دہشتگردی میں شہید وں کے لہو کا ایک ایک قطرہ قرض ہے ٗ سانحہ کوئٹہ کے متاثرین خود کو تنہا نہ سمجھیں ٗصدر ممنون حسین

آپریشن ضرب عضب آخری مراحل میں ہے ٗنیشنل ایکشن پلان کے تحت آپریشن ضرب عضب کے نتائج حوصلہ افزا ہیں ٗدہشتگردی کے خلاف جنگ میں پوری قوم مسلح افواج کے شانہ بشانہ ہے ٗدیدہ اور نادیدہ دشمن کو بھاگنے نہیں دیاجائیگا یقین ہے آخری کاری ضرب لگا کر دہشتگردوں کا ہمیشہ کیلئے خاتمہ کردیں گے ٗکشمیری بھائیوں کی سیاسی ٗاخلاقی اور سفارتی حمایت اور مدد جاری رکھیں گے ٗبدی کی قوتوں کو سرنگوں کرکے اپنے وطن کو اندھیروں سے پاک کرنے کیلئے قوم متحد ہوجائے ٗ قوم کی بیٹیاں علم و ہنر کی دولت سے مالا مال ہوکر ملک کی ترقی میں اپنا کردار ادا کریں گی ٗنوجوانوں کے جوش و جذبے کو جذبہ تعمیر میں بدلنے کی ضرورت ہے ٗیوم آزادی پر کشمیری بھائیوں کو بھولنا نہیں چاہیے ٗ پرچم کشائی کی مرکزی تقریب سے خطاب

اتوار 14 اگست 2016 17:04

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔14 اگست ۔2016ء) صدرمملکت ممنون حسین نے کہا ہے کہ دہشتگردی میں شہید ہونے والوں کے لہو کا ایک ایک قطرہ ہم پر قرض ہے ٗ سانحہ کوئٹہ کے متاثرین خود کو تنہا نہ سمجھیں ٗآپریشن ضرب عضب آخری مراحل میں ہے ٗنیشنل ایکشن پلان کے تحت آپریشن ضرب عضب کے نتائج حوصلہ افزا ہیں ٗدہشتگردی کے خلاف جنگ میں پوری قوم مسلح افواج کے شانہ بشانہ ہے ٗدیدہ اور نادیدہ دشمن کو بھاگنے نہیں دیاجائیگا ٗ یقین ہے آخری کاری ضرب لگا کر دہشتگردوں کا ہمیشہ کیلئے خاتمہ کردیں گے ٗکشمیری بھائیوں کی سیاسی ٗاخلاقی اور سفارتی حمایت اور مدد جاری رکھیں گے ٗبدی کی قوتوں کو سرنگوں کرکے اپنے وطن کو اندھیروں سے پاک کرنے کیلئے قوم متحد ہوجائے ٗ قوم کی بیٹیاں علم و ہنر کی دولت سے مالا مال ہوکر ملک کی ترقی میں اپنا کردار ادا کریں گی ٗنوجوانوں کے جوش و جذبے کو جذبہ تعمیر میں بدلنے کی ضرورت ہے ٗیوم آزادی پر کشمیری بھائیوں کو بھولنا نہیں چاہیے۔

(جاری ہے)

اتوار کو یہاں جناح کنونشن سینٹر میں70ویں یوم آزادی کے موقع پر پرچم کشائی کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے صدر مملکت نے کہاکہ وطن عزیزکی فضاؤں میں لہراتے ہوئے قومی پرچم ، نوجوانوں کے تمتماتے چہروں سے پھوٹنے والی عزم وہمت کی روشنی اور پاک وطن کے ہر شہری کے دلی جذبات، آج کے دن کی عظمت اور اہمیت کی گواہی دے رہے ہیں۔ آئیے! ہم سب اس دعا میں شریک ہو جائیں کہ ہمارا یہ سبز ہلالی پرچم اسی آن بان اور شان وشوکت کے ساتھ سربلند رہے اور قوم کی عزت و ناموس میں اضافہ کرتا رہے۔

