2سال کے دوران بلوچستان میں 58وکلا ء سمیت 1040 لوگ مارے گئے،سینیٹ قائمہ کمیٹی انسانی حقوق کو بریفنگ

859کیسز درج ، 766لوگوں کو گرفتار کیا گیا ،8اگست کو کوئٹہ ہستپال میں ہونے والے خودکش حملہ میں 77لوگ مارے گئے 125زخمی ہوئے ڈی جی رینجرز سندھ کی کمیٹی اجلاس میں مسلسل عدم شرکت پر شدید برہمی کا اظہار ، وزارت داخلہ کو خط لکھیں گے ،اداروں کو مادر پدر آزادی نہیں ہونی چاہیے،نسرین جلیل،ڈی آئی جی کرائم برانچ شکیل درانی نے بریفنگ دی

بدھ 31 اگست 2016 19:10

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔31 اگست ۔2016ء) سینیٹ کی فنکشنل کمیٹی برائے انسانی حقوق کو بتایا گیا ہے کہ گزشتہ 2سال کے دوران بلوچستان میں ایک ہزار چالیس لوگ مارے گئے ہیں،جن کے 859کیسز درج کئے گئے جبکہ 766لوگوں کو گرفتار کیا گیا ہے،8اگست کو کوئٹہ ہستپال میں ہونے والے خودکش حملہ میں 77لوگ مارے گئے جبکہ 125زخمی ہوئے جن میں سے 58وکلا ء بھی جان کی بازی ہار گئے۔

کمیٹی نے ڈی جی رینجرز سندھ کی کمیٹی کے اجلاس میں مسلسل عدم شرکت پر شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے انکے خلاف وزرات داخلہ کو خط لکھنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔کمیٹی کا اجلاس بدھ کے روز چےئرپرسن نسرین جلیل کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہاؤس میں منعقد ہوا جس میں سینیٹرستارہ ایاز ،سینیٹر محمد محسن خان لغاری،سینیٹر مفتی عبدلستار ،سینیٹر نثار محمد اور سینیٹر فرحت اللہ بابرنے شرکت کی۔

(جاری ہے)

کمیٹی کے اجلاس میں چےئرپرسن نے کہا کہ بلوچستان کے حالات سے لوگ مایوس ہو گئے ہیں،اور وہ اپنی شکایات کو سامنے نہیں لا رہے،قانون نافذ کرنے والے ادارے لوگوں کو مار کر پھینک دیتے ہیں،لوگوں کو اس حد تک نہ لے جایا جائے کہ جس طرح کراچی کے حالات سے تنگ آ کر الطاف حسین نے پاکستان مخالف نعرہ لگایا،اداروں کو مادر پدر آزادی نہیں ہونی چاہیے،انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے بی ایریا کے حوالے سے بریفنگ میں کچھ نہیں بتایا گیا،کمیٹی کو مسخ شدہ لاشوں کے حوالے سے بھی بتایا جائے، انہوں نے ڈی جی رینجرزکی عدم حاضری کا سختی سے نوٹس لیتے ہوئے کہا کہ انہوں نے کمیٹی کو جو خط لکھا ہے اس میں کہا گیا ہے کہ وہ لا اینڈ آرڈر صورتحال کی وجہ سے کمیٹی میں نہیں آ سکتے لیکن تمام صوبوں میں لا اینڈ آرڈر کی صورتحال خراب ہے،لیکن انکو آکر ہمارے سوالات کا جواب دینا چاہیے،اس حوالے سے ہم وزارت داخلہ کو خط لکھیں گے،انہوں نے کہا کہ ایم سی ایچ آر کے ملازمین کو تنخواہیں نہیں مل رہی۔

