تحفظ پاکستان ایکٹ میں توسیع نہ ہونے سے کرنل (ر)شجاع خانزادہ کے قتل سمیت دیگر اہم کیسز پر پیشرفت غیر یقینی صورتحال سے دوچار ہوگئی

اگر تحفظ پاکستان ایکٹ میں توسیع نہ ہوئی تو اس قانون کے تحت مقدمے کا سامنا کرنے والے ملزمان کو رہا کرنا پڑے گا ‘ وکلاء دفاع کا دعویٰ ملزمان کے خلاف تعزیرات پاکستان اور انسداد دہشتگردی ایکٹ کے تحت کارروائی ہوسکتی ہے‘پراسیکیوٹرز

اتوار 14 اگست 2016 15:00

اسلام آباد/لاہور( اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔14 اگست ۔2016ء) انسداد دہشتگردی سے متعلق اہم قانون کی معیاد ختم ہونے کے بعد وزیر داخلہ پنجاب کرنل (ر)شجاع خانزادہ کے قتل سمیت دیگر اہم کیسز پر پیشرفت غیر یقینی صورتحال سے دوچار ہوگئی، وکلاء دفاع کا دعویٰ ہے کہ اگر تحفظ پاکستان ایکٹ میں توسیع نہ ہوئی تو اس قانون کے تحت مقدمے کا سامنا کرنے والے ملزمان کو رہا کرنا پڑے گا جبکہ پروسیکیوٹرز کا کہنا ہے کہ ملزمان کے خلاف تعزیرات پاکستان اور انسداد دہشتگردی ایکٹ کے تحت کارروائی ہوسکتی ہے۔

میڈیا رپورٹ کے مطابق تحفظ پاکستان ایکٹ جولائی 2014 میں دو برس کیلئے نافذ کیا گیا تھا اور اس کی مدت 15 جولائی 2016 کو ختم ہوگئی جس کے بعد اس قانون کے تحت قائم ہونے والی خصوصی عدالتیں غیر فعال ہیں۔

(جاری ہے)

رپورٹ کے مطابق بظاہر ایسا لگتا ہے کہ (ن) لیگ کی حکومت نے اس قانون کی تجدید کے حوالے سے کوئی فیصلہ نہیں کیا ۔وزارت قانون نے تحفظ پاکستان ایکٹ میں توسیع کیلئے دو ماہ قبل سمری وزیر اعظم کو ارسال کی تھی لیکن وزیراعظم اپنے دل کی سرجری کیلئے ملک سے باہر ہونے کے باعث اس پر غور نہیں کر سکے ۔

رپورٹ کے مطابق وکلا دفاع کا دعویٰ ہے کہ اگر تحفظ پاکستان ایکٹ میں توسیع نہ ہوئی تو اس قانون کے تحت مقدمے کا سامنا کرنے والے ملزمان کو رہا کرنا پڑے گا جبکہ پروسیکیوٹرز کا کہنا ہے کہ ملزمان کے خلاف تعزیرات پاکستان اور انسداد دہشتگردی ایکٹ کے تحت کارروائی ہوسکتی ہے۔حکومت نے 14 جولائی کو تحفظ پاکستان ایکٹ میں توسیع کے حوالے سے اپوزیشن جماعتوں کو اعتماد میں لینے کے حوالے سے چار رکنی کمیٹی قائم کی تھی جس میں وزیر خزانہ اسحاق ڈار، وزیر قانون زاہد حامد، معاونین خصوصی بیرسٹر ظفر اﷲ اور خواجہ ظہیر شامل تھے۔

تاہم اپوزیشن کا کہنا ہے کہ کمیٹی نے نہ ہی ملاقاتیں کی اور نہ ہی انہیں اعتماد میں لے سکی ہے۔پاکستان تحریک انصاف کے رکن قومی اسمبلی عارف علوی کے مطابق حکومت کو پاس ایسا کچھ نہیں جس سے وہ اپوزیشن کو تحفظ پاکستان ایکٹ میں توسیع پر راضی کرسکے۔انہوں نے کہا کہ حکومت دہشتگردی سے نمٹنے کیلئے بننے والے اس قانون سے مثبت نتائج حاصل کرنے میں ناکام رہی ہے اور اب معیاد ختم ہونے کے بعد اس کی تجدید کا سوچ رہی ہے، اس سے حکومت کی قانونی ٹیم کی غفلت کا اندازہ ہوتا ہے۔