صدر مملکت نے کہاکہ مجھے یقین ہے کہ ہماری یہ دعائیں ضرور مستجاب ہوں گی تاہم زندگی اور آزمائش کا بھی چولی دامن کا ساتھ ہے۔ ایسی ہی ایک آزمائش سے گزشتہ دنوں ہم کوئٹہ میں دو چار ہوئے ہیں جس میں ہمارے بہت سے عزیز بھائی، دوست اور بچے شہید ہوئے۔ ہم اس سانحے پر دل گرفتہ ہیں اور شہیدوں کے لواحقین سے تعزیت کرتے ہیں تاہم اس کے ساتھ ہی ہم غمزدہ خاندانوں کو بھی یقین دلاتے ہیں کہ اس صدمے نے پوری قوم کے دل غم سے چھلنی کر دیے ہیں اور ہر پاکستانی محسوس کرتا ہے کہ کوئٹہ کے گلی کوچوں سے اٹھنے والے جنازے خود ان کے اپنے گھروں سے اٹھے ہیں۔

اس لیے غمزدہ خاندان خود کو تنہا اور بے آسرا نہ سمجھیں۔ میں اعلان کرتا ہوں کہ اس دہشت گردی میں شہید ہونے والے ایک ایک فرد کا لہو ہم پر قرض ہے ٗ اس لہو کا حسا ب ہم نے پہلے بھی چکایا ہے اور انشا ء اﷲ آئندہ بھی اس کا پورا حساب لیا جائیگا دیدہ و نادیدہ دشمن کو بھاگنے نہیں دیا جائے گا ۔اس طرح کے افسوس ناک واقعات کے باوجود یہ ایک حقیقت ہے کہ نیشنل ایکشن پلان کے تحت آپریشن ضرب عضب کے نتائج حوصلہ افزا رہے ہیں اور اب یہ کامیابی کے آخری مراحل میں ہے۔

مجھے پورا اعتماد ہے کہ ہم ایک نئے عزم کے ساتھ بھرپور کارروائی کرکے دہشت گردی کا مکمل خاتمہ کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے اور یہ ناسور پھر کبھی سرنہ اُٹھا سکے گا۔انہوں نے کہاکہ ہمیں خوشی ہے کہ مسلح افواج اور قانون نافذ کرنے والے اداروں نے اس جنگ میں اپنی جان پر کھیل کر ملک وقوم کاتحفظ کیا ہے جس پر قوم اپنے ان بہادر سپوتوں کو خراج تحسین پیش کرتی ہے اور انھیں یقین دلاتی ہے کہ مادرِ وطن کے تحفظ کی جنگ میں وہ ہمیشہ ان کے شانہ بشانہ کھڑی رہے گی۔

صدر مملکت نے کہاکہ پاکستان آج جس آزمائش سے دوچار ہے ، اس سے نمٹنے کے لیے ضروری ہے کہ تحریکِ پاکستان کے جذبے اور قائد اعظمؒ کی فراست سے کام لیا جائے ۔تحریک ِ آزادی کے دوران تین بار انتہا پسند تخریب کاروں نے قائد اعظمؒ کے زیرصدارت مسلم لیگ کے اجلاسوں میں گھس کرہنگامہ آرائی کی۔ مخالفین نے ان واقعات کو خوب اچھالا تاکہ مسلمانوں کو اشتعال دلا کر تصادم کی صورت حال پیدا کی جاسکے لیکن بابائے قوم نے ان مواقع پر انتہائی صبر وتحمل سے کام لیا اور اپنے رفقاء کو بھی محتاط رویہ اختیار کرنے کی ہدایت فرمائی ۔

