افغان طالبان پر پاکستان کا اثر ورسوخ نہیں ،محمود علی درانی

افغان طالبان کو مذاکرات کی میز پر پاکستان نے اہم کردار ادا کیا، افغان طالبان اپنی مرضی کے فیصلے کرتے ہیں زیادہ تر افغان پاکستان کی مداخلت کو اپنے مسائل کی وجہ سمجھتے ہیں ،بھارت کے ساتھ اچھے تعلقات پاکستان کے مفاد میں ہیں سیاستدانوں اور اسٹیبلشمنٹ کی کمزوری کی وجہ سے خارجہ پالیسی پر فوج حاوی نظر آتی ہے،سابق نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر

اتوار 31 جولائی 2016 17:16

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔31 جولائی ۔2016ء) سابق نیشنل سیکورٹی ایڈوائزر میجر جنرل(ر) محمود علی درانی نے کہا ہے کہ افغان طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے کے سلسلے میں پاکستان کا کردار اہم ہے افغان طالبان اپنی مرضی کے فیصلے کرتے ہیں زیادہ تر افغان پاکستان کی مداخلت کو اپنے مسائل کی وجہ سمجھتے ہیں ۔ بھارت کے ساتھ اچھے تعلقات پاکستان کے مفاد میں ہیں سیاستدانوں اور اسٹیبلشمنٹ کی کمزوری کی وجہ سے خارجہ پالیسی پر فوج حاوی نظر آتی ہے ان خیالات کا اظہار انہوں نے ایک انٹرویو میں کیا انہوں نے کہا کہ افغانستان طالبان پر پاکستان کا اثرو رسوخ نہیں ہے افغانستان میں طالبان کی حکومت کے وقت بھی کئی مواقع پر پاکستان کی درخواستوں کو رد کیا گیا تھا جس میں بامیان کے مجسموں کا موقع بھی تھا انہوں نے کہا کہ افغان طالبان کے دور میں پاکستان سے کافی جرائم پیشہ عناصر افغانستان چلے گئے تھے اور ہمارے وزیر داخلہ کے کہنے کے باوجود ان جرائم پیشہ عناصر کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی انہوں نے کہا کہ طالبان اپنے مفادات کے تحت فیصلے کرتے ہیں جو انہیں درست اور موزوں لگے انہوں نے کہاکہ افغان طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے میں پاکستان کے اہم کردار سے متعلق دنیا کی سوچ غلط ہے انہوں نے کہا کہ جس طرح ہم اپنی غلطیوں کا الزام امریکہ اور بھارت کو دیتے ہیں اسی طرح افغانی بھی اپنے زیادہ تر مسائل کی وجہ پاکستان کو سمجھتے ہیں ۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ افغانستان میں طالبان کے برسراقتدار آنے کے بعد پاکستان کی جانب سے حد سے زیادہ تعاون پر بھی افغانستان کے غیر فعال حلقے ہمارے خلاف ہو گئے اور صدیوں کی پالیسیوں کی وجہ سے افغان طالبان بھی ہمارے خلاف ہو گئے تھے ۔انہوں نے کہا کہ ایک حقیقت پسند پاکستان کی حیثیت سے میں یہ کہوں گا کہ بھارت کے ساتھ بہتر تعلقات پاکستان کے مفاد میں ہے اگر ہم بھارت سے متعلق اپنی پالیسیوں پر اخراجات کرنے کی بجائے یہی رقم اپنے نظام کی بہتری پر خرچ کرتے تو زیادہ بہتر ہوتا ۔

انہوں نے کہا کہ ملک کی خارجہ پالیسی میں فوج کا کردار اس لئے زیادہ نظر آتا ہے کہ ہماری بیوروکریسی اور سول حکومتیں اپنا کردار بھرپور طریقے سے ادا نہیں کر رہی ہیں اگر سول ادارے کمزور ہوں تو فوج جو ایک منظم ادارہ ہے خود بخود حاوی ہو جائے گی فوج نے کبھی بھی سول اداروں کو کمزور نہیں کیا ہے اگر سیاسی لیڈر شپ دانائی دکھائے اور حوصلہ پیدا کرے تو فوج اسے سیلوٹ کرے گی انہوں نے کہا کہ ملک میں جب بھی کوئی مشکل مرحلہ درپیش ہوتا ہے تو فوج کو بلایا جاتا ہے کراچی ، سوات یا وزیرستان آپریشن ہو ، زلزلہ و سیلاب آئے فوج ہی سب سے آگے ہوتی ہے انہوں نے کہا کہ ملک میں پرتشدد مظاہروں ، بدامنی یا کرپشن سے نمٹنا ہو فوج کا کام نہیں ہے مگر جب سول ادارے نااہل ہوں تو فوج کو بلایا جاتا ہے انہوں نے کہا کہ فوج کے لئے داخلی جنگ آسان نہیں ہوتی ہے فوج ملک کے اندر اپنی مرضی سے گھومتی ہے بلکہ مجبوری اور ہچکچاہٹ کے ساتھ میدان میں اتری ہے جب دوسرے ادارے ناکام ہو جاتے ہیں تو حکومت فوج کو بلا لیتی ہے اور ہم اسے سول انتظامیہ کی مدد کہتے ہیں ۔