کامیاب آپریشن ضرب عضب کے دو سال مکمل:پاک فوج نےدہشتگردوں سے36سو کلو میٹر کا علاقہ کلئیر کروایا۔لیفٹننٹ جنرل عاصم باجوہ

آپریشن ضرب عضب میں 490 فوجی نوجوان شہید ہوئے،جبکہ 3500دہشتگردوں کو مارا گیا،کراچی میں 1200سے زائد دہشت گرد پکڑے یا مارے جاچکے ہیں،افغان چیک پوائنٹ پر سخت نگرانی کی جائے گی،افغان امن عمل کا ٹائم فریم نہیں دے سکتے،ملا فضل اللہ نیٹ ورک کے خلاف کاروائی ہوگی تو پتہ چلے گا،سفارتکاری کی آڑ میں کسی کو پاکستان کے خلاف کام نہیں کرنے دینگے،قبائلی علاقوں سے افغان خفیہ ایجنسی اور ”را“کا نیٹ ورک پکڑا گیا،فوج سی پیک منصوبے کی تکمیل کیلئے پرعزم ہے،بھرپور سکیورٹی فراہم کرینگے۔ڈی جی آئی ایس پی آر کی میڈیا کو بریفنگ

Sumaira Faqir Hussain سمیرا فقیرحسین بدھ 15 جون 2016 14:38

کامیاب آپریشن ضرب عضب کے دو سال مکمل:پاک فوج نےدہشتگردوں سے36سو کلو ..

راولپنڈی(اُردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار۔15 جون 2016ء) :پاک فوج کے ترجمان لیفٹننٹ جنرل عاصم باجوہ نے کہا ہے کہ آپریشن ضرب عضب کے دوسالوں میں پاک فوج نےدہشتگردوں سے36سو کلو میٹر کا علاقہ کلئیر کروایا،آپریشن ضرب عضب میں 490 فوجی نوجوان شہید ہوئے،جبکہ 3500دہشتگردوں کو مارا گیا،کراچی میں 1200سے زائد دہشت گرد پکڑے یا مارے جا چکے ہیں،آپریشن ضرب عضب میں 253ٹن دھماکہ خیز مواد پکڑا گیا،آپریشن ضرب عضب کے نتیجہ میں دہشت گردوں کے خلاف 19ہزار انٹیلیجنس بیسڈ آپریشن کیے،افغان چیک پوائنٹ پر سخت نگرانی کی جائے گی،فوج سی پیک منصوبے کی تکمیل کیلئے پرعزم ہے،منصوبے کی جلد تکمیل کیلئے بھرپور سکیورٹی فراہم کرینگے،ملا فضل اللہ نیٹ ورک کے خلاف کاروائی ہوگی تو پتہ چلے گا،سفارتکاری کی آڑ میں کسی کو پاکستان کے خلاف کام نہیں کرنے دینگے،قبائلی علاقوں سے افغان خفیہ ایجنسی اور ”را“کا نیٹ ورک پکڑا گیا۔

(جاری ہے)

ڈی جی آئی ایس پی آر نے کامیاب آپریشن ضرب عضب کے دو سال مکمل ہونے پرآج یہاں راولپنڈی میں میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ 15 جون 2014 کو آپریشن ضرب عضب کے آغازسے قبل پورے ملک میں دہشتگردی پھیل چکی تھی اور ہر روز ہی دھماکے ہورہے تھے۔ لوگوں کو اغوا کرکے جنوبی وزیرستان اور خیبر ایجنسی کے علاقہ غیر میں لے جایا جاتا تھا۔ یہ وہ وقت تھا جب طالبان برابری کے فریق بن کر ریاست پر اپنی مرضی مسلط کرنے کی کوشش کررہے تھے فیصلہ کیا گیا کہ ان کے خلاف ایک مکمل آپریشن کرکے انہیں نیست و نابود کردیا جائے گا۔

جنوری 2014 میں انہوں نے مذاکرات کا آغاز کیا اور مارچ میں ایک ماہ کیلئے سیز فائر کردیا 8 جون 2014 کو کراچی ایئرپورٹ پر حملہ ہوا جس کے بعد آپریشن ضرب عضب کا فیصلہ کیا گیاآپریشن ضرب عضب میں پاک فوج کی قربانیوں کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ شمالی وزیر ستان نو گو ایریا تھا جہاں طالبان پھیل چکے تھے جب یہاں آپریشن کیا گیا تو یہاں سے نکل کر دہشتگرد خیبر ایجنسی کی طرف منتقل ہوگئے آپریشن شروع ہونے سے پہلے افغانستان کو سیاسی و ملٹری سطح پر واضح پیغام دیا کہ ہم آپریشن شروع کرنے جارہے ہیں لہٰذا آپ ہمارے ساتھ تعاون کریں لیکن افغانستان نے تعان نہیں کیا اگر انہوں نے تعاون کیا ہوتا تو بہت مثبت نتائج سامنے آتے۔

