پاکستان کے خلاف ایم کیوایم کے قائد کی باتیں قابل مذمت ہیں،ایک سیاسی جماعت غیر ملکی آقاؤں کو خوش کرنے کیلئے ایسی باتیں کررہی ہے،پاکستان نے اس سیاسی جماعت کو سب سے زیادہ عزت دی، اس کوریاست اور ریاستی اداروں کے خلاف منفی باتیں کرنے کا کوئی حق نہیں

سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے قانون انصاف کی الطاف حسین کے پاکستان مخالف بیان اور میڈیا ہاؤسز پر حملوں کی مذمت نیب میں تقرری اور ترقیوں کے قانون پر نظر ثانی کیلئیذیلی کمیٹی تشکیل ،سپریم کورٹ میں ٹی سی ایس کیس میں فریق بنے گی

منگل 23 اگست 2016 20:18

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔23 اگست ۔2016ء) سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے قانون انصاف نے ایم کیو ایم قائد الطاف حسین کے بیان اور کراچی میں میڈیا ہاؤسز پر حملوں کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ریاست اور پاکستان کے خلاف جو باتیں کی ہیں وہ قابل مذمت ہیں،ایک سیاسی جماعت غیر ملکی آقاؤں کو خوش کرنے کے لیے ایسی باتیں کررہی ہے،پاکستان نے اس سیاسی جماعت کو سب سے زیادہ عزت دی،پاکستان اور ریاستی اداروں کے خلاف ایسی باتیں کرنے کا کوئی حق نہیں،سینٹر سعید غنی نے اجلاس میں انکشاف کیا کہ نیب میں میٹرک پاس شہزاد نعیم شخص کو ڈپٹی ڈائریکٹر لگا دیا گیا، ڈی جی نیب شکیل اعوان اور ڈائریکٹر ٹو چیئرمین نیب ناصر اقبال کو غلط ترقی دی گئی،فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ نیب نے خود قانون بنایا اور نافذ کر دیا چیئرمین نیب خود ون مین شو ہے ،نیب سول سرونٹس کو ترقی نیب قوانین کے تحت نہیں دے سکتا،سپریم کورٹ کہہ چکی ہے کہ ریٹائرڈ آفیسر کو کنٹریکٹ پر بھرتی نہیں کیا جاسکتا ،اس ملک میں جس کے پاس گرفتاری کے اختیارات ہیں وہ طاقت ور انسان ہے،چیئرمین کمیٹی جاوید عباسی نے کہا کہ اس سارے معاملے میں ہمارا بھی قصور ہے کمیٹی نے سپریم کورٹ میں خواتین ججز کے لئے خصوصی کوٹہ مختص کرنے کا بل مسترد کردیا،بل ڈاکٹر بابر اعوان کی عدم پیروی کیوجہ سے مسترد کیا گیا،کمیٹی نے نیب میں تقرری اور ترقیوں کے قانون (ٹی سی ایس ) پر نظر ثانی کے لیے زیلی کمیٹی تشکیل دیدی ،ذیلی کمیٹی سپریم کورٹ میں نیب کے ٹی سی ایس کے کیس میں فریق بنے گی،کمیٹی فاروق ایچ نائیک کی سربراہی میں بنائی گئی،نہال ہاشمی،سینیٹر محمد علی سیف کمیٹی کے رکن ہونگے،سب کمیٹی ایک ماہ میں تفصیلی رپورٹ کمیٹی کو پیش کریگی،کمیٹی نے مقامی زبانوں کی ترویج اور تحفظ کے لیے آئین میں ترمیم کا بل مزید غور کے لیے موخر کردیابل پیپلزپارٹی کے سینیٹر کریم احمد خواجہ نے پیش کیا،نیب حکام نے کہا کہ میٹرک پاس شخص کا بطور ڈپٹی ڈائیریکٹر کام کرنے کا اعتراف کرلیا،پرموشن کے لیے تعلیمی قابلیت نہیں تجربہ ضروری ہے،شہزاد نعیم کو تجربہ کی بنیاد پر ہی پرموٹ کیا گیا،آئندہ پرموشن کے لیے تعلیمی قابلیت کو بھی مدنظر رکھیں گے،نیب حکام کی کمیٹی کو یقین دہانی،کمیٹی نے نیب حکام کی یقین دہانی پر معاملہ نمٹا دیا،سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف کا اجلاس میں چیئرمین کمیٹی سینیٹر جاوید عباسی کی صدارت میں ہوا اجلاس کے آغاز میں چیئرمین کمیٹینے کہا کہ میڈیا ہاؤسز پر حملے کی مذمت اور پاکستان کے حوالے سے جو الفاظ کیے گئے ہیں اس کی مذمت کرتے ہیں،کسی بیرونی آقا کو خوش کرنے کیلئے ایسی زبان کا استعمال کیا گیا ہے۔

(جاری ہے)

سینیٹر سعید غنی نے کہا کہ نیب کے اپنے ٹی سی ایس ہیں اور ڈیپوٹیشن پر جو ایکویلنٹ پوسٹ کے مطابق رکھا جائے گا اور ڈی جی نیب جب ڈیپوٹیشن پر آئے تو ایک اسکیل اوپر دیا گیا، جو نیب کے اپنے ٹی سی ایس کی خلاف ورزی کی گئی ہے اور تین مہینے سے زیادہ کسی کو بھی عارضی طور پر نہیں رکھا جاسکتا اور اگر رکھا جاتا ہے تو نیب کے اپنے اصولوں اور قوانین کی خلاف ورزی ہے،ایک شخص میٹرک پاس ہے،اس کی ترقی ہوئی اور ڈپٹی ڈائریکٹر بنایا گیا ہ،شہزاد نعیم اس کا نام ہے اور وہ نیب ہیڈکوارٹر میں تعینات کیا گیا تھا۔

