”پاکستان جہنم نہیں ہے “کہنے پربھارتی ادارکارہ اور سیاستدان رمیا کے خلاف غداری کا مقدمہ درج

منگل 23 اگست 2016 16:01

”پاکستان جہنم نہیں ہے “کہنے پربھارتی ادارکارہ اور سیاستدان رمیا کے ..
نئی دہلی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔23 اگست ۔2016ء) پاکستان جہنم نہیں ہے کہنے پربھارتی اداکارہ اور سیاستدان رمیا کے خلاف بغاوت کا مقدمہ درج کرلیا گیا ،بھارتی اداکارہ کا کہنا ہے کہ بغاوت کا مقدمہ قائم کیے جانے کے باوجود اپنے بیان پر قائم ہوں ۔ غیر ملکی میڈیا کے مطابق بھارتی اداکارہ اور سیاستدان رمیا کے خلاف پاکستان جہنم نہیں ہے کا بیان دینے پر بغاوت کا مقدمہ درج کرلیا گیا ہے ۔

رمیا کا اصل نام دویا سپندنا ہے اور ان کا تعلق جنوبی ریاست کرناٹک سے ہے۔ وہ کانگریس سے وابستہ اور سابق رکن پارلیمان ہیں۔ حال ہی میں وہ سارک کے ایک اجلاس میں شرکت کے لیے اسلام آباد گئی تھیں۔رمیا پر یہ کہنے کا الزام ہے کہ پاکستان جہنم نہیں ہے، وہاں کے لوگ ہم جیسے ہی ہیں اور وہاں ہماری اچھی دیکھ بھال کی گئی۔

(جاری ہے)

انھوں نے بظاہر یہ بات بھارتی وزیر دفاع منوہر پاریکر کے ایک بیان کے جواب میں کہی تھی۔

بغاوت کا مقدمہ قائم کیے جانے کے بعد رمیا نے بنگلور میں ایک ٹی وی چینل سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ اپنے بیان پر قائم ہیں اور انھوں نے ایسی کوئی بات نہیں کہی ہے جس کے لیے وہ معافی مانگیں۔انھوں نے کہا کہ معافی مانگنا میرے لیے سب سے آسان کام ہے لیکن یہ مسئلے کا حل نہیں، آج کل ملک میں حالات کچھ ایسے ہیں کہ کسی کے بھی خلاف بغاوت کا مقدمہ قائم کیا جاسکتا ہے۔

اس قانون کا غلط استعمال کیا جارہا ہے اور میرے خیال میں اسے ختم کرنے کا وقت آگیا ہے۔رمیا کے خلاف مقدمہ ایک وکیل کے وٹل گوڑا کی شکایت پر قائم کیا گیا ہے۔ مقدمے کی ابتدائی سماعت27 اگست کو ہو گی۔کرناٹک میں بی جے پی اور اس کی طلبہ تنظیم کے کارکن رمیا سے معافی مانگنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یا تو وہ معافی مانگیں یا پاکستان چلی جائیں۔

سوشل میڈیا میں بھی ان کے بیان پر بحث جاری ہے۔ بعض ان کی حمایت ہیں اور بعض انھیں پاکستان چلے جانے کا مشورہ دے رہے ہیں۔گذشتہ ہفتے ہی انسانی حقوق کے بین الاقوامی ادارے ایمنیسٹی انٹرنیشنل کے خلاف بھی پولیس نے بغاوت کا مقدمہ قائم کیا تھا جس کے بعد ایمنیسٹی نے بھارت میں اپنا کام بند کرنے کا اعلان کیا ہے۔ پولیس کا دعوی ہے کہ ایمنیسٹی کے ایک پروگرام میں دیش مخالف نعرے بلند کیے گئے تھے۔

بھارت میں گذشتہ چند مہینوں سے بغاوت سے متعلق قانون پر بحث جاری ہے اور شہری حقوق کے لیے کام کرنے والوں کا الزام ہے کہ اظہار خیال کی آزادی کو ختم کرنے کے لیے اس قانون کا بے جا استعمال کیا جارہا ہے۔یہ بحث اس وقت شروع ہوئی تھی جب جواہر لال نہرو یونیورسٹی کی طلبہ یونین کے صدر کنہیا کمار اور بعض دیگر طلبہ کے خلاف بغاوت کے مقدمات قائم کیے گئِے تھے۔ ان پر الزام تھا کہ انھوں نے کشمیر کی آزادی کے حق میں اور بھارت کی سالمیت کے خلاف نعرے لگائے تھے۔

متعلقہ عنوان :