ارکان پارلیمنٹ اپنی زمینوں پر موبائل ٹاورز لگانے کیلئے دباؤ ڈالتے ہیں ، کسی کی خواہش پر ٹاور نہیں لگے گا ، ٹاور وہیں لگیں گے جہاں ضرورت ہو گی ، یونیورسل سروس فنڈ میں کسی قسم کی خوربرد موجودہ دور حکومت میں نہیں ہوئی ، کوئی جتنی بار آڈٹ کروانا چاہیے کروا سکتا ہے ، الزام تراشی سے گریز کرنا چاہیے

وزیر مملکت برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی انوشہ رحمان کا سینیٹ میں سینیٹر عثمان کاکڑ کی تحریک پر بحث سمیٹتے ہوئے خطاب

پیر 18 جولائی 2016 22:22

اسلام آباد ( اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔18 جولائی ۔2016ء ) وزیر مملکت برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی اینڈ ٹیلیکام انوشہ رحمان نے کہا ہے کہ پارلیمنٹ کے ممبران اپنی زمینوں پر موبائل ٹاورز لگانے کے لئے دباؤ ڈالتے ہیں ، کسی کی خواہش پر ٹاور نہیں لگے گا ، ٹاور وہیں لگیں گے جہاں ضرورت ہو گی ، یونیورسل سروس فنڈ میں کسی قسم کی خوربرد موجودہ دور حکومت میں نہیں ہوئی ، کوئی جتنی بار آڈٹ کروانا چاہیے کروا سکتا ہے ، الزام تراشی سے گریز کرنا چاہیے ، پچھلی حکومت کے بے قاعدگیوں پر سب چپ تھے مگر آج جب کام ہو رہا ہے تو تنقید کی جارہی ہے ۔

وہ پیر کو سینیٹ میں سینیٹر عثمان کاکڑ کی تحریک پر بحث سمیٹ رہی تھیں ۔ قبل ازیں تحریک پیش کرتے ہوئے سینیٹر عثمان خان کاکڑ نے یونیورسل سروس فنڈ کے حوالے سے تحریک پیش کرتے ہوئے کہا کہ یو ایس فنڈ 100 ارب روپے تک رہے اور کم ترقی یافتہ علاقوں میں موبائل اور کمیونیکیشن کی سہولیات سمیت سکولوں اور کالجوں میں آئی ٹی کی سہولیات فراہم کرنا ہے مگر کم ترقی یافتہ علاقوں کو اس فنڈ سے محروم کرکے نظر انداز کیا جا رہا ہے اور 20 فیصد فنڈ بھی خرچ نہیں ہو رہا اور وزیر خزانہ بھی اس فنڈ کو اپنے مقاصد کے لئے استعمال کررہے ہیں اور گردشی قرضے کوختم کرنے کے لئے استعمال کررہے ہیں ۔

(جاری ہے)

60 سے 70 فیصد کم ترقی یافتہ علاقوں کو نظر انداز کیا جا رہا ہے ۔ پتہ نہیں 500 آئی ٹی سینٹرز کہاں بن رہے ہیں ۔ فاٹا میں دو فیصد بھی موبائل سروسز نہیں ہے ۔ سردار اعظم موسیٰ خیل نے کہا کہ یو ایس ایف کا فنڈ میں بڑے پیمانہ پر خرد برد ہو رہی ہے ۔ وزیر مملکت برائے آئی ٹی انوشہ رحمان نے کہا کہ اخباری بیانات خود سے ہی نہ دیئے جائیں ۔ یو ایس ایف بورڈ میں کوئی پارلیمنٹ کا ممبر نہیں ہے ۔

یونیورسل سروس فنڈ سے کم ترقی یافتہ علاقوں کے لئے جو پورے ملک میں موجود ہیں اور موبائل براڈ بینڈ تین جی اور 4 جی آنے کے بعد زیادہ ہوتی ہے ۔ بلوچستان سمیت دیگر علاقوں میں بھی کام شروع کیا گیا ہے ۔ الزامات لگانے سے پہلے سوچنا چاہیے ، مجھے پارلیمنٹ کے ممبران کی جانب سے سفارشیں آتی ہیں کہ ہماری زمینوں پر ٹاور لگائیں اور بلوچستان میں دھمکیاں دی گئیں اور ٹاورز کو بموں سے اڑایا گیا کسی کی سفارش ٹاور نہیں لگے گا ۔

حکومتی پارلیسی کے مطابق کام ہو رہا ہے ۔ پچھلی حکومت میں یو ایس ایف فنڈ کا پیسہ نجی بینکوں میں تھا موجودہ حکومت نے اسے وہاں سے نکالا ۔ ہم نے پیسہ گردی قرضے میں نہیں دیا اعلیٰ تعلیم کا حصول ممکن بنانے کے لئے حکومت 35 ہزار فی طالبعلم خرچہ برداشت کر رہی ہے ۔ وزیر اعظم ہیلتھ انشورنس اسکیم کے لئے 9 ارب مختص کیے ہیں اور غربت کے خاتمے کے لئے اقدامات کیے جا رہے ہیں ۔