شمالی وزیرستان میں 3600 مربع کلومیٹر علاقہ کلیئر کرایا گیا۔خیبر ون اور خیبر ٹو شروع کیے گئے جن میں ڈیڑھ ڈویڑن فوج نے حصہ لیا اور 2400 مربع کلومیٹر کا علاقہ دہشتگردوں سے خالی کرایا گیا ۔ اس دوران 900 دہشتگردوں کو مارا گیا اور لشکر اسلام کو اکھاڑ کر یہاں سے پھینکا جس میں 108 کے قریب جوان شہید ہوئے ۔جنوبی وزیرستان میں 4304 مربع کلومیٹر کا علاقہ کلیئر کرایاوادی شوال میں بہت سی قربانیاں دے کر لوگوں کی دہشتگردوں سے جان چھڑائی گئی یہ بارڈر کا علاقہ تھا جس کی وجہ سے بارڈر کے اس پار آمدورفت بہت زیادہ تھی۔

یہاں 992 سرنگیں تباہ کیں جبکہ 253 ٹن بارودی مواد ملا یہ اتنا بارودتھا کہ جس سے 15 سال تک آئی ای ڈیز بنائی جاسکتی تھیں۔ آپریشن کے دوران ساڑھے سات ہزار کے قریب آئی ای ڈیز فیکٹریاں تباہ کی گئیں جبکہ 2800 کے قریب مائنز تباہ کی گئیں اور مارٹر، راکٹ اور دیگر سامان 35310 سے زیادہ ریکور کیے ۔جوانوں کی قربانیوں اور بے گھر ہونے والے افراد کے بارے میں جنرل باجوہ نے بتایا کہ آپریشن ضرب عضب کے آغاز سے 500 کے قریب جوان شہید جبکہ ساڑھے تین ہزار دہشتگرد مارے جاچکے ہیں اور اس آپریشن پر 107 ارب ڈالر کے قریب خرچہ ہوا ہے۔

فاٹا اور سوات میں ریاست کی رٹ مکمل قائم کرچکے ہیں فاٹا کو کلیئر کرکے بارڈر تک پہنچے ہیں۔آپریشن ضرب عضب کے ٹی ڈی پیز کی واپسی کا عمل زورو شور سے جاری ہے اور 61 فیصد لوگ واپس جاچکے ہیں رواں سال کے اختتام تک تمام بے گھر افراد واپس اپنے گھروں کو پہنچ جائینگے ۔ پاک فوج کے جوان سول انتظامیہ کے ساتھ مل کر لوگوں کو بنیادی سہولیات فراہم کی جارہی ہیں۔

ان علاقوں میں صاف پانی ، ہسپتال، مساجد اور بازار، سکول، کیڈٹ کالجز بنائے جارہے ہیں۔ وزیرستان میں 705 کلومیٹر سڑکیں بن رہی ہیں اور سڑک بننے پر انٹرنیشنل موٹر ریلی نکالی جائیگی۔ جنرل عاصم سلیم باجوہ نے کراچی سمیت ملک بھر میں ہونے والے آپریشنز کے بارے مین بتایا کہ ملک بھر میں 19 ہزار سے زیادہ انٹیلی جنس بیسڈ آپریشن کیے جن کی وجہ سے دہشتگردوں کا نیٹ ورک ٹوٹ گیاہے ۔

کومبنگ آپریشن خیبر پختونخوا سے شروع کیے اور ان کا دائرہ کار بڑھارہے ہیں عوام کی طرف سے کومبنگ آپریشن میں بہت زیادہ تعاون حاصل ہورہا ہے۔ 27 دسمبر کو اقبال پارک لاہور می ہونے والے دھماکے کے بعد پنجاب میں 280 سے زائد آپریشن کیے جاچکے ہیں۔کراچی میں 1200 سے زیادہ دہشتگرد پکڑے اور مارے گئے ہیں ۔ کراچی میں ٹارگٹ کلنگ، بھتہ خوری، دہشتگردی اور اغوا برائے تاوان کی چار اہم وارداتیں ہورہی تھیں جن میں ستمبر 2013 میں شروع کیے جانے والے آپریشن کے بعد بہت زیادہ کمی واقع ہوئی ہے۔

