صدرجموں و کشمیر پیپلزپارٹی کا مسلم لیگ (ن) کے ساتھ اتحاد ختم کرنے کا اعلان

جمعرات 4 اگست 2016 15:02

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔04 اگست ۔2016ء) جموں و کشمیر پیپلزپارٹی کے صدر سردار خالد ابراہیم خان نے مسلم لیگ (ن) کے ساتھ انتخابی اتحاد ختم کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ غیر جمہوری شخص کو کسی صورت صدر آزادکشمیر تسلیم نہیں کریں گے،فاروق حیدر کے وزیراعظم بننے کے بعد دو جماعتی اتحاد کی دوسری جماعت جے کے پی پی کا صدرات پرحق تھا،جے کے پی پی کے رکن قانون اسمبلی کے طور الگ حیثیت میں اپوزیشن بنچوں پر بیٹھوں گا۔

سردار ابراہیم خان کا فرزند ہوں کسی گروپ میں جانے کی ضرورت نہیں جس بھی جماعت نے حقیقی اپوزیشن کی اس کا ساتھ دونگا،قائداعظم کو کافر اعظم اور پاکستان کو ناپاکستان کہنے والوں کے ساتھ نہیں بیٹھ سکتا،(ن) لیگ نے اس پارٹی کو خواتین کی سیٹ دی جس کے سربراہ نے راولا کوٹ جاکر نواز شریف کو مودی کا یار کہا عوام نے انہیں مسترد کردیا،منشور کے مطابق صدر کے براہ راست ووٹوں سے انتخابات کیلئے تحریک چلائیں گے،8اگست کو راولاکوٹ میں پہلا جلسہ ہوگا،چور دروازے سے آنے والے صدر کا وہی حشر ہوگا،جو 1996میں سکندر حیات کا ہوا تھا،ہم سے غیر جمہوری صدر کے خلاف جو کچھ بن پڑا کرین گے۔

(جاری ہے)

سردار خالد ابراہیم جمعرات کو یہاں نیشنل پریس کلب اسلام آباد میں پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے،پارٹی کی نائب صدر نبیلہ ارشاد خان اور سید نشاط کاظمی بھی ان کے ہمراہ تھے،قبل ازیں جے کے پی پی کی ایڈوائزری کونسل نے (ن) لیگ کے ساتھ اتحاد ختم کرنے کا اختیار دیا۔خالد ابراہیم خان نے کہا کہ ن لیگ کے جے کے پی پی کے ساتھ 2جماعتی اتحاد کا اعلان23جون 2011کو وزیراعظم نواز شریف نے راولاکوٹ جلسے میں کیا تھا اور کہا تھا کہ یہ اتحاد صرف آزادکشمیر میں نہیں بلکہ پاکستان میں بھی قائم ہوگا اور دونوں جماعتیں برے وقت میں ایک دوسرے کے ساتھ دیں گی،2013کے انتخابات میں جے کے پی پی نے چاروں صوبوں میں مسلم لیگ (ن) پاکستان کے امیدواروں کیلئے انتخابی مہم کی اور جلسے کیے حالانکہ ن لیگ آزادکشمیر پاکستان کی انتخابی مہم میں پاکستان کے چاروں صوبوں میں نہیں گئی،25جون 2016کو اسی اتحاد کی توثیق کی تھی،ہماری شرائط تھی مگر پانامہ لیکس اور نواز شریف کی علالت کی وجہ سے ہم اپنی شرائط سے دست بردار ہوئے اور غیر مشروط آغاز کیا،صرف فیصلے مشاورت سے کرنے کا طے کیا ہم نے کہا کہ نواز شریف مشکل میں ہیں اس لئے کوئی باگینگ نہیں کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ آزادکشمیر میں نے (ن) لیگ کے امیدواروں کی انتخابی مہم میں اپنی پارٹی کی سطح پر 26جلسے کیے،نواز شریف اور وزراء راولاکوٹ آنا چاہتے تھے میں نے منع کیا،یہاں ضرورت نہیں ہم خود کافی ہیں،جتنے جلسے میں نے ن لیگ کے حلقوں میں کیے اتنے ان کی پارٹی کے صدر فاروق حیدر نے نہیں کیے،اگر میں ایک سیٹ ن کی وجہ سے جیتا ہوں تو ن لیگ بھی جے کے پی پی کی وجہ سے 8سیٹیں جیتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اگرچہ جے کے پی پی کو اس کا حق نہیں دیا گیا لیکن میں فاروق حیدر کی بطور وزیراعظم نامزدگی کی حمایت اور تحسین کرتا ہوں کم ازکم ایک شخص کو تو اس کا حق مل گیا۔انہوں نے کہا کہ ن لیگ اس غلط فہمی میں نہ رہے کہ یہ مینڈینٹ اسے ملا ہے یہ وفاق میں برسراقتدار پارٹی کو ملتا ہے،ماضی میں بھی مینڈینٹ مشرف اور زرداری کو بھی مل چکا ہے،اگر پارٹی مینڈینٹ کی بات کی جائے تو ن لیگ کو ملنے والے مینڈینٹ میں 30فیصد ہمارا اور 70فیصد مینڈینٹ ن لیگ کا ہے۔