آج کے حالات کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے ان واقعات میں ہمارے لیے سبق یہ ہے کہ دشمن کی چال کو سمجھتے ہوئے ٹھنڈے دل سے کام لیا جائے اور اختلافات کو ہوا دینے سے گریز کیا جائے تاکہ تاریخ کے اس بدترین چیلنج سے کامیابی کے ساتھ نمٹا جاسکے ۔انہوں نے کہاکہ آج کی اس پرُوقار تقریب میں پرچم کشائی کرتے ہوئے مجھے محترمہ فاطمہ صغریٰ کی یاد آرہی ہے جو غیر ملکی حکمرانوں کے جبر کی پروانہ کرتے ہوئے سول سیکریٹریٹ لاہور میں داخل ہوگئیں اور اس کی چھت سے یونین جیک اتار کر آزادی کا پرچم لہرادیا جس سے تحریک ِ آزادی کوایک نئی توانائی ملی کیونکہ اس کے بعد مسلمان خواتین بھی آنچلوں کے پرچم بنا کر میدان میں نکل آئی تھیں۔

آج میں اپنی بچیوں سے توقع رکھتا ہوں کہ وہ بھی اسی جذبے کے ساتھ علم و ہنر کی دولت سے آراستہ ہو کر معاشرے کی ترقی اور خوشحالی کی جدوجہد میں اپنا حصہ ڈالیں گی۔ انہوں نے کہاکہ آج مجھے شہید عبدالمالک کی بھی یاد آرہی ہے ۔ دشمن نے دھمکی دے رکھی تھی کہ اگر کوئی سبزجھنڈا اٹھا کر شہر میں نکلا تووہ زندہ واپس نہ جاسکے گا۔نوجوان عبدالمالک نے یہ چیلنج قبول کیا اور وہ جلوس کی قیادت کرتے ہوئے لاہور کی سڑکوں پر نکل آئے جس پر انھیں گھیر لیا گیا اور اینٹوں کی بارش کر کے موقع پر ہی شہید کر دیا گیا۔

اس شہادت کے بعد خدشہ پیدا ہوا کہ لوگ ہمت ہار کر کہیں گھروں میں نہ بیٹھ جائیں لیکن اگلے ہی روز سارا لاہور سڑکوں پر تھا اوریہ نعرہ لگا رہا تھا کہ ’’لے کے رہیں گے پاکستان اوربٹ کے رہے گا ہندوستان‘‘۔صدر مملکت نے کہاکہ جذبہ آزادی سے سرشار ایسے ہی جیالے تھے جنھوں نے ایک بار قائد اعظمؒ کا ایسا استقبال کیا جس کی یادیں آج بھی روح کو گرمادیتی ہیں۔

بابائے قوم علی گڑھ پہنچے تو ریلوے اسٹیشن سے جلسہ گاہ تک پہنچانے کے لیے انھیں بگھی پر بٹھایا گیا لیکن مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے پُرجوش طلبہ نے جلوس میں شریک ہو کر بگھی سے اُس کے گھوڑے علیحدہ کردیے اور اُن کی جگہ بگھی کو خود کھینچ کر قائد اعظم کو منزلِ مقصود تک پہنچایا۔انہوں نے کہاکہ 1946ء میں مدراس کے علاقے مدورا میں فسادات چھڑ گئے جن میں مسلمانوں کا بڑے پیمانے پر جانی و مالی نقصان ہوا۔

اس صورت ِ حال میں طلبہ متحرک ہوئے اور انھوں نے 529 روپے کی قلیل رقم سے ہلالِ احمر ہسپتال کی بنیاد ڈالی ، اﷲ نے اس کام میں اتنی برکت پیدا فرمائی کہ اس ہسپتا ل نے آئندہ دس ماہ کے دوران بیس ہزار سے زائد متاثرین کا علاج معالجہ کیا اور طویل عرصے تک اُن کی مالی اعانت جاری رکھی۔میں سمجھتا ہوں کہ ہمارے نوجوان آج بھی ایسے ہی جذبوں کے امین ہیں لیکن ان کے جذبوں کو جذبۂ تعمیر میں بدلنے کی ضرورت ہے۔