افغانستان کے ساتھ بارڈر کے تنازعہ کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ افغانستان کے ساتھ ہمارا 2600 کلومیٹر بارڈر لگتا ہے اور اس میں سے ساڑھے 13 سو کلومیٹر کا بارڈر صرف کے پی کے کے ساتھ لگتا ہے جس میں سے صرف 8جگہوں پر باقاعدہ چیک پوسٹس قائم ہیں اس کے علاوہ سارے علاقے سے کوئی بھی آ سکتا اور جاسکتا ہے۔افغانستان سے انٹری سے لے کر اندر کی طرف پلاننگ کی گئی افغانستان کی سائیڈ پر ہمارے علاقے کے 37 میٹر اندر گیٹ کی تعمیر شروع کی گئی یہ تمام فیصلے سول اور فوجی قیادت مل کر کررہی ہے۔

2004 میں طورخم پر گیٹ تھا تاہم طورخم ، جلال آباد سڑک بنانے کیلئے یہ ہٹایا گیا۔خطے میں امن لانے کیلئے بارڈر مینجمنٹ انتہائی ضروری ہے کیونکہ یہاں سے دہشتگرد پاکستان میں داخل ہو کرکارروائیاں کرتے ہیں۔چارسدہ پر حملہ کرنے والے دہشتگرد طورخم بارڈر کے ذریعے پاکستان میں داخل ہوئے تھے ۔ بڈھا بیر حملے کے 14 کے 14 حملہ آور مارے گئے ۔ یہ تمام دہشتگرد افغانستان سے طورخم کے راستے پاکستان آئے اور ان کے سہولت کاروں نے تین گھر کرایے پر لے رکھے تھے جہاں انہیں تمام سہولیات دی گئیں ۔

بڈھا بیر حملے کے تمام سہولت کار خواہ انہوں نے رہائش فراہم کی ہو، ٹرانسپورٹ یا اسلحہ فراہم کیا ہو سب کے سب پکڑے جاچکے ہیں ۔طورخم بارڈر پر افغانیوں نے فائرنگ کی اورہمارے جوانوں نے بھرپور طریقے سے جواب دیا ۔زمین پر موجود جوانوں کی ٹریننگ ہی ایسی ہوتی ہے کہ ان پر کہیں سے بھی حملہ ہوگا تو وہ فوری طور پر جواب دیتے ہیں اور طورخم پر ہمارے جوانوں نے جتنا بنتا تھا اتنا ہی بھر پور جواب دیا ۔

افغانستان کی فائرنگ سے ہمارے ایک میجر شہید ہوئے ہیں جبکہ ایک افسر سمیت 19 جوان زخمی ہوئے ہیں۔افغان اور بھارتی خفیہ ایجنسی کی کارروائیوں کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ این ڈی ایس کے لوگ پکڑے گئے ہیں جن کے نام دو فائلوں میں ہیں اور یہ لوگ طورخم کے ذریعے خیبر پختونخوا میں داخل ہوکر دہشتگردی کررہے تھے۔دوسری جنگ عظیم کے بعد پوری دنیا میں یہ پہلا واقعہ ہے کہ کسی انٹیلی جنس ایجنسی کا حاضر سروس افسر کسی دوسرے ملک میں پورا نیٹ ورک چلانے کیلئے موجود تھا۔

این ڈی ایس اور ”را“ مل کر پاکستان میں مداخلت کررہے ہیں ۔اقتصادی راہداری کیلئے پاک فوج مکمل سکیورٹی دے گی اور کسی دہشتگرد یا ایجنسی کو اجازت نہیں دے گی کہ اس منصوبے کو سبوتاڑ کرسکے۔موجودہ ڈی جی آئی ایس آئی نے عہدہ سنبھالتے ہی افغان صدر سے ملاقات کی اور اس کے بعد آکر اپنا دفتر سنبھالا۔ آئی ایس آئی اور این ڈی ایس کا آپریشن ضرب عضب کے بہتر نتائج کے حصول میں آپس میں تعاون بہت ضروری ہے ۔

