یوم جشن آزادی کی آمد آمد:محمد محسن علی اس کہاوت کا نمونہ بن گیا کہ” جہاں چاہو بسیرا کرلو“

تندور پرکام کرنیوالے محسن نے بی اے کے امتحان میں پہلی پوزیشن لیکر پچھلے تمام ریکارڈ توڑ ڈالے،جشن آزادی پرملک میں تعلیمی نظام کی بہتری کیلئے کوشش کرنی چاہیے،تاکہ بہت سارے محسن علی جیسے نوجوانوں کوتعلیمی میدان میں آگے بڑھنے کیلئے مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑے،ملک میں محسن علی کی طرح کے بہت سارے نوجوان ہیں،جن کو حکومت نظر انداز کررہی ہے۔رپورٹ

Sanaullah Nagra ثنااللہ ناگرہ جمعرات 11 اگست 2016 19:26

یوم جشن آزادی کی آمد آمد:محمد محسن علی اس کہاوت کا نمونہ بن گیا کہ” ..

لاہور(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین۔11اگست2016ء):یوم جشن آزادی کے موقع پرملک میں تعلیمی نظام کی بہتری کیلئے کوشش کرنی چاہیے، تاکہ بہت سارے محسن علی جیسے نوجوانوں کوتعلیمی میدان میں آگے بڑھنے کیلئے مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑے،ملک میں محسن علی کی طرح کے بہت سارے نوجوان ہیں،جن کو حکومت نظر انداز کررہی ہے،لیکن یہ نوجوان بجلی کی لوڈشیڈنگ سمیت کسی بھی مشکل کا سامنا کرتے ہوئے اپنے کام کو مکمل کرکے دم لیتے ہیں۔

تفصیلات کے مطابق محمد محسن علی کون ہے؟جو اس کہاوت کا نمونہ بن گیا کہ” جہاں چاہو بسیرا کرلو“۔اس کا تعارف یوں ہے جیسا کہ یوم جشن آزادی کی آمد آمد ہے۔حکومت نے بھی سرکاری سطح پر جشن آزادی کو بھرپور انداز میں منانے کیلئے اقدامات شروع کردیے ہیں،پاکستان کے عوام جن میں بچے،نوجوان،خواتین اور بزرگ بھی آزادی کی خوشیوں کو دوبالا کرنے کیلئے بیتاب ہیں۔

(جاری ہے)

14اگست کے موقع پراگرہم ماضی کی طرف نظر دوڑائیں تو کچھ ایسے لوگ بھی ملیں گے۔جنہوں نے ہر طرح کی مشکلات کا سامنا کرتے ہوئے ہمت نہیں ہاری بلکہ پاکستان کیلئے فخر کا باعث بن گئے۔ان میں سے ایک نوجوان شخص کانام محمدمحسن علی ہے۔جس کا حافظ آباد کے ایک شریف اور غریب خاندان سے تعلق ہے۔محسن علی اس کہاوت کا نمونہ ہے کہ” جہاں چاہو بسیرا کرلو“۔

علی نے یہ شہرت تب حاصل کی جب وہ ایک تندور پر کام کرتا تھا۔اس تندور کامالک اس کا بھائی تھا۔لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ اس لڑکے نے پنجاب میں بی اے کے امتحان میں پہلی پوزیشن لیکر پچھلے تمام ریکارڈ توڑ ڈالے۔محسن پرائیویٹ طالب علم کے طور پر2012ء میں لاہور میں بی اے کے امتحان میں شریک ہوا۔اس کے خاندان کا تعلق ضلع حافظ آباد سے ہے۔وہ ابھی چھوٹا سا ہی تھا کہ اس کے والدین کو پتا چل گیا کہ ایک دن ان کا بیٹا کوئی بڑا کارنامہ سرانجام دیگا۔

علی صرف دن میں چار گھنٹے کیلئے سوتا تھا۔جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اس نے بی اے کے امتحان میں688نمبر لیکر پہلی پوزیشن اپنے نام کرلی۔ اس نے یہ کامیابی اپنے بھائی کے ساتھ تندور پر کام کرنے کے ساتھ حاصل کی تھی۔تندور پر کام کرکے وہ اپنے 11بہن بھائیوں کی کفالت کرنے کے ساتھ دن رات پڑتا بھی تھا۔لیکن جب اس کا بی اے کا نتیجہ آیا تو اس کے والدین بہت خوش ہوئے اور لاہور آتے ہوئے سارے راستے خوشی مناتے ہوئے آئے۔

علی نے یہ سب کرکے ثابت کیا کہ محنت کا کوئی نعم البدل نہیں ہے۔ملک میں محسن علی کی طرح کے بہت سارے نوجوان ہیں۔جن کو حکومت علی کی طرح نظر انداز کررہی ہے۔لیکن یہ نوجوان بجلی کی لوڈشیڈنگ سمیت کسی بھی مشکل کا سامنا کرتے ہوئے اپنے کام کو مکمل کرکے دم لیتے ہیں۔جشن آزادی کو مناتے ہوئے ہمیں ملک میں تعلیم نظام کی بہتری کیلئے بھی کوشش کرنی چاہیے تاکہ بہت سارے محسن علی کوتعلیمی میدان میں آگے بڑھنے کیلئے ان مسائل کا سامنا نہ کرنا پڑے۔بنیادی طور پریہی پاکستان کا سچا وعدہ ہے۔