بلوچوں کے حقوق تسلیم کرکے انہیں مین اسٹریم میں لائے بغیردیرپاامن کاقیام ممکن نہیں،پرنس محی الدین بلوچ

تیس سال سے صوبے کی تعمیروترقی کیلئے آنیوالے فنڈزحقیقی معنوں میں خرچ نہ ہونے سے بلوچستان آج بھی پسماندگی کی تصویرپیش کررہاہے،سربراہ بلوچ رابطہ اتفاق تحریک

جمعرات 16 جون 2016 22:54

کوئٹہ ( اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔16 جون ۔2016ء ) بلوچ رابطہ اتفاق تحریک (برات)کے سر براہ سابق وفاقی وزیر پرنس محی الدین بلوچ نے کہا ہے کہ آئینی طور پر بلوچوں کے حقوق کو تسلیم کر کے انہیں مین اسٹریم میں لائے بغیر بلوچستان میں دیر پا امن کا قیام ممکن نہیں بنایا جا سکتا، گزشتہ تیس سال سے صوبے کی تعمیر وترقی کیلئے آنیوالے فنڈز حقیقی معنوں میں خرچ نہ ہونے کی وجہ سے بلوچستان آج بھی پسماندگی کی تصویر پیش کر رہا ہے مارشل لا دور میں جتنی ترقی ہوئی اور لوگوں کو انصاف ملا وہ جمہوری دور میں نہیں ملا پارلیمنٹ کا کام قانون سازی کر نا اور اس پر عملدرآمد کو یقینی بنانا ریاست کی ذمہ داری ہے اس لئے ریاست کو مضبوط اور آئین پر عملدرآمد کیلئے کردار ادا کر نا ہو گا، ان خیالات کا اظہار انہوں نے جمعرات کو ایوان قلات میں سینئر صحافیوں سے گفتگو کے دوران کیا ،اس موقع پر برات کے صوبائی صدر پرنس یحیی جان بلوچ بھی موجود تھے ،انہوں نے کہا کہ بلوچ قوم کی اپنی ایک شناخت اور حیثیت ہے اس نے ہمیشہ انفرادی طور پر بھی اپنا کردارا دا کیا ہے لیکن اس وقت اجتماعی طور پر کام کر نے کی ضرورت ہے صوبے میں1999 ء سے امن وامان میں جو خلل ڈالا گیا بلوچی ماحول کو تسلیم کرکے ہی بلوچستان کے مسلے کو حل کیا جاسکتا ہے ،ہم نے کوشش کی کہ بلوچ قوم کی حیثیت کو فعال بنا کر صوبے کے مسائل کو ترجیحی بنیادوں پر حل کیا جائے ملک میں 1973 ء کے آئین سے پہلے بھی آئین بنائے گئے تھے مگر 1973 ء کے آئین پر پوری قومی سیاسی قیادت نے دستخط کیے تھے مگر 1973 ء کے آئین کے خالق نے تیسرئے ہی روز آئین میں ترمیم کی جس پر اس وقت کے اپوزیشن رہنما مولانا مفتی محمود نے احتجاج کیا تو انہیں ایوان سے جس طرح باہر نکالا گیا وہ آئین کے روح کے منافی تھاجب آئین اپنا کام نہیں کررہا ہو تو صورتحال زیادہ پیچیدہ ہوجاتی ہے ،1977 ء میں بھی کچھ ایسی ہی صورتحال تھی اور جب ملک میں مارشل لگا تھا تو اس وقت عدلیہ نے اس کو درست قرار دیا تھا، اس کے بعد جب جنرل پرویز مشرف نے ملک کا اقتدار اپنے ہاتھوں میں لیا تھا تو اس کے پاس اس کا کوئی جواز نہیں تھا،کیونکہ اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف نے اپنے اختیارات استعمال کر تے ہوئے جنرل پرویز مشرف کو عہدے سے ہٹاکر ان کی جگہ جنرل ضیا بٹ کو تعینات کیا تو پرویز مشرف نے اس فیصلے کو برداشت کر نے کی بجائے اسے ذاتی انا کا مسئلہ بنا کر اقتدار پر براجمان ہو کر ذاتی مفادات کو تر جیح دی اور اور ان کے فیصلوں سے ملک اور بلوچستان کے حالات خراب ہوئے مگر مشرف کے ٹیک اوور کو بھی درست قرار دیا گیا، ایسے دیکھنا ہوگا کہ ہمارا آئین بحرانوں سے ڈیل کیوں نہیں کرپارہا ہے، اس وقت عالمی قوتوں کی نگاہیں بلوچستان پر لگی ہوئی ہیں ان کی نظریں صوبے کے وسائل پر بھی لگی ہوئی ہیں، سیندک کا آدھا حصہ وفاق اور آدھا