قیام پاکستان کی طرح تعمیر پاکستان کا مرحلہ بھی آسان نہ تھا ایک مغربی مصنف نے لکھا ہے کہ ’’قیام پاکستان کے فوراً بعد حکومت وسائل سے محروم تھی سرکاری دفتروں میں میز کرسی اور کاغذ پینسل تک برائے نام تھے ، یوں لگتا تھا جیسے یہ ملک اپنے پاؤں پرکبھی کھڑا نہ ہوسکے گا لیکن اس ہمت شکن ماحول میں بھی اہل پاکستان نے وقت ضائع کیے بغیر کسی نہ کسی طرح ضروری سازوسامان جمع کر کے کام شروع کر دیا۔

اب دفتروں میں دن رات ٹائپ رائٹروں کی کھٹاکھٹ سنائی دیتی اورکارکن بے لوث طریقے سے کام میں مصروف نظر آتے‘‘۔مصنف کا کہنا ہے کہ ان لوگوں نے پاکستان سیکریٹریٹ اور حکومت کا تاج محل اس جذبے کے ساتھ کھڑا کیا،دنیا میں جس کی مثال نہیں ملتی۔ سرکاری ملازمین اور انتظامیہ کا ایک بڑا حصہ آج بھی اسی جذبے کے ساتھ عوام کی خدمت میں مصروف ہے،ان جذبوں کواجتماعی رنگ دے کر عوامی مسائل میں خاطر خواہ کمی لائی جاسکتی ہے ۔

پاکستانی عوام کی قوتِ عمل کی گواہی اسکاٹ لینڈ کے ایک تاجر نے بھی دی۔اس شخص نے بتایا کہ قیام پاکستان کے چند ہی دنوں بعد کراچی کے نواحی علاقے میں ریل کا انجن کانٹا بدلتے ہوئے پٹری سے اتر گیا۔ غیر ملکی تاجر کا کہنا ہے کہ اس کے بعد اس نے ایک ناقابل یقین منظر دیکھا، امدادی کارکن ’’پاکستان زندہ باد ‘‘کے نعرے لگاتے جاتے اور کام کرتے جاتے، ان لوگوں نے بھاری مشینری نہ ہونے کے باوجود انتہائی کم وقت میں انجن کو پٹری پرچڑھا دیا۔

اسکاٹ تاجر نے یہ واقعہ بیان کرنے کے بعدکہا کہ ـ’’میں نے برصغیر میں اکیس برس گزاردیے لیکن ایسی لگن اور جوش و جذبے کی مثال کبھی نہ دیکھی ، اْس روز مجھے پاکستان کی کامیابی کا مکمل یقین ہو گیا‘‘۔صدر مملکت نے کہاکہ ہماری تاریخ کے یہ سنہر ے نقوش مشعلِ راہ بھی ہیں اور یہ بھی واضح کرتے ہیں کہ 14؍اگست 1947ء کو تحریکِ پاکستان ختم نہیں ہوئی بلکہ اِس روز یہ تحریک اگلے مرحلے میں داخل ہوگئی جس میں ہمیں نئے حالات اورنئے چیلنجوں کا سامنا ہے جن سے نمٹنے کے لیے تحریک پاکستان کے جذبے ہی سے کام لینے کی ضرورت ہے اور مجھے یقین ہے کہ ہم اس مرحلے میں بھی سرخرو ہو کر پاکستان کو ایک خوش حال ، جمہوری اور طاقت ور ملک بنانے میں کامیاب ہو جائیں گے لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ ہمارے ذہنوں میں قیام پاکستان کے مقاصدکے بارے میں کوئی ابہام نہ ہو ۔

صدر مملکت نے کہاکہ قائداعظم محمد علی جناح ؒکی تقاریر، گفتگوؤں اور انٹرویوز میں حکمت کے موتی پنہاں ہیں جن کے مطالعے سے غوروفکر کے دروازے کھلتے ہیں۔اس سلسلے میں ہم بابائے قوم کے نظریات کو پانچ نکات’’مساوات، اخوت، مذہبی، نسلی اور لسانی امتیازات سے پاک معاشرے کی تشکیل ٗ’’بنیادی حقوق کا تحفظ اور قانون کی حکمرانی۔‘‘’’منصفانہ اقتصادی نظام اورہر قسم کے استحصال کا خاتمہ۔

