سینیٹ ذیلی کمیٹی برائے وفاقی تعلیم و پیشہ ورانہ تربیت نے ایڈیشنل رجسٹرار ہزارہ یونیورسٹی ایبٹ آباد شاہ روم کی تقرری کو غیر قانونی قرار دیدیا ،فوری طور پر معطل کرنے کی ہدایت

پیر 25 جولائی 2016 23:02

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔25 جولائی ۔2016ء) سینیٹ ذیلی کمیٹی برائے وفاقی تعلیم و پیشہ ورانہ تربیت نے ایڈیشنل رجسٹرار ہزارہ یونیورسٹی ایبٹ آباد شاہ روم کی تقرری کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے فوری طور پر معطل کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے یونیورسٹی کا ان کی پی ایچ ڈی کیلئے 40ہزار پاؤنڈ اور ہائی کورٹ کے قانون کے مطابق 25فیصد جرمانے کے ساتھ وصول کرنے کی ہدایت کر دی۔

ذیلی کمیٹی نے ہائر ایجوکیشن کمیشن کو چاروں صوبوں کے وزراء اعلی اور ملک کی تمام یونیورسٹیوں کے وائس چانسلروں کو سیاسی دباؤ قبول نہ کرنے کے لئے خطوط لکھنے کی سفارش کرتے ہوئے ہدایت کی کہ اگر کوئی مداخلت کرے تو سینیٹ سیکرٹریٹ کو اس بارے آگاہ کرے۔ ذیلی کمیٹی کا اجلاس کنوینر کمیٹی سینیٹر نعمان وزیر خٹک کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہاؤس میں منعقد ہوا ۔

(جاری ہے)

ذیلی کمیٹی کے اجلاس میں ہزارہ یونیورسٹی مانسہرہ کی آمدن کے ذرائع ،اخراجات کی تفصیل،گریڈ 1سے22تک کی تقرریاں،پروموشن اور وظائف کی تفصیلات کے معاملات کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا۔ذیلی کمیٹی کے اجلاس میں سینیٹر اعظم خان سواتی کے ہزارہ یونیورسٹی کے متعلق اٹھائے گئے اعتراضات کا بھی تفصیل سے جائزہ لیا گیا۔ذیلی کمیٹی کے اجلاس میں سینیٹرز مشاہد حسین سید،اعظم خان سواتی ،چیئرمین ایچ ای سی ڈاکٹر مختار احمد،سیکرٹری وفاقی تعلیم محمد ہمایوں خان ،ایڈیشنل سیکرٹری وزارت تعلیم ڈاکٹر اﷲ بخش ملک،ایکٹنگ وائس چانسلر ہزارہ یونیورسٹی پروفیسرحبیب اﷲ،سابق وائس چانسلرہزارہ یونیورسٹی ڈاکٹر سہیل شہزاد،ریکٹر کامسیٹس یونیورسٹی ڈاکٹر ایس ایم جنید زیدی ،وائس چانسلر پشاور یوینورسٹی ڈاکٹر محمد رسول جان، ریکٹر آئی آئی یو آئی پر وفیسر ڈاکٹر معصوم یوسف،ڈاکٹر محمد مظہر سعیدکے علاوہ دیگر اعلی حکام نے بھی شرکت کی۔

کنوینر کمیٹی سینیٹر نعمان وزیر خٹک نے کہا کہ ہزارہ یونیورسٹی کے معاملات میں بے شمار خرد برد کی گئی ہے۔ انتظامیہ کی نا اہلی و ملی بھگت کی وجہ سے نا صر ف کرپشن کی انتہا کی گئی بلکہ قومی خزانے کو بھی خاصا نقصان پہنچایا گیا جو نہ صرف فروغ تعلیم کے لئے نقصان دہ ہے بلکہ ملک و قوم کیلئے شرمندگی کا باعث بھی ہے۔انہوں نے کہا کہ شاہ روم کی نہ صرف غیر قانونی تقرری عمل میں لائی گئی بلکہ سیاسی پریشر کی بدولت انہیں پی ایچ ڈی کیلئے یونیورسٹی کے فنڈ سے 40ہزار پاؤنڈ کی ادائیگی بھی کی گئی۔

شاہ روم ایک سال بعد پی ا یچ ڈی مکمل کئے بغیر وطن واپس آگئے اور ملک کو لاکھوں کا نقصان دیا۔ اہلیت پوری نہ ہونے پر تقرری عمل میں نہیں لائی جا سکتی ۔پروفیسر ڈاکٹر محمد معصوم یوسف،ڈاکٹر احسن زیدی اور ڈاکٹر محمد رسول جان نے بھی کم تجربہ رکھنے والے کی تقرری کو خلاف قانون قرار دیا ۔ذیلی کمیٹی نے شاہ روم سے تمام ریکوریاں ،اسکی پنشن ا ور گارنٹر سے وصول کرنے کی ہدایت کی اور شاہ روم کی ایبٹ آباد یونیورسٹی میں آنے پر پابندی بھی عائد کر دی۔

