پانامہ لیکس ایشو:جماعت اسلامی نے سپریم کورٹ میں آئینی درخواست دائرکردی

عدالت حکومت کو حکم دے کہ وہ پانامہ لیکس ایشوپر کمیشن بنانے کیلئے قانون سازی کرے،حکومت کا اقوام متحدہ کے ساتھ بھی کرپشن کے خلاف ایک معاہدہ موجود ہے،نیب کو کرپشن کی تحقیقات کااختیار ہے لیکن وہ حرکت میں نہیں آیا۔ سینیٹر سراج الحق کی گفتگو

Sanaullah Nagra ثنااللہ ناگرہ بدھ 24 اگست 2016 16:40

پانامہ لیکس ایشو:جماعت اسلامی نے سپریم کورٹ میں آئینی درخواست دائرکردی

اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین۔24اگست2016ء) :جماعت اسلامی نے پانامہ لیکس کی تحقیقات کے لئے سپریم کورٹ میں آئینی درخواست دائر کر دی۔ امیرجماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق کی جانب سے 11 صفحات پر مشتمل آئین کے آرٹیکل 184(3) کے تحت دائر کی گئی درخواست میں وفاق، وزارت قانون، وزارت خزانہ کابینہ ڈویژن اور نیب کو فریق بنایا گیا ہے۔ درخواست میں عدالت سے استدعا کی گئی ہے آئینی درخواست کو سماعت کے لئے منظور کرتے ہوئے مقدمہ کے فریقین کو ہدایت کی جائے کہ پانامہ لیکس میں آنے والے ناموں اور کمپنیوں کے بارے میں تحقیقات کی جائیں اور ملکی قانون کے مطابق ان کا ٹرائل کیا جائے۔

عدالت سے استدعا کی گئی ہے کہ فریقین کو ہدایت کی جائے کہ پانامہ لیکس میں ملوث ملزمان کو گرفتار کر کے ان سے لوٹی گئی رقم برآمد کی جائے اور بیرون ملک منتقل کی گئی قومی خزانے کی دولت واپس لانے کی ہدایت کی جائے۔

(جاری ہے)

ایڈووکیٹ اسد منظور بٹ کے توسط سے دائر درخواست میں کہا گیا ہے کہ پاناما لیکس عوامی مفاد کا معاملہ ہے اور درخواست گزار کے پاس سپریم کورٹ کے علاوہ اور کوئی مناسب فورم نہیں ہے جس سے رجوع کیا جا سکے کیونکہ تحقیقاتی اداروں نے اپنے طور پر اس معاملہ میں کوئی اقدامات نہیں اٹھائے۔

درخواست میں کہا گیا ہے کہ قومی دولت غیرقانونی طور پر بیرون ملک منتقل کر کے آف شور کمپنیاں بنائی گئی ہیں ، اس معاملہ کی تحقیقات کے لئے نیب قائم کیا گیا ہے مگر اس نے ابھی تک کوئی فیصلہ کن اقدام نہیں اٹھایا۔ درخواست میں کہا گیا ہے کہ حکومتی حکام اور نیب کو ہدایت کی جائے کہ پانامہ لیکس کی تحقیقات کے لئے تمام ممکن قانونی اقدامات کئے جائیں۔

درخواست میں آئین کے آرٹیکلز 10، 4,5,9 اور آرٹیکل 25 کا حوالہ دیتے ہوئے استدعا کی گئی ہے کہ سپریم کورٹ عوامی مفاد کے اس معاملہ پر فوری ایکشن لے۔ درخواست میں کہا گیا ہے کہ پانامہ لیکس میں ملک کی بڑی اہم شخصیات عوامی نمائندے اور کاروباری شخصیات کے نام شامل ہیں لیکن متعلقہ اداروں نے ان کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیا۔سینیٹر سراج الحق نے سپریم کورٹ کے باہر نائب امراء اسد اللہ بھٹو، میاں محمد اسلم، اراکین قومی اسمبلی صاحبزادہ یعقوب، شیر اکبر خان، عائشہ سید، اسلام آباد کے امیر زبیر فاروق خان، سینئر وکیل اسد منظور بٹ کے ہمراہ سپریم کورٹ میں پانامہ لیکس کے حوالے سے آئینی پٹیشن دائر کرنے کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ملک میں طویل عرصے سے مسلح اور معاشی دہشت گردی مسلط ہے۔

معاشی دہشت گردی مسلح دہشت گردی سے زیادہ خطرناک ہے جس طرح مسلح دہشت گردی کے خلاف آپریشن کیا گیا اسی طرز پر معاشی دہشت گردی کے خلاف بھی آپریشن کی ضرورت ہے۔ ہم ایک سال سے کرپشن کے خلاف عوامی جدوجہد کر رہے ہیں۔ معاشی دہشت گردی کے ہوتے ہوئے پاکستان ترقی نہیں کر سکتا، یہ کینسر سے زیادہ خطرناک بیماری ہے۔ معاشی دہشت گردوں نے پاکستان کے ہر بچے کو ورلڈبینک کا مقروض بنا دیا ہے اس کی وجہ سے تمام ادارے ناکام ہو چکے ہیں اور لوگ ملک کے اندر سے اپنا سرمایہ بیرون ملک لے کر جا رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے پانامہ لیکس کے حوالے سے ملک کی سب سے بڑی عدالت سپریم کورٹ آف پاکستان کا دروازہ کھٹکھٹایا ہے۔ میڈیا نے بھی کرپشن میں ملوث سیاہ چہروں کو بے نقاب کیا ہے۔ پانامہ لیکس کے بعد ہمارا خیال تھا کہ حکومت ازخود ایکشن لے گی یا اعتراف کر کے قوم سے معافی مانگے گی یا پھر ایسا نظام لائے گی کہ آئندہ کے لئے کوئی کرپشن نہ کر سکے۔

