650 پاکستانیوں کا شام، عراق، یمن، افغانستان اور وسطی ایشیائی ممالک کے جنگ زدہ علاقوں میں مختلف تنظیموں کے ساتھ ملکر لڑنے انکشاف

بین الاقوامی فورسز کے ہاتھوں شکست کے بعد جب شہری واپس آئیں گے تو فرقہ وارانہ اختلافات میں اضافہ ہوسکتا ہے ٗحکام کو خدشہ ملکی سرحدوں خاص طور پر بلوچستان، خیبر پختونخوا ٗساحلی علاقوں اور ایئرپورٹس پر سیکیورٹی سخت کرنے کی ہدایت

بدھ 3 اگست 2016 19:10

راولپنڈی(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔3 اگست ۔2016ء) پاکستان کے 650 شہری شام، عراق، یمن، افغانستان اور وسطی ایشیائی ممالک کے جنگ زدہ علاقوں میں مختلف تنظیموں کے ساتھ مل کر لڑ رہے ہیں۔ خفیہ ایجنسیوں نے اب تک ان میں سے 132 کی شناخت کرلی ہے اور خدشہ ظاہر کیا ہے کہ ان ممالک میں بین الاقوامی فورسز کے ہاتھوں شکست کے بعد جب یہ واپس آئیں گے تو پاکستان میں فرقہ وارانہ اختلافات میں اضافہ ہوسکتا ہے۔

نجی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق اطلاعات موصول ہونے کے بعد وفاقی حکومت کے نیشنل کرائسس مینجمنٹ سیل (این سی ایم سی) نے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو مطلع کردیا ہے اور انہیں ملکی سرحدوں خاص طور پر بلوچستان، خیبر پختونخوا، ساحلی علاقوں اور ایئرپورٹس پر سیکیورٹی سخت کرنے کی ہدایت کی ہے۔

(جاری ہے)

ایک سینئر سیکیورٹی افسر نے بتایا کہ مشرق وسطیٰ، افغانستان اور وسطی ایشیائی ممالک میں جنگجوؤں کو ہونے والی شکست نے پاکستان کو فرقہ وارانہ تشدد کی نہج پر پہنچادیا ہے اور این سی ایم سی کو وزارت داخلہ کو یہ سفارش کرنی پڑی ہے کہ وہ ان جنگجوؤں کی وطن واپسی کو روکنے کیلئے اقدامات کرے۔

انہوں نے بتایا کہ این سی ایم سی نے انٹیلی جنس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو ہدایات کی ہیں کہ وہ جنگ زدہ علاقوں میں بر سرپیکار جنگجوؤں کے گھر والوں کی بھی نگرانی کریں جو وطن واپس آکر پاکستان کیلئے متعدد سیکیورٹی خطرات پیدا کرسکتے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ خفیہ ایجنسیوں کو قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ مل کر جنگجوؤں کے اہل خانہ کی موثر نگرانی کرنی ہوگی۔

قانون نافذ کرنے والے ادارے کے ایک ذریعے نے بتایا کہ افغانستان، مشرق وسطیٰ اور وسطی ایشیائی ممالک میں شکست کا سامنا کرنے والے غیر ملکی جنگجو بھی پاکستان میں پناہ لے سکتے ہیں۔انہوں نے بتایا کہ غیر ملکی جنگجو خاص طور پر وہ جو وسطی ایشیائی ممالک سے تعلق رکھتے ہیں افغانستان کو محفوظ پناہ گاہ سمجھ سکتے ہیں لیکن شام اور عراق میں شدت پسند تنظیموں کے ساتھ مل کر لڑنے والے پاکستانی شہری وطن واپسی کو ہی ترجیح دیں گے۔

انہوں نے کہاکہ غیر ملکی دہشتگردوں کی ہمارے خطے میں آمد سے پاکستان کیلئے سیکیورٹی کے متعدد خطرات پیدا ہوسکتے ہیں اور افغانستان میں ان کی طاقت میں اضافے سے وہاں عدم استحکام بڑھے گا جس کا اثر بالآخر فاٹا پر پڑے گا۔ذرائع کے مطابق جنگ زدہ علاقوں سے شدت پسند تربیت یافتہ اور تجربہ کار جنگجوؤں پاکستان میں فرقہ وارانہ تشدد پھیلانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

