وہ ولوگ جو مرنے کے بعد بھی کئی وجوہ کی بناءپر زندہ سمجھے جاتے ہیں

Mian Nadeem میاں محمد ندیم جمعرات 16 جون 2016 11:37

وہ ولوگ جو مرنے کے بعد بھی کئی وجوہ کی بناءپر زندہ سمجھے جاتے ہیں

نیویارک(اردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔16جون۔2016ء)موت ایک حقیقت ہے لیکن کئی لوگ ایسے جو مرنے کے بعد بھی کئی وجوہ کی بناءپر زندہ سمجھے جاتے ہیں ، یا تو لوگ ان کی موت کا یقین نہیں کرتے یا پھر ان کی موت اتنے پراسرار انداز میں ہوتی ہے کہ شواہد موجود نہ ہونے کی وجہ سے ایک بڑی تعداد سازشی نظریات کا شکار ہو جاتی ہے-امریکا کو مطلوب افراد میں سرفہرست اسامہ بن لادن پر الزام تھا کہ انہوں نے 11 ستمبر 2001ءکو امریکا پر ہونے والے حملوں کی منصوبہ بندی کی تھی۔

امریکا نے افغانستان پر حملہ کر کے اسے تہس نہس کر ڈالا، لیکن وہ اسامہ بن لادن کو نہ ڈھونڈ سکا یہاں تک کہ 2011ءمیں مبینہ طور پر پاکستان کے شہر ایبٹ آباد میں ایک خفیہ آپریشن کر کے اسامہ بن لادن کو قتل کر دیا۔

(جاری ہے)

امریکا کا کہنا ہے کہ اسامہ کی لاش کو بحیرہ عرب میں سمندر عرق کر دیا گیا اور اس کے پاس دستاویزی ثبوت بھی موجود ہیں، یعنی تصاویر، لیکن وہ بڑے پیمانے پر عوامی ردعمل کے خطرے کی وجہ سے اسے پیش نہیں کر سکتا۔

یہی وجہ ہے کہ اسامہ بن لادن کی ہلاکت کا ایک ثبوت بھی اب تک دنیا کے سامنے موجود نہیں کہ جسے دیکھ کر اس دعوے کو تسلیم کیا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ لوگوں کی بڑی تعداد آج بھی یہی سمجھتی ہے کہ اسامہ زندہ ہے۔اور کہیں گمنامی کی زندگی گزاررہا ہے- دوسری جنگ عظیم کے خاتمے پر جرمنی کے حکمران ایڈولف ہٹلر نے خودکشی کر لی تھی اور ان کی لاش کو جلا دیا گیا تھا۔

گو کہ دانتوں کے ریکارڈ سے ثابت ہوا کہ ملنے والی باقیات انہی کی ہیں، لیکن ”سازشی نظریات“ کہتے ہیں کہ وہ ایک آبدوز کے ذریعے ارجنٹائن فرار ہو گئے تھے۔ ایسی بہت سی باتیں ہٹلر کے لیے مشہور ہیں کہ اپنے جنگی جرائم کی وجہ سے انہوں نے باقی زندگی گمنامی میں گزاری۔ مشہور زمانہ خاتون پائلٹ امیلیا ایئرہارٹ 1937ءمیں دنیا کے گرد چکر لگانے کی تاریخی مہم کے دوران لا پتا ہو گئی تھیں۔

ان کا ہوائی جہاز بحرالکاہل پر پرواز کے دوران غائب ہوا اور آج تک نہ ہی جہاز کی باقیات ملیں اور نہ ہی امیلیا کا کچھ پتا چلا۔ گو کہ 1939ءمیں ان کی موت کا باضابطہ اعلان کر دیا گیا تھا، لیکن ایک جزیرے پر امیلیا کی تنہا زندگی سے لے کر جاپانیوں کے ہاتھوں گرفتاری تک جتنے منہ اتنی باتیں آج تک موجود ہیں۔ روس کے اس بادشاہ نے اپنے اہل خانہ اور دوستوں سے کہا تھا کہ وہ تخت چھوڑ دینا چاہتا ہے، پھر 1825ءکے موسم سرما میں کریمیا کے ایک دورے میں اس کا اچانک انتقال ہو گیا۔

اسے ایک بند تابوت میں دفنا دیا گیا، لیکن بعد میں یہ افواہیں اڑیں کہ الیگزینڈر نے اپنی موت کی جھوٹی خبر پھیلائی تھی تا کہ وہ سکون سے اقتدار سے الگ ہو سکے۔ کہا جاتا ہے کہ 1864ءمیں سائبیریا میں مرنے والا ایک خانہ بدوش فیرور کزمچ دراصل الیگزینڈر اول ہی تھا، جو فقیروں کے بھیس میں تماشائے اہل کرم دیکھ رہا تھا۔ حیران کن بات یہ ہے کہ جب 1925ءمیں اس معمے کو حل کرنے کے لیے الیگزینڈر اول کی قبر کھولی گئی تو اس میں کوئی لاش نہیں تھی۔

ہندوستان کی تحریک آزادی کی تاریخ سبھاش چندر بوس کے بغیر مکمل نہیں ہو سکتی۔ قوم پرست رہنما برطانیہ کو ہندوستان سے نکالنے کے لیے دوسری جنگ عظیم میں جاپان کی مدد کے خواہشمند تھے یہاں تک کہ 18 اگست 1945ءکو ایک جاپانی جہاز کے تائیوان میں گرنے کے ساتھ ہی مارے گئے۔ دو دن بعد ان کی آخری رسومات ادا کر کے راکھ ٹوکیو لے جائی گئی، جہاں وہ آج بھی موجود ہے، لیکن کئی وجوہ کی بنیاد پر آج بھی سبھاش چندر کی موت کا یقین نہیں کیا جاتا۔

ان افواہوں کو پھیلانے میں سب سے آگے خود سبھاش کا خاندان تھا۔ یہاں تک کہ مرنے کے 21 سال بعد فروری 1966ءمیں بھی ان کے بھائی سریش چندر بوس نے اعلان کیا کہ اگلے مہینے سبھاش واپس آجائیںگے۔ کچھ نظریات کہتے ہیں کہ سبھاش واقعی ہندوستان آئے، لیکن ایک سادھو کے روپ میں گمنامی کی زندگی گزاری۔ کچھ کہتے ہیں کہ وہ روس میں سیاسی پناہ لینے گئے، لیکن وہاں قید کے بعد سزائے موت پائی۔ حال ہی میں امریکی ڈرون حملے میں مبینہ طور پر ہلاک ہونے والے ملامنصور کے بارے میں بھی کچھ اس قسم کی افواہیں گردش کررہی ہیں کہ وہ سیاسی مقاصدکی خاطرمنظرسے غائب ہوگئے ہیں-جبکہ نوشکی میں مارا جانیوالا ولی محمد کوئی اور تھا اور ممکن ہے کہ ملامنصوردنیا کے کسی حصے میں گمنامی کی زندگی گزار رہے ہوں-