چائنا لے گیا بلوچستان کو کچھ حاصل نہیں ہوا اس طرح تو نو آبادیاتی دور میں بھی نہیں ہوا، اس وقت جو صورتحال ہے اس میں بیرونی طا قتیں بلوچستان آنے کے لئے تیار کھڑی نظر آرہی ہیں ہمارجنوب مشرق کاا ایک مسلمان ہمسایہ ملک ہم پر اپنے ملک میں ہونے واقعات کا الزام لگارہا ہے ہم پر الزام ہے کہ ہم ان کے ملک میں دراندازی کر رہے ہیں افغانستان ڈیورنڈ لائن کو تسلیم نہیں کرتا،صورتحال انتہائی گمھبیر ہے ایسے میں میاں محمد نواز شریف، آصف علی زرداری اور عمران خان لندن میں اکٹھے ہوئے انہیں کہا گیا ہیکہ اپنے ملک کو آرڈر میں کریں اور اسے مستحکم بنائیں کیونکہ دنیا بھر کی نظریں بلوچستان پر مرکوز ہیں اور مغرب چاہتا ہے کہ اس خطے میں بیٹھ کر سیاست کرئے انہوں نے کہا کہ ان حالات میں اگر مجھے اور برات کوموقع دیا گیا تو میں حالات کو بہتر بنا نے میں اپنا مکمل کردار ادا کرونگا، اس وقت پاک فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف معاملات کو سنجیدگی کیساتھ حل کر نے میں اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں اس لئے انہیں جنرل ضیا الحق کی طرح فیصلہ کرنا ہوگاایک سوال پر انہوں نے کہا کہ جب پاکستان کا قیام عمل میں لایا گیا تو ملک کے دوسرئے حصوں اور بلوچستان میں فرق تھا بلوچستان کی اپنی آزاد حثیت تھی مگر بلوچستان کیساتھ ہمیشہ ظلم اور زیادتی ہوئی اور خاص طور پرگزشتہ 23 اور پھر 16سال سے جو معاملات چلے آرہے ہیں، امن کی بحالی کو یقینی بنا نے کیلئے قصور وار کو سزا اور جرمانہ ہونا چاہئے لو گوں کو اعتماد میں لے کر مسائل کا حل نکالا جائے ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ بلوچ رابطہ عوامی تحریک (برات)اس وقت پنجاب، سندھ ، کراچی اور گلف میں بھی تیزی سے فعال ہو رہی ہے ہماری کوشش ہے کہ بلوچ قوم کی سوچ کو یکجہتی کیساتھ لے کر آگے بڑھا جائے بلوچستان کے مسئلے کا مستقل حل بھی یہی ہے کہ لو گوں کے مسائل کو حل کر کے صوبے کو ترقی کی راہ پر گامزن کیا جائے تاکہ بلوچستان ہاتھسے نکل نہ جائے میں نو سال تک وزیر رہا اور یہاں کے لوگ سمجھتے ہیں کہ وہ مارشل لا کے دور میں خوش رہے اور انہیں انصاف ملتا رہا ہے ترقیاتی کام ہوئے جبکہ جمہوری دور میں انہیں نظر انداز کیا اور ان سے نا انصافی کی جاتی رہی ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ میں جمہوریت کے خلاف ہوں اور نہ ہی جمہوریت بری چیز ہے کیونکہ اسلام میں بھی جمہوریت کی جھلک دکھائی دیتی ہے تمام خلفا ئے راشدین جمہوری انداز میں آئے جبکہ ہمارے ملک میں جو پارلیمانی نظام چل رہا ہے وہ غیر جمہوری بلکہ واثت پر مبنی ہے سپریم کورٹ اور ہائیکورٹ کئی ایک انتخابات کو دھاندلی پر مبنی قرار دئے چکے ہیں اور ہمارا الیکشن کمیشن بھی غیر جانبدار نہیں جس کی وجہ سے طاقت ور اور مالدار اسمبلی میں جاتے ہین، یہاں مثاق جمہوریت بھی ہوا کہ پہلے پیپلز پارٹی اورپانچ سال بعد مسلم لیگ(ن)اقتدار میں آئیگی 5 سال قبل یہ پیشگوئی کیسے کی گئی تھی کہا آئندہ کون اقتدار میں آئے گا ہمارے پاس کوئی لیڈر نہیں جمہوریت کو مضبوط نبا کر لیڈر لانا چاہئے بلوچستان کے حالات خراب ہیں جنرل راحیل شریف سنجیدگی کیساتھ توجہ دے کر معاملات کو حل کر سکتے ہیں ۔

متعلقہ عنوان :