‘‘’’تنگ نظری کی بیخ کنی اور احکاماتِ خداوندی کی روشنی میں منصفانہ نظام کا قیام۔‘‘’’آزاد اور خود مختار خارجہ پالیسی، برابری وپُرامن بقائے باہمی کی بنیاد پر پوری دنیا کے ساتھ دوستانہ تعلقات اور اسلامی بلاک کا قیام‘‘سمیٹ سکتے ہیں انہوں نے کہاکہ میری نظر میں قائداعظم ؒ کے یہ افکار قومی نصب العین کی حیثیت رکھتے ہیں جن کی روشنی میں ہم نے گزشتہ سات دہائیوں کے دوران رکاوٹوں اور مسائل کے باوجودبہت سی کامیابیاں حاصل کی ہیں جن میں تعلیم،معیشت اور دفاع سمیت دیگر کئی شعبوں میں پیش رفت بھی شامل ہے اور نظریاتی مقاصد کی طرف پیش قدمی بھی۔

اس ضمن میں ہماری سب سے بڑی کامیابی یہ ہے کہ آج اﷲ تعالیٰ کے فضل و کرم سے ملک کے تمام طبقے یکسو ہیں کہ پاکستان کی ترقی اور استحکام کا راز جمہوریت میں پوشیدہ ہے اور وہ اس کے لیے یک جان ہو کر کام کر رہے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ آج ارضِ وطن کا ہر بیٹا زبانِ حال سے یہ کہہ رہا ہے کہ
قدم قدم سے ملا کر جو قافلہ نکلے
تو سنگلاخ زمینوں میں راستہ نکلے
کیونکہ یہ جمہوریت ہی ہے جو نا موافق حالات میں بھی کامیابی کی راہ ہموار کر دیتی ہے بابائے قوم نے ایک بار فرمایا تھا کہ ’’جمہوریت کا تصور مسلمانوں کی گھٹی میں پڑا ہے۔

اس کی ایک مثال یہ ہے کہ جب میں نماز پڑھنے کے لیے مسجد میں جاتا ہوں تو میرا ڈرائیور بھی اکثر میرے برابر کھڑا ہوتا ہے‘‘۔صدر نے کہاکہ یہ جمہوریت ہی ہے جو معاشرتی تضادات اور اونچ نیچ کا خاتمہ کر کے معاشرے کو ترقی کے بامِ عروج پر پہنچا دیتی ہے ۔ اس لیے ضروری ہے کہ ہم بانی پاکستان کے نظریات کی روشنی میں جمہوری طرز عمل اختیار کرکے پائیدار ترقی کی مضبوط بنیاد رکھ دیں اور اس عمل کو مزید ثمرآور بنانے کے لیے اپنی ذات، اپنے گھر، اپنے گروہ، طبقے اور مکتبۂ فکر سے اصلاح کا عمل شروع کریں تاکہ ریاستی، حکومتی، گروہی اور انفرادی سطح پر رونما ہونے والی تبدیلی ہمارے قومی مزاج کا حصہ بن جائے ۔

ہماری تاریخ کاسبق بھی یہی ہے اور آج کی دنیا میں رونما ہونے والے واقعات بھی اسی جا نب رہنمائی کرتے ہیں، لہٰذا آج کے حالات میں ضروری ہے کہ ہم قومی زندگی میں ہر سطح پرقانون کی حکمرانی کو یقینی بنائیں ٗسیاسی، گروہی، علاقائی اور لسانی تفریق سے بالا تر ہو کر قومی ترقی میں ایک دوسرے کے دست و بازو بن جائیں ٗاقتصادی استحکام اور بدامنی کے خاتمے کے لیے قومی ایجنڈے پر کسی مصلحت کو غالب نہ آنے دیں اورحقیقی اور پائیدار ترقی کے لیے ’’میثاقِ تعلیم‘‘ پر متفق ہو کر اسے پہلی قومی ترجیح بنادیا جائے ٗیہ ایسے اقدامات ہیں جو قوم کو مسائل کی دلدل سے نکال کر آسودگی کی منزل پر پہنچا دیں گے لیکن اس کام کے لیے اُس جذبۂ محرکہ کی ضرورت ہوگی جسے اقبالؒ نے ’’یقیں محکم ،عمل پیہم ‘‘ کا نام دیا اور قائد اعظمؒ نے اپنا ہر عمل اﷲ کی خوشنودی سے مشروط کردیا۔