عارف علوی نے کہا کہ اگر حکومت کی قانونی ٹیم نے مذکورہ قانون کا موثر استعمال کیا ہوتا تو ان کے پاس اپوزیشن جماعتوں کو قانون کی تجدید پر قائل کرنے کیلئے ٹھوس بنیاد ہوتی اور کوئی بھی جماعت مخالفت کا نہیں سوچتی۔انہوں نے مزید کہا کہ یہ قانون حکومت نے جلد بازی میں بنایا تھا اور اپوزیشن جماعتیں ہی تھیں جنہوں نے اس میں ضروری ترامیم کیں اور اسے قابل عمل بنایا۔

پاکستان پیپلز پارٹی کے سینیٹر سعید غنی نے بھی اس بات کی تصدیق کی ہے کہ حکومت نے تحفظ پاکستان ایکٹ میں توسیع کے حوالے سے اب تک اپوزیشن جماعتوں سے رابطہ نہیں کیا ۔انہوں نے بتایا کہ کہ حکومتی رد عمل سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ تحفظ پاکستان ایکٹ حکومت نہیں بلکہ کسی اور کے ذہن کی اختراع ہے۔تحفظ پاکستان ایکٹ کے تحت محض 30 مقدمات درج کیے گئے جو اب بھی عدالتوں میں زیر التوا ء ہیں اور ان میں ریٹائرڈ کرنل شجاع خانزادہ کے قتل کا مقدمہ سب سے اہم ہے۔

ایک سرکاری لاء آفیسر نے بتایا کہ تحفظ پاکستان ایکٹ کی معیاد ختم ہونے کے بعد ممکن ہے کہ یہ مقدمات انسداد دہشتگردی کورٹس، سیشن کورٹس یا پھر فوجی عدالتوں میں بھی بھیجے جاسکتے ہیں۔پروسیکیوٹر نے مزید بتایا کہ 1997 ء کا انسداد دہشتگردی ایکٹ بھی بعض ایسے جرائم کا احاطہ کرتا ہے جو تحفظ پاکستان ایکٹ میں شامل ہیں جن میں مذہبی، سیاسی اور نسلی بنیادوں پر حملے، اغوا ء ، سرکاری املاک کو نقصان پہنچانا اور اسلحہ کا استعمال شامل ہیں۔

انہوں نے کہا کہ وہ ملزمان جنہوں نے مذکورہ جرائم کا ارتکاب کیا ہو ان کا مقدمہ بھی انسداد دہشتگردی ایکٹ کے تحت چلایا جاسکتا ہے۔ان کا مزید کہنا تھا کہ اے ٹی اے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو مشتبہ افراد کو حفظ ماتقدم کے طور پر حراست میں رکھنے کی بھی اجازت دیتا ہے لہٰذاتحفظ پاکستان ایکٹ کے ختم ہونے سے سکیورٹی فورسز کا یہ اختیار متاثر نہیں ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ صحافیوں پر حملے اور اس جیسے دیگر مقدمات کو تعزیرات پاکستان کی دفعات کے تحت معمول کی کارروائیوں کے ذریعے نمٹایا جاسکتا ہے۔لیکن تحفظ پاکستان ایکٹ کے تحت رکن صوبائی اسمبلی رانا جمیل کے اغوا ء کے مقدمے میں ملزمان کے وکیل صفائی الیاس صدیقی اس سے اختلاف کرتے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ چونکہ تحفظ پاکستان ایکٹ کی معیاد ختم ہوچکی ہے لہٰذااب ملزمان پر اس قانون کے تحت مقدمہ نہیں چلایا جاسکتا اور نہ ہی کسی ملزم پر اس قانون کی شقوں کا اطلاق ہوگا۔

انہوں نے اس بات کی نشاندہی کی کہ تحفظ پاکستان ایکٹ میں یہ واضح نہیں کہ اگر قانون کی معیاد ختم ہوجائے تو زیر التوا ء مقدمات کی حیثیت کیا ہوگی، یہ ایک غلطی ہے جو قانون بنانے والوں نے کی اور اس کا مطلب یہی ہے کہ ملزم کو سزا نہیں دی جاسکتی۔انہوں نے کہا کہ اگر قانون میں توسیع نہیں ہوتی تو ملزم کو رہا کرنا ہوگا۔اس حوالے سے وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے قانون و انصاف و ایکٹ کی تجدید کے حوالے سے قائم کمیٹی کے رکن بیرسٹر ظفراﷲ خان نے کہا کہ یہ معاملہ وزارت داخلہ کے دائرے میں آتا ہے۔وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان حالیہ پریس کانفرنس میں انسداد دہشتگردی کے قوانین میں کو وسعت دینے کی بات کرچکے ہیں یہ تحفظ پاکستان ایکٹ کی جانب واضح اشارہ ہے۔

متعلقہ عنوان :