طورخم پر حملہ ہوگا تو اس کا جواب دیا جائے گا ،گیٹ کی تعمیر جاری رہے گی‘ سرتاج عزیز

افغانستان کو مئی میں بتا دیا تھا یکم جون سے کسی کو دستاویزات کے بغیر سرحد عبور کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی‘خارجہ امور کے مشیر کی انٹر ویو میں گفتگو

ہفتہ 18 جون 2016 22:31

اسلام آباد( اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔18 جون ۔2016ء) وزیر اعظم کے مشیر برائے خارجہ امور سرتاج عزیز نے کہا ہے کہ اگر طورخم پر حملہ ہوگا تو اس کا جواب دیا جائے گا ،طورخم پرگیٹ کی تعمیر جاری رہے گی کیونکہ اس گیٹ کی تعمیر سے نہ تو پاکستان افغانستان کے ساتھ کسی دو طرفہ معاہدے کی خلاف ورزی کر رہا ہے اور نہ ہی کسی بین الاقوامی قانون کے منافی کام کر رہا ہے۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے بی بی سی ریڈیو سے گفتگو میں کیا ۔سرتاج عزیز کا مزید کہنا تھا کہ جب تک افغانستان اور پاکستان کی سرحد پر بارڈر مینجمنٹ کا کوئی نظام قائم نہیں ہو جاتااس وقت تک دہشتگردی، انتہا پسندی اور سمگلنگ جیسے مسائل پر قابو نہیں پایا جا سکتا ہے۔ سرحد پر دونوں جانب سے آمد و رفت دستاویزات کی مدد سے ہونی چاہیے۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ روزانہ چالیس سے پچاس ہزار افراد اس راستے سے کسی رکاوٹ یا پوچھ گچھ کے بغیر آ جا رہے ہیں اور اس میں ہر طرح کے لوگ شامل ہوتے ہیں۔

ہم نے افغانستان کو مئی میں بتا دیا تھا کہ یکم جون سے کسی کو دستاویزات کے بغیر سرحد عبور کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔خارجہ امور کے مشیر کا مزید کہنا تھا کہ افغانستان چاہتا ہے کہ پاکستان سرحد پر گیٹ کی تعمیر روک دے لیکن ہم گیٹ اپنے علاقے میں بنا رہے ہیں اور اس کے لیے ہمیں کسی سے اجازت لینے کی ضرورت نہیں۔سرتاج عزیز نے کہا کہ یہ گیٹ پاکستان کے علاقے میں سرحد سے تیس پینتیس میٹر اندر بنایا جا رہا ہے اور پاکستان اس کی تعمیر جاری رکھے گا اور اسے دونوں ممالک کے درمیان آمد و رفت کے لیے کھول دیا جائے گا۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ اگر پاکستان نے افغانستان کو بتا دیا تھا کہ وہ سرحد پر گیٹ تعمیر کرنے جا رہا ہے تو پھر سرحد پر اتنی کشیدگی اور فائرنگ کا تبادلہ کیوں ہواکا جواب دیتے ہوئے سرتاج عزیز کا کہنا تھا کہ پاکستان نے افغانستان کو 2014 ء میں بتا دیا تھا کہ وہ طورخم پر نئی سہولیات متعارف کرنے کا منصوبہ رکھتا ہے لیکن افغانستان نے ہماری اس تجویز کا کوئی باقاعدہ جواب نہیں دیا۔

ان کی جانب سے جو تحفظات سامنے آئے تھے انہیں منصوبے میں شامل کر لیا گیا تھا۔سرتاج عزیز کے بقول سرحد پر دستاویزات کی پابندی جیسے اقدامات دونوں ممالک کے حق میں ہیں کیونکہ وہ بھی یہی کہتے ہیں کہ پاکستان سے لوگ بلا روک ٹوک افغانستان میں داخل ہو جاتے ہیں۔ایسا نظام ضروری ہے کیونکہ جب تک سرحد پر انتظامات نہیں کیے جائیں گے، سہولیات نہیں فراہم کی جائیں گی، ہمارے سکیورٹی خدشات قائم رہیں گے اور افغانستان کے خدشات بھی موجود رہیں گے۔

جب سرتاج عزیز کی توجہ سابق افغان صدر حامد کرزئی کے اس بیان کی جانب دلوائی گئی کہ پاکستان بھارت کو افغانستان تک زمینی راستے سے رسائی نہیں دینا چاہتا تو ان کا کہنا تھا کہ مسائل تو اسی وقت حل ہو سکتے ہیں جب بھارت مذاکرات کے لیے رضامند ہو اور مذاکرات جب ہی ہو سکتے ہیں جب دونوں ممالک کے درمیان تعلقات اچھے ہوں۔

متعلقہ عنوان :