ڈی جی نیب نے بتایا کہ ابھی وہ نیب کے فنانس سیکشن میں موجود ہے۔نہال ہاشمی نے کہا کہ اس ملک میں بارہویں پاس صدر بن گیا تو اس میں کونسی مشکل ہے،ڈی جی نیب نے بتایا کہ نیب میں شہزاد نعیم 2003میں آیا تھا ترقی کیلئے تعلیمی قابلیت کی ضرورت نہیں ہے اور تجربے کی بنیاد پر اس کی ترقی ہوئی ہے اور یہ حکومت اور نیب کے قواعد کے مطابق ہے،سیکرٹری قانون بالکل سروس کے قوانین میں موجود ہیں۔

چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ پہلے اس طرح ہوتا تھا ڈی جی نیب کے مطابق اور اب اس میں ترمیم کر دی گئی ہے۔فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ محکموں میں جتنی بھرتیاں کی گئیں ہیں سوال یہ ہے کہ کیا وہ قانون کے مطابق اور قانونی حیثیت موجود ہے،کیا نیب جو کام کر رہا ہے وہ قانون کے دائرے میں آتا ہے یا نہیں اور نیب میں ملازمین کی حیثیت کیا ہے۔ڈی جی نیب نے بتایا کہ نیب میں بھرتیوں کی اتھارٹی چیئرمین نیب کے پاس ہے اور نیب ملازمین سول سرونٹس ہیں۔

گریڈ19سے زائد پر بھرتیوں کا اختیار چیئرمین نیب اور گریڈ 17اور 18پر ڈی جی نیب کو ہے۔فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ ڈیپوٹیشن پر آنے والا سول سرونٹ رہے گا اور نیب میں بھرتی ہونے والا سول سرونٹ نہیں ہوگا۔ڈی جی نیب ملک شکیل اعوان نے بتایا کہ 807ٹوٹل افسران میں29افسران ڈیپوٹیشن پر ہیں۔فاروق ایچ نائیک نے کہا ہے کہ چیف ایگزیکٹو سے منظوری کروائی گئی صدر سے نہیں کرائے گئے ٹرمز آف سروس قواعد و ضوابط نہیں ہیں اور اس میں ڈیپوٹیشن کا ذکر ہی نہیں ہے اور ڈیپوٹیشن والے کی ترقی نہیں ہوسکتی اور 2013میں سپریم کورٹ نے حکم دیا ہے کہ ڈیپوٹیشن پر آئے ہوئے لوگ واپس چلے جائیں،سپریم کورٹ نے کہا کہ ریٹائرڈ لوگوں کو عارضی طور پر نہیں رکھا جاسکتا اگر نیب کے قوانین میں کی گئی ترمیم نہیں مانی جاتی تو اسیکوڑے میں پھینک دیں،ایک تھرڈ کلاس مجسٹریٹ ایم این اے سے زیادہ طاقتور ہے۔

چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ اگر ہم سنجیدہ تھے تو ہمیں اپنا کام پہلے کرنا چاہیے تھا مگر ہم نے اپنا کام نہیں کیا۔فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ سربراہی میں ذیلی کمیٹی تشکیل دی گئی نہال ہاشمی اور بیرسٹر سیف بھی ممبر ہونگے جو نیب سروس رولز کا جائزہ لیں گے۔سعید غنی نے کہا کہ ٹی وی پروگرام میں کہا گیا انور گوپانگکے حوالے سے چیئرمین نیب نے کہا کہ اس شخص کو نکال دیا گیا ہے مگر وہ شخص ابھی بھی موجود ہے۔

سعید غنی نے کہا کہ ہم دونوں میں سے کوئی جھوٹا ہے یا تو چیئرمین نیب جھوٹا ہے یا میں پھر جھوٹا ہے اور انور گوپانگ کو بڑا پارسا بنایا جاتا ہے اور ٹی وی پر کہا جاتا ہے کہ بندہ نہیں ہے مگر دستاویزات میں وہ شخص موجود ہے۔ڈاکٹر بابر اعوان نے سپریم کورٹ کے ججوں کی تعداد کے حوالے سے بل مسترد کردیا تھا۔چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ بل کے لوگ موجود نہیں ہیں محرک سنجیدہ نہیں ہیں اور اس اجلاس تک کیلئے وقت دیا گیا تھا۔

کمیٹی نے فیصلہ کیا ہے کہ آج اس بل کو ڈراپ کردیا جائے۔چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ سرپیم کورٹ اور ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن نے کہا کہ 7ججز سے زائد تعداد نہیں بڑھانی چاہیے۔عائشہ رضا فاروق نے کہا کہ لوئیرکورٹس میں اگر خواتین موجود ہیں تو وہ آسانی سے جس طرح مرد ترقی کرتے ہیں ایسے ان کو بھی ترقی اسی طرح دینی چاہیے،آئین پاکستان میں ترمیم کا بل مقامی زبانوں کا تحفظ کیا جائے،زبانوں کو تحفظ دیا جانا چاہیے صوبوں نے اپنی زبانوں کی ترویج کی ہے۔

فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ کریم خواجہ اس ترمیم کے الفاظ کو دوبارہ لکھا جائے اور آئین کے آرٹیکل 251سے متصادم ہے۔سید اعتزاز احسن نے کہا کہ اس بل پر غور کیا جاسکتا ہے مگر اچھی ترمیم ہے اور اس کو منظور کرنا چاہیے،کمیٹی نے بل اگلے اجلاس تک کیلئے موخر کردیا۔