مدارس کے خلاف یک طرفہ قانون کو قبول نہیں کریں گے،مولانا فضل الرحمن

ملک میں باقاعدہ ایسی سیاسی جماعتیں اور شخصیات ہیں جو مغربی تہذیب کی نمائندے ہیں ڈاکٹر خالدمحمود سومرو شہید کے قاتلوں کو سزا نہ ملنے کے خلاف یکم ستمبر کو وزیراعلیٰ ہاؤس سندہ کے سامنے احتجاجی دھرنے کا بھی اعلان

پیر 22 اگست 2016 19:30

سجاول(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔22 اگست ۔2016ء) جمعیت علمائے اسلام کے امیراور چیئر مین کشمیر کمیٹی مولانا فضل الرحمن نے کہاہے کہ مدارس کے خلاف یک طرفہ قانون کو قبول نہیں کریں گے،سجاول میں جامعہ دارالفیوض القاسمیہ میں ورکرز کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ اسلام انفرادی زندگی میں رہنمائی فراہم کرتاہے ، ہم مسائل کے شرعی حل کے لئے علماء سے رابط کرتے ہیں،اور وہ رہنمائی کرتے ہیں، لیکن قوم کے اجتماعی معاملات ہوں تو فرد عالم کی اہمیت نہیں اس کے لئے جمیعت علماء ہونی چاہئے علماء کی اجتماعی رائے ہونی چاہئے، اس لئے ہمارے اکابرین آزادی کی جنگ لڑی ،انگریز کا راج ختم ہونے کے بعد اب امریکہ نے اس کی نیابت سنبھال لی ہے، وہ دنیا پر قبضہ کرنا چاہتاہے، براہ راست نہ سہی بالواسطہ قوموں کو غلام بنارہاہے ،آج بھی آزادی کا مقصد ہمارے لئے جوں کا توں ہے،آزادی انسان کا بنیادی، پیدائشی حق ہے،قرآن کریم انسان کی آزادی کو اولین حق قرار دیتاہے،ہم اسلامی تشخص پر فخر کرتے ہیں،جمیعت علمائے اسلام پارلیمنٹ میں سب سے بڑی دینی جماعت ہے جو پورے عالم اسلام کی نمائندگی کرتی ہے، ہم کسی جاگیردار سرمائیدار کے خلاف نہیں بلکہ یہ کہتے ہیں کہ اگر کوئی ہاری مزدور کام کرتاہے تو اس کو برابر حقوق دئے جائیں،آج ہمارے دینی مراکز ان کی آنکھوں میں کھٹکتے ہیں کیونکہ انسانیت اور انصاف کا درس دیاجاتاہے ،یاد رکھیں قوم کو اس وقت غلام بنایاجاتاہے جب ان کے اندر سے مذہب کو چھین لیں،اور تہذیب کی چادر چھین لیں،ہمارے ملک میں باقاعدہ ایسی سیاسی جماعتیں اور سیاسی شخصیات ہیں جو مغربی تہذیب کی نمائندے ہیں،ان کا ایک ہی ایجنڈا ہے ،انہوں نے کہاکہ سندہ حکومت نے یک طرفہ طور پر دینی مدارس اور مساجد کے خلاف ایک قانون متعارف کرایاہے ،اور جبر ہم پر مسلط کرنا چاہتے ہیں،میں نے کل بھی کہا تھااور آج بھی کہتاہوں کہ مدارس اور مساجد کے بارے کوئی بھی یک طرفہ قانون قابل قبول نہیں ہوگا،ایساقانون جو یک طرفہ ہو اور جبری مسلط کیاجاے گااس کو جوتی کی نوک پر رکھتے ہیں،مدرسے کا جمیعت کا اور دینی جماعتوں کا آپ پر احسان ہے،اگر ملک میں انتہا پسندی کو روکاہے تو علماء کے اجتماعی بیان نے روکاہے،دہشت گردی اور انتہاپسندی کے خلاف اگر علما متحد نہ ہوتے تو شاید پاکستان ان کا مقابلہ نہ کرسکتا،تعاون کا یہ بدلہ دیاجاتاہے کہ بدمعاشی سے مد رسے کو بند کریں گے،بدمعاشی نہیں چلے گی،نہیں چلے گی،انہوں نے کہا کہ انشاء اللہ جمیعت کا کاروان چلتارہے گا، اور سات آٹھ نو اپریل دوہزار سترہ کو پشاور میں صدسالہ تقریب بھرپور طریقے سے ہوگی جس میں سب شرکت کریں، اس موقع پر مرکزی رہنماؤں مولاناامجد خان ،مولانا عبدالقیوم ہالیجوی، مولانا راشد محمود سومرو، فضل اللہ فیاض، سمیت مرکزی ، صوبائی قائدین نے خطاب کیا،جبکہ مولانامحمد ابراہیم میمن، سائیں حبیب اللہ سموں ، عبدالرزاق لاکھو ، مولاناہیو بھی شرکت کی جبکہ تین ڈویزنوں کے عہدیداران ہزاروں کی تعداد میں موجودتھے تقریب میں طلباء کی دستاربندی بھی کی گئی ،جبکہ مقامی رہنماؤں نے مولانافضل الرحمن کو روائتی اجرک کا تحفہ پیش کیا، مولانافضل الرحمن گذشتہ رات سجاول پہونچے اور مولانا محمد اسماعیل میمن کے گھر پر قیام کیاجبکہ صبح کو جنہاں سومروم روانہ ہوئے جہاں سے واپسی پر سجاول میں کنونشن میں شرکت کی،اس موقع پر سجاول میں سخت سیکورٹی انتظامات دیکھنے میں آئے پولیس کے علاوہ جمیعت کے کارکنوں نے واک تھرو اور چیکنگ کا بھی اہتمام کیاتھا،سجاول کے دورے کے دوران مولانافضل الرحمن نے میڈیاسے کوئی بات نہیں کی ،تقریب میں ڈاکٹر خالدمحمود سومرو شہید کے قاتلوں کو سزا نہ ملنے کے خلاف یکم ستمبر کو وزیراعلیٰ ہاؤس سندہ کے سامنے احتجاجی دھرنے کا بھی اعلان کیاگیا جس میں کارکنوں نے بھرپور شرکت کی ہامی بھری۔

متعلقہ عنوان :