انہو ں نے کہا کہ نواز شریف کو کشمیری نژاد سمجھ کر امید تھی کہ وہ آزادکشمیر کا حق حکمرانی لوٹائیں گے جو فریال تالپور اور ریاض چوہدری نے غصب کررکھا تھا مگر ایسا نہیں ہوا ہم نے عوام سے وعدہ کیا تھا اور منشور کے اعلان کے وقت بھی کہا تھا کہ اگر ہم پیپلزپارٹی کے دور کی طرز حکمرانی کو نہ روک سکے تو اتحاد میں نہیں رہیں گے ہمیں پیپلزپارٹی کے طرز حکمرانی کے خلاف ووٹ ملا لیکن پاکستان کی خالق جماعت نے انتخابات کے بعد دو مخالف جماعتوں کو ساتھ ملا لیا،2سیٹیں قائداعظم کو کافراعظم کہنے والوں اور ایک سیٹ نواز شریف کو مودی کا یار کہنے والوں کو دے دی،بلاول نے راولاکوٹ جاکر نواز شریف کو مودی کا یار کہا تو لوگ جلسے سے چلے گئے بلاول کی امیدوارہ کو مسترد کردیالیکن نواز شریف نے اسی پارٹی کو خواتین کی سیٹ دیکر ثابت کیا کہ اگرچہ وہ مودی کے یار نہیں لیکن اس کے دوست ضرور ہیں،خواتین کی ایک سیٹ نواز شریف نے اپنے ملازم کی بیٹی کو دیدی جو سیاسی مینڈیٹ کی توہین ہے اگر یہی بیٹی سیاسی کارکن ہوتی تو میں اس کی حمایت کرتا۔

انہوں نے کہا کہ میں یہ باتیں صدارت چلے جانے کی وجہ سے نہیں کر رہا حالانکہ صدرات میرے بہت قریب سے چلی گئی شاید اتنے قریب سے اب نہ گزرے، میں یہ باتیں اصول کی وجہ سے کر رہاہوں،صدرات پر جے کے پی پی کا حق تھا جو تسلیم نہیں کیا گیا جس دن بھارتی وزیرداخلہ اسلام آباد آیا اس روز ایک غیر منتخب اور غیر جمہوری شخص کو صدر بنا کر نواز شریف نے بھارت کو کیا پیغام دیا میں اب بھی مطالبہ کرتا ہوں کہ نواز شریف اپنے فیصلے کے خلاف نظر ثانی کریں ورنہ چور دروازے سے آنے والے کا حشر سکندر حیات جیسا ہوگا،جسے 1996میں 5سال کے میڈینیٹ والی اسمبلی سے 10سال کا صدارتی مینڈینٹ لینے پر ہم نے اٹھا کر اسمبلی سے باہر پیھنک دیا تھا۔

ہم غیر سیاسی شخص کو کسی طور پر صدر تسلیم نہیں کریں گے اور اس کے خلاف جو بن پڑا کریں گے،جو کچھ 5سال پیپلزپارٹی نے آزادکشمیر مین کیا وہ نہیں ہونے دیں گے ہم صدر آزادکشمیر کا انتخاب براہ راست ووٹوں سے کرانے کیلئے تحریک چلائیں گے اگر میں صدر بن جاتا تو بھی صدارتی انتخاب ووٹوں کے ذریعے کرنے کے اپنے منشور پر عمل درآمد کراتا،1975میں غازی ملت کا پہلے جمہوری صدر کے طور براہ راست ووٹوں سے انتخاب ہوا تھا،اس حوالے سے 7اگست کو راولاکوٹ میں پہلا جلسہ ہوگا جب تک آزادکشمیر کے عوام کا حق حکمرانی بحال نہیں ہوجاتا ہمارا احتجاج اور تحریک جاری رہے گی۔

انہوں نے کہا کہ ہم پاکستانیوں سے بڑے پاکستانی ہیں پاکستانی حکمرانوں کو غلط فیصلوں کی وجہ سے ہماری مملکت پاکستان کے ساتھ وابستگی میں کوئی کمی نہیں آسکتی۔

متعلقہ عنوان :