انٹیلی جنس ایجنسیوں کی رپورٹ کی روشنی میں ایم سی ایم سی نے تجویز پیش کی کہ حکومتی ایجنسیاں ان عناصر کے پاکستان میں داخلے پر نظر رکھنے کیلئے پیشگی منصوبہ بندی کریں اور مستعد حکمت عملی اپنائیں۔این سی ایم سی نے جنوری 2016 میں بھی اسی طرح کا ایک الرٹ جاری کیا تھا جس میں پنجاب، خیبر پختونخوا کے پولیس چیفس اور فرنٹیئر کانسٹیبلری کے کمانڈنٹ کو ہدایت کی گئی تھی کہ وہ بین الصوبائی چیک پوسٹس پر چیکنگ کو مزید سخت کریں کیوں کہ پنجاب کے مختلف علاقوں میں ہتھیاروں کی بڑی کھیپ اسمگل ہونے کی اطلاعات تھیں۔

سیکیورٹی ذرائع کے مطابق این سی ایم سی نے ہدایت کی تھی کہ بین الصوبائی چیک پوسٹس پر مشتبہ گاڑیوں کی تلاشی کا نظام بہتر بنایا جائے کیوں کہ یہ بات نوٹس میں آئی تھی کہ اسلحہ ڈیلرز پنجاب کے مختلف علاقوں میں مسلسل اسلحہ پہنچارہے ہیں۔پنجاب پولیس اور خفیہ ایجنسیوں نے لاہور کے ڈیفنس روڈ میں ایک چھاپہ مار کارروائی کے دوران دو اسلحہ ڈیلرز کو گرفتار کیا تھا اور ان کے قبضے سے اسلحہ کی بھاری مقدار برآمد ہوئی تھی جس کے بعد بین الصوبائی چیک پوسٹوں پر سیکیورٹی بڑھانے کی ہدایات دی گئی تھیں۔

ایک سینئر عہدے دار سے جب یہ پوچھا گیا کہ سیکیورٹی فورسز جنگجوؤں کی واپسی کے حوالے سے پریشان کیوں ہیں تو انہوں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ خفیہ ایجنسیوں نے رپورٹ دی تھی کہ بیرون ملک دہشتگرد تنظیموں کے ساتھ مل کر لڑنے والے جنگجو واطن واپسی کا منصوبہ بنارہے ہیں انہوں نے بتایا کہ جنگجو افغانستان میں اکھٹے ہونا شروع ہوگئے تھے اور پاک افغان سرحد کے درمیان پناہ لینے کی منصوبہ بندی کررہے تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ ان جنگجوؤں کو افغان یا ایرانی سرحد سے ملک میں داخل ہونے سے روکنے کیلئے وزارت داخلہ اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو ایڈوائزری بھیجی گئی تھی کہ وہ اس خطرے سے نمٹنے کی تیاریاں کرلیں قبل اس کے کہ کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش آجائے۔پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف پیس اسٹڈیز(پی آئی پی ایس) کے ڈائریکٹر عامر رانا نے بتایا کہ جرمنی میں مبینہ طور پر شامی باشندے کی جانب سے دہشتگرد حملے کے بعد سے سیکیورٹی فورسز کی چوکسی میں اضافہ کردیا گیا ہے، اس واقعے کے بعد دیگر ممالک نے بھی اپنی سیکیورٹی میں اضافہ کردیا ہے۔

عامر رانا نے کہا کہ گزشتہ چند برسوں میں پاکستان میں فرقہ وارانہ تشدد میں کمی دیکھنے میں آئی ہے تاہم بیرون ملک لڑنے والے جنگجوؤں کی پاکستان واپسی سے اس میں دوبارہ اضافے کا خطرہ بڑھ گیا ہے یہی وجہ ہے کہ حکومت حفاظتی اقدامات کررہی ہے۔انہوں نے کہا کہ تقریباً 700 پاکستانی دنیا بھر میں مختلف دہشتگرد تنظیموں کے نام پر لڑائی میں مصروف ہیں اور اب سورش زدہ علاقوں میں سیکیورٹی بڑھ جانے کی وجہ سے وہ واپس آنے کی منصوبہ بندی کررہے ہیں۔