تحریک پاکستان کے ایک کارکن جو بفضل تعالیٰ اب بھی حیات ہیں، قائد اعظمؒؒ کی ایک محفل کا احوال بیان کرتے ہیں جس میں ایک مغربی صحافی نے ان سے سوال کیا کہ قائد اعظمؒ!آپ نے اپنی زندگی میں بے شمار کامیابیاں حاصل کی ہیں جن میں اپنی قوم کے لیے ایک عظیم الشان ملک کا قیام بھی شامل ہے، یہ فرمائیے کہ کیا اس کے بعد بھی آپ کے دل میں کچھ حاصل کرنے کی تمنا ہے؟ یہ سوال سن کر قائداعظم ؒنے لمحے بھر کے لیے سوچا ، پھر فرمایا کہ ’’اب میری تمنا یہ ہے کہ روز حساب جب مجھے قادر مطلق کے سامنے پیش کیا جائے تو مجھے یہ آوازسنائی دے کہ: ویلڈن محمد علی ۔

صدر نے کہاکہ احساسِ ذمہ داری اور باری تعالیٰ کے حضور سرخروئی کے اسی جذبے کواگر ہم اپنارہنما بنا لیں تو کامیابی کا راستہ خود بخودہموار ہوجائے گا اور ہم پاکستان کو ایسا پاکستان بنانے میں کامیاب ہو جائیں گے جس کا خواب بانیان پاکستان نے دیکھا تھا ۔جشنِ آزادی کی خوشیاں مناتے ہوئے ہمیں اپنے مظلوم کشمیری بھائیوں کو ضرور یاد رکھنا چاہیے جنھیں ان کے حقِ خودارادی سے محروم کردیا گیا اور وہ آج بھی قابض غیرملکی افواج کے ظلم و ستم کا نشانہ بن رہے ہیں۔

ہم یومِ آزادی کے موقع پر واضح کرتے ہیں کہ پاکستان عالمی سطح پر اپنے کشمیری بھائیوں کی سیاسی، سفارتی اور اخلاقی حمایت جاری رکھے گا تاکہ اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کے مطابق تقسیم ہند کا نامکمل ایجنڈا مکمل ہو سکے۔ انہوں نے کہاکہ خوشی کے اس موقع پر ہمیں اپنے اْن پاکستانی بھائیوں کو بھی یاد رکھنا چاہیے جو ان دنوں طوفانی بارشوں اور سیلابی صورت حال کی وجہ سے مشکلات کا شکار ہیں، ہمیں سرکاری اور نجی ہر سطح پر اپنے اِن ہم وطنوں کے کام آنا ہے اور ان کے دکھ درد میں شریک ہونا ہے۔

اسی طرح اپنی قومی یادگاروں اور بابائے قوم سے وابستہ تاریخی مقامات کی حفاظت بھی ہماری ذمہ داری ہے تاکہ ہرطرح کی ہنگامی صورتِ حال میں ان مقامات کا تقدس برقرار رہے۔ انہوں نے کہاکہ آخر میں مجھے آپ سے صرف یہی کہنا ہے کہ آئیے! اس سرزمینِ پاک کو جنت نظیر بنانے کے لیے ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر میدانِ عمل میں نکلیں اور بدی کی قوتوں کو سرنگوں کر کے اپنے وطن کو اندھیروں سے پاک کردیں۔