ڈی آئی جی کرائم برانچ شکیل درانی نے کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ گزشتہ 2سالوں کے دوران دہشتگردی کے حوالے سے 113کیسزز رجسٹرڈ ہوئے ہیں،202لوگ مارے گئے،اور 30افراد کو گرفتار کیا گیا ہے،ذاتی شمنی کے حوالے سے 670کیسزز درج ہوئے ،764لوگ مارے گئے اور 715افراد کو گرفتار کیا گیا،چوری اور راہزنی کی واداتوں کے 21کیسزز درج کیے گئے،22لوگ مارے گئے،12لوگ گرفتار کیے گئے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ گزشتہ دو سالوں کے دوران 52لاشیں ملیں جن کے 45کیسزز درج ہوئے جبکہ 9لوگوں کو گرفتار کیا گیا،انہوں نے کہا کہ گزشتہ دو سالوں کے دوران 859کیسزز درج ہوئے ،جن میں سے 594لوگوں کو چلان کیے گئے،218کیسزز کی تحقیقات ہو رہی ہیں،766لوگوں کو گرفتار کیا گیا،جبکہ 1075لوگ ابھی تک گرفتار نہیں کیے جا سکے،اور 245لوگ نامزد کیے گئے ہیں اور 1040لوگ مارے گئے ہیں۔

ڈی آئی جی کرائم نے کہا کہ بلال انور کانسی کے پاس کیسزز کی حوالے سے ایڈوکیٹ جنرل اور بار ہی بتا سکتی ہے کہ انکے پاس کتنے کیسزز تھے،انکے قتل کی وجہ سے وکیل اکھٹے ہوئے اور ہسپتال کے اندر حود کش حملہ آورنے دھماکہ کر دیا جس کی وجہ سے 77لوگ جان سے گئے،انہوں نے کہا کہ خود کش حملہ آور کی ٹانگیں ،ہاتھ اور سرملا ہے ۔انہوں نے کہاکہ سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق جو لاش ملے اسکا ڈی این اے ٹیسٹ کروایا جائے لیکن بلوچستان میں ڈی این اے ٹیسٹ کے حوالے سے کوئی سہولت موجود نہیں ہے ،ہمارے پاس لاپتہ افراد کے حوالے سے کوئی ریکارڈ موجودنہیں ہے اور ہمیں ڈی این اے ٹیسٹ کے لیے پنجاب جانا پڑتا ہے۔

سینیٹر فرحت اللہ بابر نے کہا کہ رینجرز والے کمیٹی میں مسلسل نہیں آ رہے انکو آ کر ہمارے سوالوں کا جواب دینا چاہیے اور سندھ کے نہیں آ رہے تو پنجاب اور دوسرے صوبوں سے بھی نہیں آئیں گے،انہوں نے کہا کہ رینجرز کی کارکردگی کے حوالے سے ایک انٹر نیشنل ادارے نے رینجرز کی کارکردگی کو سراہا ہے ،اس حوالے سے اگر رپورٹ ٹھیک ہے تو یہ اچھی بات ہے لیکن اگر یہ رپورٹ غلط ہے تو وہ رینجرز اور فوج کو بدنام کرنے کی کوئی سازش ہو سکتی ہے،اس معاملے کو استحقاق کمیٹی میں اٹھایا گیا ہے ۔

سینیٹر محسن خان لغا ری نے کہا کہ بلوچستان کے بی ایریا کے حوالے سے بھی بریفنگ دی جانی چاہیے کہ دو طرح کے نظام چل رہے ہیں۔سینیٹر نثار محمد نے کہا کہ بلوچستان کے بی ایریا میں لاشیں اے ایریا سے کہیں زیادہ ہیں اس لیے ایف سی کو اس حوالے سے بھی کمیٹی کو بتانا چاہیے۔سینٹر ستارہ ایاز نے کہا کہ بی ایریا کے حوالے سے ایف سی بریفنگ لینی چاہیے بلوچستان میں جو مسخ شدہ لاشیں مل رہی ہیں انکے پیچھے کون ہے انہیں سامنے لانے کی ضرورت ہے اگر کسی نے کوئی جرم کیا ہے تو اسے عدالتوں کے ذریعے پھانسی دی جانی چاہیے۔