سوشل میڈیا پر بچوں کی اسمگلنگ کے حوالے سے سنسنی پھیلانے والی تصاویر کی حقیقت سامنے آ گئی

تصویریں نو سالہ انڈونیشین بچی کی ہیں،2015ء میں قتل کر کے لاش کو ٹیپ سے لپیٹ کر اور ڈبے میں بند کر کے پھینک دی گئی تھی وفاقی وزیر داخلہ نے سوشل میڈیا پر بچوں کی تصاویرجاری ہونے کے بعد ایف آئی اے کو تحقیقات کی ہدایت کی تھی

بدھ 10 اگست 2016 21:05

سلام آباد/لاہور( اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔10 اگست ۔2016ء ) سوشل میڈیا پر بچوں کی اسمگلنگ کے حوالے سے سنسنی پھیلانے والی تصاویر کی حقیقت سامنے آ گئی ، تصویریں نو سالہ انڈونیشین بچی کی ہیں جسے 2015ء میں اغوا ء اورزیادتی کے بعد لاش کو ٹیپ سے لپیٹ کر ڈبے میں بند کرکے کچرے میں پھینک دیا گیا تھا۔میڈیا رپورٹ کے مطابق پنجاب میں بچوں کی بڑھتی ہوئی اغوا ء کی وارداتوں نے والدین کو پریشان کردیا ہے اور اسی حوالے سے سوشل میڈیا پر بچوں کی اسمگلنگ کی خبروں اور تصاویر نے سنسنی پھیلادی جس کے بعد ایف آئی اے حکام بھی ایکشن میں آ گئے ۔

تاہم سوشل میڈیا پر شیئر کی جانے والی ان تصاویر کی حقیقت سامنے آ گئی ہے ۔ یہ تصاویر نو سالہ انڈونیشین بچی پتری نور فوزیہ کی ہیں جسے گزشتہ سال اکتوبر میں زیادتی کا نشانہ بنانے کے بعد قتل کردیا گیا تھا۔

(جاری ہے)

سفاک قاتلوں نے بچی کی لاش ٹیپ سے لپیٹ کر ڈبے میں بند کرکے کچرے میں پھینک دی تھی۔ ان تصاویر کو پاکستانی بچوں سے جوڑا گیا اور سوشل میڈیا پر شیئر کی گئیں جس کا وزارت داخلہ نے نوٹس لیتے ہوئے ایف آئی اے کو تحقیقات کا حکم دیدیا ہے۔

قبل ازیں ایک نجی ٹی وی کے مطابق ایف آئی اے نے اغوا ء کئے گئے بچوں کی تھائی لینڈ اسمگلنگ کے معاملے کی تحقیقات شروع کر دی ہیں۔نجی ٹی وی کے مطابق اغوا ء کئے گئے چھ بچوں کو جسمانی اعضا ء کی فروخت کیلئے تھائی لینڈ اسمگلنگ کی کوشش کی گئی تھی جسے ناکام بنادیا گیا تھا ۔ان بچوں کے منہ پر ٹیپ اور ہاتھ پاؤں باندھے گئے تھے ۔وزیر داخلہ چوہدری نثار علی نے سوشل میڈیا پر بچوں کی تصاویرجاری ہونے کے بعد آیف آئی اے کو تحقیقات کی ہدایت کی تھی جس پر تحقیقات شروع کر دی گئی ہیں ۔ یف آئی اے حکام کا کہنا ہے کہ بچوں کی اسمگلنگ سے متعلق کوئی بھی شخص معلومات فراہم کر سکتا ہے۔

متعلقہ عنوان :