تجدید قرضہ ایکٹ کے تحت قرضوں کی شرح میں بتدریج کمی واقع ہو رہی ہے، 1999ء سے 2013ء تک حاصل کئے گئے 12ہزار ارب کے قرضوں کا حساب نہیں دے سکتے ‘ 2018ء سے 2023ء تک قرضوں کو جی ڈی پی کے 57 فیصد تک لانے کا ہدف مقرر ہے‘ سرکاری اخراجات میں کفایت شعاری کو فروغ دیا جارہا ہے‘ وزیر خزانہ نہیں اللہ کے حبیب کا غلام ہونے کی حیثیت سے خدمات سرانجام دے رہا ہوں، باہمی احترام یقینی بنانا ہوگا، چیلنج کرتا ہوں کہ میرا بیرون ملک ایک روپیہ بھی ثابت ہو جائے تو سیاست ہمیشہ کے لئے چھوڑ دوں گا،

وزیر خزانہ سینیٹر اسحاق ڈار کا قومی اسمبلی میں لازمی اخراجات پر بحث سمیٹتے ہوئے اظہارخیال

ہفتہ 18 جون 2016 22:22

اسلام آباد ۔18 جون(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔18 جون ۔2016ء ) وزیر خزانہ سینیٹر اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ تجدید قرضہ ایکٹ کے تحت قرضوں کی شرح میں بتدریج کمی واقع ہو رہی ہے تاہم 1999ء سے 2013ء تک حاصل کئے گئے 12ہزار ارب کے قرضوں کا حساب مسلم لیگ (ن) نہیں دے سکتی‘ 2018ء سے 2023ء تک قرضوں کو جی ڈی پی کے 57 فیصد تک لانے کا ہدف مقرر کیا ہے‘ سرکاری اخراجات میں کفایت شعاری کو فروغ دیا جارہا ہے‘ وزیر خزانہ نہیں اللہ کے حبیب کا غلام ہونے کی حیثیت سے خدمات سرانجام دے رہا ہوں، ہمیں ایک دوسرے کا احترام یقینی بنانا ہوگا۔

ہفتہ کو قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران لازمی اخراجات پر بحث سمیٹتے ہوئے وزیر خزانہ سینیٹر اسحاق ڈار کے کہا کہ سینٹ سفارشات میں سے جو قابل عمل تھیں ان کو تسلیم کیا گیا ہے حالانکہ ماضی میں یہ فوری مسترد کردی جاتی تھیں۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ اٹھارہویں ترمیم کے بعد صوبوں کو خسارے کا بجٹ بنانے کی اجازت دی گئی‘ تین صوبوں کا خسارے کا بجٹ ہے، تین سالوں میں مجموعی طور پر 60 فیصد گروتھ ہوئی ہے، مالیاتی خسارے پر مبنی بجٹ کی منظوری کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ پارلیمنٹ قرض لینے کی اجازت دے رہی ہے۔

اسی طرح قرضے پارلیمنٹ کی اجازت سے ہی لئے جاتے ہیں۔ قرضوں کی حد 8.8 فیصد سے کم کرکے 4.3 فیصد مقرر کی گئی ہے۔ ہم نے اپنے دور میں حاصل کئے گئے قرضوں کی تفصیلات پیش کردی ہیں۔12 اکتوبر 1999ء سے جون 2013ء تک حاصل کئے جانے والے 12000 ارب کے قرضوں کا حساب مسلم لیگ (ن) نہیں دے سکتی۔ 2018ء سے 2023ء تک قرضوں کو جی ڈی پی کے 57 فیصد تک لے کر آئیں گے۔ یہ ہد ف ہم نے فنانس بل میں مقرر کردیا ہے۔

انہوں نے کہاکہ صدر مملکت ممنون حسین ماضی کے صدور کے برعکس اپنے فرائض احسن انداز میں انجام دے رہے ہیں، گیارہ جون 2013ء کو ہم نے 32 اداروں کے سیکرٹ فنڈز بند کردیئے تھے، انٹیلی جنس اداروں کے علاوہ کسی ادارے کو سیکرٹ فنڈز نہیں دے رہے، تین ہزار سے 15000 ارب قرضے کا سفر ہم نے طے نہیں کیا۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان کے ساتھ سرحدی صورتحال کا سنجیدگی سے جائزہ لیا جارہا ہے، دفتر خارجہ تمام سفارتی ذرائع استعمال کر رہا ہے،انہوں نے کہاکہ کسی دور میں بھی شروع ہونے والے تعلیمی اداروں کی تعمیر کو جلد از جلد مکمل کرائیں گے، 16 سال قبل ہم نے غربت کے خاتمے کا پروگرام شروع کیا تھا یہ 60 ہزار لوگوں سے شروع ہوا۔

اب اس کا دائرہ کار بہت وسیع ہوگیا ہے۔ فاٹا کی ترقی کے لئے 22 ارب 30 کروڑ اور جاری اخراجات کے لئے 20 ارب روپے الگ مختص کئے گئے ہیں، ٹی ڈی پیز کی بحالی کے لئے 245 ارب روپے خرچ ہونگے ارکان پارلیمنٹ کی تنخواہوں پر وزیراعظم کی آمد پر نظرثانی کریں گے۔ انہوں نے چیلنج کیا کہ ان کا بیرون ملک ایک روپیہ بھی ثابت ہو جائے تو وہ سیاست سے ہمیشہ کے لئے لاتعلق ہو جائیں گے ، پہلے میں نے الزامات پر خاموشی اختیار کئے رکھی اب فیصلہ کیا ہے کہ جو بھی ایسا الزام لگائے گا میں عدالت جاؤں گا۔

انہوں نے کہا کہ میں چین سے ریشم منگوا کر نہیں بیچتا ،ایک پروفیشنل ہوں۔ ایک چائے کا قطرہ بھی میری زندگی میں حرام کا شامل نہیں ہے۔ وزیر خزانہ نہیں اللہ کے حبیب کا غلام ہونے کی حیثیت سے خدمات سرانجام دے رہا ہوں۔ انہوں نے کہاکہ کہ ہمیں ایک دوسرے کا احترام یقینی بنانا ہوگا۔