیا ہے۔ ہمارا بل صرف پانامہ پیپرز کے حوالے سے نہیں ہے۔ اس بل کے تحت کمیشن آف انکوائری تمام امور کی تحقیقات کر سکے گا۔ کمیشن کے اختیارات بڑھا دیئے گئے ہیں۔

یہ کمیشن عدالتی‘ تحقیقاتی اور غیر ملکی شواہد حاصل کرسکے گا اور کمیشن کسی کو بھی تحقیقات کے لئے نامزد کرسکے گا۔ یہ نہ صرف پانامہ پیپرز بلکہ کسی دوسرے ملک کے حوالے سے بھی تحقیقات کر سکے گا۔ اپوزیشن نے بل میں صرف وزیراعظم کو مدنظر رکھا ہے۔ انہوں نے پی ٹی ٰآئی کے لوگوں کو اس سے نکال دیا ہے۔ یہ بل کمیٹی میں جائے گا۔توقع ہے کہ ایوان اس کو منظور کرلے گا۔ سید نوید قمر نے کہا کہ یہ بل جو متعارف ہوا ہے تعارفی سطح پر اس پر بحث نہیں ہو سکتی۔ کمیٹی میں بحث کے بعد جب بل واپس آتا ہے تو اس پر بحث ہوتی ہے۔ اپوزیشن نے اس حوالے سے اسمبلی اور اسمبلی کے باہر سوالات اٹھائے ہیں۔ مخدوم شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ہماری جو سپرٹ تھی اس کی نفی کی گئی ہے۔