ہائر ایجوکیشن کمیشن کے ڈاکٹر مظہر سعید نے ذیلی کمیٹی کو ادارے کی طرف سے کی گئی انکوائری بارے تفصیل سے آگاہ کیا۔ڈاکٹر مظہر سعید نے کہا کہ سینیٹر اعظم خان سواتی نے جن تحفظات کا اظہار کیا تھا انکا تفصیل سے جائزہ لیا گیا ہے۔ ڈاکٹر سعید نے یہ بھی ذیلی کمیٹی کو بتایا کہ زاہد محمود خان 2010سے ہزارہ یونیورسٹی کی کینٹین بغیر معاہدے کے چلا رہا ہے جب یونیورسٹی نے معاہدے کی بات کی تو اس نے کہا کہ کینٹین کی تزئین و آرائش کیلئے29لاکھ خرچ کئے ہیں۔

2014میں یونیورسٹی کی فوڈ کمیٹی نے 37ہزار کرائے پر 5 سالہ معاہدے کر لیا ہے۔جس پر کنوینرکمیٹی نے کہا کہ بغیر ٹینڈر انتظامیہ کیسے معاہدہ کر سکتی ہے اسکا مطلب ہے کہ یونیورسٹی کی انتظامیہ غلط کاموں میں ملوث ہے ہر کام میں کرپشن نظر آرہی ہے۔سینیٹر نعمان وزیر نے کہا کہ سابق وائس چانسلر ہزارہ یونیورسٹی ڈاکٹر سخاوت شاہ کے دور میں صحیح معاہد ہ کیا گیا مگر سابق قائم مقام وائس چانسلر ڈاکٹرسہیل شہزاد نے نہ صرف معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بلکہ خلاف قانون ٹھیکیدار کے ساتھ معاہدے کو بڑھایا اورتزئین وآرائش کیلئے بھی بغیرمنظوری کے کام دیئے۔

انہوں نے کہا کہ ایک ٹھیکیدار نے62ہزار کی بولی دی تھی مگر پریشر کی وجہ سے وہ واپس ہو گئے اور کمیٹی کو بتایا گیا کہ ہزارہ یونیورسٹی کی پبلک ورکس کمیٹی کے مطابق تزئین و آرائش کا کام17لاکھ کا ہے ۔ سینیٹر نعمان وزیر نے کہا کہ سابق وائس چانسلر ڈاکٹر سہیل شہزاد کے دورانیے میں ادارے کی کارکردگی انتہائی خراب رہی جس بھی معاملے کو اٹھائیں کرپشن وخردبرد کی بھرمار نظر آتی ہے۔

غیر ضروری تقرریاں عمل میں لائی گئیں قائم مقام وائس چانسلر نے اپنے عہدے کا غلط استعمال کیا اور جس طرح سے یہ تقرریاں کی گئی ہیں وہ بھی خلاف قانون ہیں۔انہوں نے نے ہائر ایجوکیشن کمیشن کو اس بارے انکوائری کی ہدایت کرتے ہوئے کل تک رپورٹ تیار کرنے کی ہدایت بھی کی۔ ذیلی کمیٹی نے ہزارہ یونیورسٹی کے اندر 3.49ملین روپے کی لاگت سے تعمیر کئے گئے پارک جسکا ٹینڈر صرف یونیورسٹی کی ویب سائٹ پر دیا گیا کے معاملات کا بھی تفصیل سے جائزہ لیا گیا ۔

ذیلی کمیٹی کو بتایا گیا کہ 2.5ملین کا ٹینڈر بڑے اخبار میں دیا جاتا ہے اور پارک کیلئے3.49ملین روپے کا ٹینڈر صرف یونیورسٹی کی ویب سائٹ پر دیا گیا۔کنوینر کمیٹی نے ڈسپلنری ایکشن کی ہدایت کر دی۔ذیلی کمیٹی نے یونیورسٹی کے ڈینز اور ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ کو دیئے گئے فنڈز کی تفصیلات کے معاملات کا بھی جائزہ لیا ۔ذیلی کمیٹی کو بتایا گیا کہ ایک ماہ کے اندر ایڈجسٹمنٹ رپورٹ تیار کر لی جائیگی۔

ذیلی کمیٹی کو بتایا گیا کہ یونیورسٹی کے شعبہ قانون کی ہیڈ مس طاہرہ کلیم کے اکاؤنٹ میں 19لاکھ روپے لیگل ایڈوائزر کو دینے کیلئے جمع کرائے گئے جو کہ خلاف قانون ہے۔پبلک فنڈز کو پرائیوٹ اکاؤنٹ میں ٹرانسفر نہیں کیا جا سکتا ۔سینیٹر اعظم خان سواتی نے کہا کہ نہ ہی میرا ذاتی ایجنڈا ہے اور نہ ہی میری کسی سے ذاتی دشمنی ہے ۔ ہزارہ یونیورسٹی کیلئے میں نے نہایت محنت سے کام کیا ہے مگر کرپشن مافیا نے اسکو تباہی کے دہانے پر کھڑا کر دیا ہے ہمارے علاقے کے بچوں کے لئے تعلیمی شعبے میں کرپشن کی انتہا کر کے نہ صرف ادارے کو تباہ کیا جا رہاہے بلکہ ملک و قوم کو خاصا نقصان پہنچایا جا رہا ہے۔

بچوں کے مستقبل کو تباہ کرنے کی سازش کی گئی ملوث لوگوں کے خلاف سخت کاروائی کر کے باقی تعلیمی اداروں کیلئے یہ مثال قائم کی جائے۔

متعلقہ عنوان :