سانحہ ہاتھی خیل انسانی تاریخ کا سیاہ ترین دن ہے ،شہداء ہمارے دلوں میں زندہ رہیں گے، اسفندیار ولی خان

عدم تشدد کے علمبرداروں نے تاریخ کے ہر دور میں جانوں کے نذرانے پیش کئے اور شہدائے ہاتھی خیل کی قربانیاں تاریخ کا روشن باب ہیں باچا خان بابا کے پیروکاروں نے فرنگی سامراج کے سامنے گھٹنے ٹیکنے سے انکار کر دیا جس پر بیشتر افراد کو گرفتار کر لیا گیا

منگل 23 اگست 2016 19:14

پشاور(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔23 اگست ۔2016ء) عوامی نیشنل پارٹی کے مرکزی صدر اسفندیار ولی خان نے کہا ہے کہ 24اگست سانحہ ہاتھی خیل بنوں انسانی تاریخ کا سیاہ ترین دن ہے اور شہدائے ہاتھی خیل کی قربانیاں تاریخ کا روشن باب ہیں ، 24اگست یوم ہاتھی خیل کے حوالے سے اپنے ایک بیان میں اسفندیار ولی خان نے کہا کہ باچا خان بابا کے پیروکار اور عدم تشدد کے علمبرداروں نے تاریخ کے دور میں جانوں کے نذرانے پیش کئے اور وہ شہداء ہمیشہ ہمارے دلوں میں زندہ رہیں گے۔

انہوں نے مزید کہا کہ 1930ء کو قصہ خوانی بازار میں انگریزسرکار نے یہاں کے عظیم حریت پسندوں اور خدائی خدمتگاروں پر ظلم و بربریت کے جو پہاڑ توڑے تھے اس کے ردعمل میں صوبے کے دیگر علاقوں کے خدائی خدمتگاروں کی طرح ضلع بنوں کے خدائی خدمتگاروں میں بھی سخت غم و غصہ پایا جاتا تھا تاہم وہ باچاخان کے عدم تشدد کے فلسفہ اور پالیسی پرگامزن تھے اس لیے کوئی اور راستہ اپنانے کے بجائے سانحہ قصہ خوانی اور ٹکر کے ردعمل میں پرامن احتجاج کرنے کا فیصلہ کیاگیا۔

(جاری ہے)

جس میں معروف عالم دین اور خدائی خدمتگارقاضی فضل قادر اور قبیلہ وزیر سے تعلق رکھنے والے ایوب خان ملک پیش پیش تھے۔ قاضی فضل قادر کو گرفتار کرنے کے لیے تمام علاقے کے دیہاتوں پر چھاپے مارے جارہے تھے تو ایوب خان ملک نے انہیں کہا آپ ہمارے ہاں آجائیں تاہم بعد میں انہیں رحیم داد خان نے بنوں میں پناہ دی ،امرکزی صدر نے کہا کہ اس سلسلے میں پہلا جلسۂ عظیم گاوں میں منعقد کیا اس کے خلاف علاقے کے ملکان اور خان بہادروں کا خطاب حاصل کرنے والوں نے علاقے کے عوام کو دھمکیاں دیں کہ اگر کسی نے بھی جلسۂ میں شرکت کی تو اسے عبرت ناک سزا دی جائے گی۔

تاہم کسی بھی خدائی خدمت گار نے ان لوگوں کی دھمکی پر کان نہیں دھرے اور جلسۂ میں شریک ہوئے ،اس طرح چھوٹے چھوٹے جلسئے پورے علاقے میں کیے گئے تاہم سب سے بڑا جلسۂ 24 اگست1930ء کو بمقام سپین تنگی ہاتھی خیل منعقدکیاگیا۔انہوں نے کہا کہ اس سے قبل تقریباً اسی خدائی خدمتگاروں کو گرفتار کیاگیا۔ اس دوران قاضی فضل قادر سٹیج پر آئے اور لوگوں کو تلقین کی کہ چوں کہ ہم عدم تشدد پر یقین رکھنے والے ہیں اس لیے کوئی بھی ایسی حرکت نہیں کرنی چاہئے جس سے ہماری عدم تشدد کی پالیسی پر آنچ آجائے۔

اور اس کے بعد قران پاک کی تلاوت شروع کردی اس دوران انگریز کمانڈر سٹیج پر چڑھ دوڑے اور قاضی فضل قادر کو داڑھی سے پکڑکر سٹیج سے گرانے کی کوشش کی جبکہ انگریزفوج نے فائرنگ شروع کردی فائرنگ کے نتیجے میں تقریباً اسی خدائی خدمتگار شہید اور دوسو سے زائد زخمی ہوئے۔ان زخمیوں میں قاضی فضل قادربھی شدید زخمی ہوئے جنہیں ڈومیل ہسپتال پہنچایا گیا تاہم وہ زخموں کی تاب نہ لاکر ہسپتال ہی میں شہید ہوگئے،جس کے بعد انگریزفوج نے ایک اور ظلم یہ کی کہ شہیدقاضی فضل قادر کی میت کو ان کے ورثاء کے حوالہ کرنے سے انکار کیا اور ان کی میت کو بنوں جیل میں قید کرکے دفنادیاگیا۔

اسفندیار ولی خان نے کہا کہ 2002ء میں اُس وقت کے وزیر اعلیٰ نے اس جیل کو پارک میں تبدیل کر کے اسے شہید قاضی فضل قادر کے نام سے منسوب کردیا اور ان کی قبر کو پختہ اور خوبصورت بناکر اسے مزار کی شکل میں تعمیر کردیاہے،جہاں اب بھی لوگ ان کے مزار کی زیارت کے لیے جاتے ہیں۔