سانحہ کوئٹہ میں را کے ملوث ہونے کے حوالے سے وزیر اعلیٰ بلوچستان کا بیان نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ، دہشتگردوں کیخلاف جنگ سیکورٹی اداروں نے لڑنی ہے ، عوام صرف یک جہتی کا اظہار اور تعاون کر سکتی ہے‘ دہشتگردی کیخلاف مشاوت سے حکمت عملی بنائی جائے ، سانحہ پشاور ، باچا خان اور کوئٹہ جیسے واقعات خود کیوں رونما ہو تے ہیں ،سوال ہے کہ کیوں ان کو روکنے سے ناکامی ہوجاتی ہے

جمعیت علماء اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کی پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر میڈیا سے گفتگو

بدھ 10 اگست 2016 18:24

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔10 اگست ۔2016ء) جمعیت علماء اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ سانحہ کوئٹہ میں راء کے ملوث ہونے کے حوالے سے بلوچستان کے وزیر اعلیٰ کا بیان نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ان کو بہتر معلومات میسر ہوں گی۔ دہشت گردوں کے خلاف جنگ سیکورٹی اداروں نے لڑنیہے ۔ عوام صرف یک جہتی کا اظہار اور تعاون کر سکتی ہے ۔

کوئٹہ میں دہشت گردی کے واقعہ کو روکنے کی ذمہ دار ی سیکورٹی اداروں کی تھی ۔ دہشت گردی کے خلافمشاوت کے ساتھ حکمت عملی بنائی جائے۔ سوال یہ ہے کہ سانحہ پشاور ، باچا خان اور کوئٹہ جیسے واقعات خود کیوں رونما ہو جاتے ہیں اور کیوں روکنے سے ناکامی ہوجاتی ہے ۔ بدھ کو پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے جمعیت علماء اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ کوئٹہ کے سانحہ میں را ء کے ملوث ہونے کے بارے میں بلوچستان کے وزیر اعلیٰ کا بیان نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ان کے پاس معلومات زیادہ میسر ہیں ۔

(جاری ہے)

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ سیکورٹی اداروں نے لڑنی ہے ،عوام صرف یک جہتی کا اظہار کر سکتی ہے ۔ دہشت گردی کے واقعات روکنا سیکورٹی اداروں کی ذمہ داری ہے ۔ کوئٹہ میں واقعہ کو روکنے کی ذمہ داری حکومت کے اداروں کی تھی۔ آرمی کو عوام سپورٹ کرتی ہے لیکن سوال یہ ہے کہ پھر کیوں کبھی آرمی پلک سکول پشاور کبھی باچا خان یونیورسٹی اور کبھی کوئٹہ میں دہشت گردی کے سانحات ہوجاتے ہیں ۔

کیوں سانحے روکنے میں ناکامی ہوجاتی ہے ۔ دہشت گردی کے خلاف مشاورت کے ساتھ حکمت عملی بنائی جائے اور اس طرح کے واقعات روکنے چاہیے ۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ہمارا ایک المیہ ہے کہ جب کوئی حادثہ ہو جاتا ہے تو سوچتے ہیں ۔ ملک میں محرم ، ربیع الا ول اور دیگر موقعوں کے دوران نفرتیں سامنے آتی ہیں ان کو روکنے کیلئے کوئی قانون سازی نہیں کی جاتی۔ آج تک رویت ہلال کے حوالے سے کوئی قانون سازی موجود نہیں ہے ۔ بعد میں ساری ذمہ داری علماء پر ڈالی جاتی ہے ۔ (ح ب)