سیکورٹی گارڈز کی آڑ میں’را‘اور طالبان کے ایجنٹ بھرتی ہو رہے ہیں، چیف جسٹس آف پاکستان

پولیس کی ذمہ داری ہے وہ سیکیورٹی گارڈز کی بھرتی پر نظر رکھے، معاملات پر کسی قسم کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جا سکتا،جسٹس انور ظہیر جمالی ٹارگٹ کلنگ ،قتل کے 1500 سے زائد ملزمان شامل ہیں ،غیر قانونی اسلحہ کے جرم میں1500سے زائد ، دھماکہ خیز مواد رکھنے پر 450ملزمان گرفتار کئے گئے، رپورٹ نئے سی سی ٹی وی کیمروں کیلئے 10ارب روپے مختص کیے گئے ہیں، 10ہزار نئے کیمروں کے ٹینڈڑز پر وقت لگے گا، جسٹس امیر ہانی مسلم کے استفسار پر چیف سیکرٹری سندھ کا جواب

جمعرات 11 اگست 2016 17:16

کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔11 اگست ۔2016ء) چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس انور ظہیر جمالی نے کہا ہے کہ سیکیورٹی گارڈز کی آڑ میں ’را‘اور’طالبان‘ کے ایجنٹ بھرتی ہو رہے ہیں،پولیس کی ذمہ داری ہے کہ وہ سیکیورٹی گارڈز کی بھرتی پر نظر رکھے ،ان معاملات پر کسی قسم کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جا سکتا ،سیکیورٹی انتظامات بہتر ہوتے تو کوئٹہ میں اتنا نقصان نہ ہوتا ،کراچی بد امنی کیس کے فیصلے پر مکمل عملدرآمد چاہتے ہیں مگر اداروں نے ذمہ داری ادا نہیں کی اس لیے ہمیں معاملے کو دیکھنا پڑا۔

جمعرات کو سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں قائم لارجر بینچ نے کراچی بدامنی کیس کی سماعت کی ۔حکومت سندھ کی جانب سے سپریم کورٹ میں تین رپورٹیں پیش کی گئیں ۔

(جاری ہے)

سماعت کے دوران حکومت سندھ نے امن و امان کے قیام کے لیے کئے گئے اقدامات سے متعلق 5 سالہ کارکردگی کی رپورٹ اور سی سی ٹی وی کیمروں کے کیس میں نظرثانی کی درخواست جمع کرائی۔

امن و امان سے متعلق رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پولیس اور رینجرز نے ستمبر 2013 سے اب تک 17 ہزار سے زائد آپریشنز کیے، جن میں 80 ہزار ملزمان کو گرفتار کیا گیا، گرفتار ملزمان میں ٹارگٹ کلنگ اور قتل کے 15 سو سے زائد ملزمان شامل ہیں جب کہ غیر قانونی اسلحہ کے جرم میں1500 سے زائد اور دھماکا خیز مواد رکھنے پر 450 ملزمان گرفتار کئے گئے۔ پولیس کوسیاسی عناصرسے پاک کرنے کے لیے موثراقدمات کیے گئے ہیں، خلاف ضابطہ ترقی پانے والوں اور ڈیپوٹیشن پر آئے افسران کو واپس بھیجا گیا، سنگین نوعیت کے105کیس فوجی عدالتوں کو بھیجے جاچکے ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ سندھ میں 10 لاکھ سے زائد افغان باشندے موجود ہیں جن پر کڑی نظر رکھی جارہی ہے۔سماعت کے دوران جسٹس امیر ہانی مسلم نے شہر میں سی سی ٹی وی کیمروں سے متعلق استفسار کیا تو چیف سیکریٹری سندھ نے بتایا کہ نئے کیمروں کے لیے 10ارب روپے مختص کیے گئے ہیں، 10ہزار نئے کیمروں کے ٹینڈڑز پر وقت لگے گا، اس وقت تک8ہزارپرانے کیمروں کی مرمت پررقم خرچ کرنیکی اجازت دی جائے۔

چیف سیکرٹری سندھ کے موقف پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ کراچی بد امنی کیس کے فیصلے پر مکمل عملدرآمد چاہتے ہیں،اداروں نے ذمہ داری ادا نہیں کی،اس لیے ہمیں معاملے کو دیکھنا پڑا، مسئلہ رقم مختص کرنے کا نہیں بلکہ رقم صحیح جگہ خرچ بھی ہونی چاہیے۔نئے ٹھیکوں میں غیر شفافیت برداشت نہیں کریں گے۔چیف جسٹس آف پاکستان انور ظہیر جمالی نے آئی جی سندھ کو ہدایت کی کہ سانحہ کوئٹہ کے بعد اسپتالوں اور دیگر مقامات کی سیکیورٹی کے لئے خصوصی انتظامات کئے جائیں,انہوں نے کہا کہ سیکیورٹی انتظامات بہتر ہوتے تو کوئٹہ میں اتنا نقصان نہ ہوتا,ایسا نہ ہو کہ پھر کوئی بڑا سانحہ ہو اور پھر ہم سر جوڑ کر بیٹھ جائیں ۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ سیکیورٹی گارڈز کی آڑ میں "را" اور طالبان کے ایجنٹ بھرتی ہو رہے ہیں، یہ وہی لوگ ہیں جو جعلی شناختی کارڈز بنوا کر بھرتی ہوتے ہیں,تاہم پولیس کی ذمہ داری ہے کہ وہ سیکیورٹی گارڈز کی بھرتی پر نظر رکھیں ، ان معاملات پر کسی قسم کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جا سکتا ۔چیف جسٹس آف پاکستان نے کہا کہ ہسپتالوں کے سیکیورٹی گارڈز کی کوئی اسکریننگ نہیں ہوتی,آئی جی سندھ کا کہنا تھا ہسپتالوں میں سیکیورٹی گارڈز کی ٹریننگ کا معاملہ دیکھ رہے ہیں۔