پاکستان اور سعودی عرب کا دشمن ایک ہے‘ دہشتگردی کے عالمی مسئلے کے حل کیلئے مسلم ممالک کو ایک صفحہ پر آنا ہو گا‘امام مسجد نبویؐ

الشیخ یاد الشکری کا 39ویں سالانہ دعوت اسلامی کانفرنس بسلسلہ عظمت حرمین شریفین سے خطاب اسلام امن کا دین ہے ،امن کی دعوت سے پھیل رہا ہے مگر اسے بندوق،بموں اور جہازوں کے زور سے روکنے کی کوشش کی جارہی ہے‘ساجد میر

منگل 9 اگست 2016 20:55

لاہور(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔9 اگست ۔2016ء) مسجد نبوی کے امام وموزن الشیخ یاد الشکری نے کہا ہے کہ دہشت گردی عالمی مسئلہ ہے، حل کے لیے مسلم ممالک کو ایک صفحہ پر آنا ہو گا، پاکستان اور سعودی عرب کا دشمن ایک ہے، شام میں معصوم لوگوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے، امت مسلمہ مختلف النوع مسائل کاشکار ہے ،مسلمان دانشوروں پر یہ بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ درپیش مسائل کا معروضی اور حقیقت پسندانہ جائزہ لیں بلکہ نشاۃ ثانیہ کی جدو جہد میں امت مسلمہ کودرپیش چیلنجزکا سامناکر نے کے لیے موثر عقلی فکری اور عملی قیادت کا فریضہ بھی انجام دیں ،ملت اسلامیہ کو اس وقت چیلنجزکاسامنا ہے۔

ان خیالات کا اظہار ا نہوں نے مرکزی جمعیت اہل حدیث برمنگھم کے زیر اہتمام گرین لین مسجد میں39ویں سالانہ دعوت اسلامی کانفرنس بسلسلہ عظمت حرمین شریفین سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔

(جاری ہے)

مرکزی جمعیت اہل حدیث پاکستان کے امیر سینیٹر پروفیسر ساجدمیر مہمان خصوصی تھے۔ الشیخ یاد الشکری نے مزید کہا کہ امت مسلمہ ایک جسد واحد کی حیثیت رکھتی ہے اور جب بھی اس نے راہ وسط و اعتدال چھوڑ دی تو باہم رنجشوں چپقلشوں اور افتراق وانتشار کی شکاری ہوئی، امت مسلمہ صرف قرآن و سنت کو محورو مرکز جان کرآگے بڑھ سکتی ہے۔

تشدد کی بجائے مکالمے سے دعوت پھیلائیں۔ شدت پسندی اور انتہا پسندی سے مسلمانوں اور اسلام کو بہت نقصان پہنچا ہے۔ حرمین شریفین کی حفاظت ہمارے ایمان کا حصہ ہے۔سینیٹر پروفیسر ساجدمیر نے اپنے خطاب میں کہا کہ اسلام تلوار کے زور پر نہیں حسن اخلاق سے پھیلا، یہ مسلمانوں کے متعلق روایتی تعصب پر مبنی کہانیاں ہیں کہ جس میں تلوار کے زور کا شور ہے۔

اسلام اور مسلمانوں کی تاریخ سپین میں مسلمان آٹھ سو سال تک بر سر اقتدار رہے مگر کوئی قتل عامنہیں ہوا مگر اس کے بر عکس مسلمانوں کا قتل عام اس وقت بھی کیا گیا اور آج بھی مختلف ممالک میں جاری وساری ہے۔عرب ممالک میں ڈیڑھ کروڑ سے زائد صرف عیسائی آباد ہیں اگر بزور تلوار اسلام کی اشاعت ہوتی تو وہ کیسے اسلام قبول کئے بغیر رہ گئے۔انڈیا میں مسلمان ایک ہزار سال حکومت میں رہے مگر اس کے باوجود یہاں ہندووں کی تعداد کہیں زیادہ ہے۔

اگر تلوار سے اشاعت ہوئی ہوتی تویہاں کوئی ہندو نہ بچتا۔انڈونیشیا اور ملائیشیاء میں سب سے زیادہ مسلمان آبادہیں وہاں تو کبھی کوئی اسلامی فوج داخل ہی نہیں ہوئی۔ افریقہ کے مشرقی ساحل پر بھی کوئی اسلامی فوج کبھی نہیں گئی وہاں بھی مسلمانوں کی کثیر تعداد موجود ہے وہ وہاں کیسے پہنچ گئے۔ انہوں نے کہاکہ نصف صدی میں عالمی مذاہب کے پیروکاروں میں مسلمانوں کی تعداد میں 235 فیصد اضافہ ہوا اور مسلسل اضافہ جاری ہے اور جبکہ اب ہر طرف مسلمانوں کی نسل کشی جاری ہے اورانہیں مارا جارہاہے مگر پھر بھی یہ اضافہ مسلسل جاری ہے اور اسی طرح امریکہ اور یورپ میں اسلام تیزی سے پھیل رہا ہے تو وہاں کونسی تلوار استعمال ہو رہی ہے۔

یہ تمام حقائق یہی بتلا رہے ہیں کہ اسلام امن کا دین ہے اور امن کی دعوت سے پھیلا اور پھیل رہا ہے۔مگر اسے بندوق،بموں اور جہازوں کے زور سے روکنے کی کوششیں ضرور کی جارہی ہیں۔ پروفیسر ساجدمیر نے کہا کہ عالم اسلام میں فکری انتشارکو ہوادی جارہی ہے عالمی ذرائع ابلاغ مسلمانوں کو پسماندہ جاہل اور تنگ نظر بنا کر پیش کر رہے ہیں۔مسلمان مجاہدین کو دہشت گرد بنا کر پیش کیا جا رہا ہے مگر عالم اسلام کے پاس مغرب کی طرف سیوارد کردہ اس یکطرفہ نفسیاتی سرد جنگ کا کو ئی توڑ نہیں ہے مسلمان ممالک عرصہ دراز سے اپنا آزادانہ ابلاغی نیٹ ورک قائم کرنے کا سوچ رہے ہیں مگر اس پر عمل درآمد نہیں۔

عالم اسلام کے لیے ایک ابلاغی نیٹ ورک کاقیام انتہائی ضروری ہے۔پروفیسر ساجد میر نے کہا کہ پاکستان کی عوام کا سعودی عرب کے ساتھ ایمانی وروحانی رشتہ ہے۔ ہم حرمین شریفین کی حفاظت کے لیے ہر قسم کی قربانی دیں گے۔کانفرنس میں سعودی عرب، شام اور پاکستان میں دہشت گردی اور بیگناہوں کو نشانہ بنانے کے واقعات کی مذمت میں قرارداد بھی منظور کی گئی۔کانفرنس سے مولانا ہادی العمری، مولانا شفیق الرحمن شاہین،حافظ شفیق الرحمن، مولانا شریف اﷲ، مولانا شعیب احمد میرپوری، مولانا محمود الحسن اسد نے بھی خطاب کیا جبکہ مرکزی جمعیت اہل حدیث پاکستان کے نائب ناظم مالیات حاجی نذیر احمد انصاری نے بھی شرکت کی۔

متعلقہ عنوان :