وزیراعظم نے 3 بار قوم سے خطاب کیا لیکن صرف اپنی ذاتی صفائی پیش کی۔ حکومت نے کمیشن بنانے کے لئے سپریم کورٹ کو خط لکھا لیکن یہ ایک ایسا عجیب خط تھا کہ جس میں یہ ذکر نہیں تھا کہ یہ کمیشن کس کے خلاف بنے کس نے جرم کیا ہے۔ سپریم کورٹ خود حیران تھی کہ کمیشن کس کے لئے بنائے۔ اسی لئے سپریم کورٹ نے فوری طور پر حکومت کو جواب دیا کہ وہ مخصوص افراد، کمپنیوں یا کوئی مخصوص چیز بتائے جس کے خلاف کمیشن بنانا چاہتی ہے۔

افسوس کی بات ہے 4 ماہ گزر گئے حکومت نے ابھی تک سپریم کورٹ کو جواب نہیں دیا۔ انہوں نے کہ تمام اپوزیشن جماعتوں نے بھی اس معاملے پر کمیشن بنانے کا متفقہ فیصلہ کیا تھا اور حکومت اور اپوزیشن کے درمیان ٹی او آرز بنانے کے لئے اتفاق ہوا لیکن اس کمیٹی کے 8 اجلاس ہو چکے ہیں۔ کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔ ہم محسوس کر رہے ہیں کہ حکومت ٹال مٹول کی کوشش کر رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ پانامہ لیکس پر کمیشن بنانے کے لئے آئین میں تبدیلی ہو۔ ایک ایسا کمیشن بنے جو بااختیار ہو، تحقیقات بھی کرے اور سزا بھی تجویز کرے۔ ایسا نہ ہو کہ ایبٹ آباد کمیشن اور حمود الرحمن کمیشن کی طرح الماریوں میں صرف ایک کتاب کا اضافہ ہو۔ سینیٹر سراج الحق نے کہا کہ ہم سپریم کورٹ میں اس لئے آئے ہیں کہ عدالت حکومت کو واضح حکم دے کہ وہ پانامہ لیکس کے حوالے سے کمیشن بنانے کے لئے قانون سازی کرے کیونکہ پرانا قانون غیرموثر ہو چکا ہے اور یہ بین الاقوامی تقاضے بھی پورے نہیں کرتا۔

حکومت کا اقوام متحدہ کے ساتھ بھی کرپشن کے خلاف ایک معاہدہ موجود ہے لیکن پانامہ لیکس کے بعد نہ نیب حرکت میں آیا اور نہ ایف آئی اے۔ چوری کی دولت کا پتہ لگانے کے لئے کئی ادارے موجود ہیں لیکن وہ تمام سوئے ہوئے ہیں اس لئے کہ شاید حکومت یہ نہیں چاہتی۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ نیب کو اختیار حاصل ہے لیکن وہ اب تک حرکت میں نہیں آیا۔ سراج الحق نے کہا کہ حکومت پانامہ لیکس کے معاملے کو سرد خانے میں ڈالنا چاہتی ہے مگر عوام ایسا نہیں کرنے دیں گے۔

556 آف شور کمپنیوں میں پاکستانیوں کے نام آئے ہیں۔ ہم یہ چاہتے ہیں کہ اس بات کا پتہ لگایا جائے کہ انہوں نے یہ رقم کہاں سے حاصل کی۔ غیرقانونی پیسے کو ملک میں واپس لایا جائے، کرپشن فساد فی الارض ہے۔ قرضے معاف کرانے والے بھی پردوں کے پیچھے چھپنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن ساری قوم جانتی ہے کہ کس نے کتنے قرضے ہڑپ کئے۔ ہم کرپشن میں ملوث سیاسی و غیرسیاسی لوگوں، بیوروکریٹس، سابق جرنیلوں سب کا پیچھا کریں گے جن لوگوں نے ملک کے لئے خون تو کیا ایک ناخن بھی نہیں کٹوایا وہ سب سے بڑے قرضے معاف کرانے والے اور کرپشن میں ملوث ہیں۔

کرپشن سنجیدہ مسئلہ ہے لیکن حکومت اسے سنجیدگی سے نہیں لے رہی۔ انہوں نے کہا کہ جمہوریت کے استحکام کے لئے ضروری ہے کہ اپوزیشن کی جماعتیں بھی اپنے آپ کو احتساب کے لئے پیش کریں۔ سراج الحق، آصف زرداری، عمران خان سمیت جو جو سیاست میں موجود ہے سب کو احتساب کی بھٹی سے گزرنا ہو گا۔ ملک میں صاف شفاف احتساب ہو گا تو جمہوریت مضبوط ہو گی۔ ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ نیب کو بھی طلب کرے اور اس سے پوچھے کہ اس نے چار پانچ ماہ میں پانامہ لیکس کے معاملے پر کیا ایکشن لیا ہے۔ 20 کروڑ عوام سپریم کورٹ کی طرف دیکھ رہے ہیں ۔ سراج الحق نے کہا کہ سپریم کورٹ بلاشبہ تحقیقاتی ادارہ نہیں ہے لیکن اداروں کو بلا کر کمیشن بنا سکتی اور حکومت کو قانون سازی کا حکم دے سکتی ہے۔