آرمی چیف 6 دفعہ کابل میں جا کر افغان صدر سے مل چکے ہیں ۔ چار ملکی گروہ افغان امن عمل کو آگے لے کر جارہے تھے لیکن یہ صرف پاکستان کی ذمہ داری نہیں ہے بلکہ سب نے ہی اس کو اپنے اثرورسوخ کے حساب سے آگے لے کر چلنا ہے۔ڈرون حملوں کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ پاکستان کیلئے ڈرون حملے ناقابل برداشت ہیں ۔ پہلی دفعہ سیٹلڈایریا میں ڈرون حملہ ہوا جس کی سخت مذمت کی گئی اور پاکستان نے باقاعدہ طور پر اور کھلے لفظوں میں امریکہ کو پیغام دیا کہ ڈرون حملے ناقابل برداشت ہیں اور اس سے دونوں ملکوں کے تعلقات متاثر ہوسکتے ہیں۔

ڈرون حملے میں پاکستان کی خود مختاری پر حملہ کرتے ہوئے ملا اختر منصور کو نشانہ بنایا گیا ۔ اس ڈرون حملے میں پاکستان کی کسی قسم کی رضامندی شامل نہیں تھی اور امریکہ نے اپنے طور پر یہ سب کارروائی کی ہے ۔فوجی عدالتوں کی کارکردگی کے بارے میں پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں لیفٹیننٹ جنرل عاصم سلیم باجوہ نے بتایا کہ اب تک فوجی عدالتوں سے 102 کیسوں کا فیصلہ سنایا جاچکا ہے اور ان میں سے 77 ملزمان کو سزائے موت دی جاچکی ہے جبکہ 12 مجرمان کی سزاؤں پر عملدرآمد رکرتے ہوئے پھانسیاں دی جاچکی ہیں۔

ایک سوال پر انہوں نے بتایا کہ طورخم بارڈر پرگیٹ لگانے کا فیصلہ حکومت اور فوج نے مل کرکیا، یہ کوئی نیا گیٹ نہیں بلکہ 2004 میں بھی یہاں گیٹ موجود تھا، طورخم پر لوگ بے ہنگم طریقے سے بارڈر کراس کرتے ہیں، بارڈر مینجمنٹ میکنزم دونوں ملکوں کے مفاد میں ہے، طورخم پر چیکنگ کا نظام بہتربنانے کے لیے باڑ لگائی گئی اور دستاویزات کی چینکنگ اور تصدیق کئے بغیرافغان بارڈر سے کسی شخص کو آنے جانے نہیں دیا جائے گا اور افغان چیک پوسٹ پر سخت نگرانی کی جائے گی۔

ترجمان پاک فوج نے کہاکہ پاکستان گزشتہ 35 سال سے زائد عرصے سے لاکھوں افغان مہاجرین کی مہمان نوازی کر رہا ہے اور ان کی دوسری نسل یہاں بڑی ہوکر کاروبار کررہی ہے، تقریبا35لاکھ مہاجرین پاکستان موجود ہیں ان کی اپنے وطن باعزت واپسی چاہتے ہیں مہاجرین کیلئے 53کیمپ قائم ہیں لیکن اکثر مہاجرین کیمپوں سے باہر موجود ہیں ان کی ریگولیشن مشکل ہے ایک سوال پر انہوں نے کہاکہ پاکستان سرحد کے اس پار حملے کے لئے کسی کو اپنی زمین استعمال کرنے نہیں دے گا۔

انہوں نے بتایا کہ آپریشن ضرب عضب کے دوران قبائلی علاقوں سے بھارتی خفیہ ایجنسی را اور افغان انٹیلی جنس ایجنسیوں کے نیٹ ورک کو ختم کیا  جنگ عظیم کے بعد کسی ملک کا حاضر سروس افسر دوسرے ملک میں جاسوسی کرتا پکڑا گیا انہوں نے واضح کیا کہ کسی دشمن انٹیلی جنس ایجنسی کو ملک میں کام کرنے نہیں دیں گے۔انگوراڈا چیک پوسٹ افغانستان کو دینے کے سوال پر ترجمان پاک فوج نے واضح کیا کہ پاکستان کی زمین کا ایک انچ حصہ بھی کسی کو نہیں دیا گیا،انگور اڈا کے علاقے میں نئی سڑک بننے کی وجہ سے ٹریفک کا دباوٴ تھا اورانگوراڈا پر ہمارا گیٹ افغانستان کے علاقے میں بنا ہوا تھا اس لئے حکومت کی اجازت کے بعد افغانستان کو انگور اڈا چیک پوسٹ دی گئی اور حکام کو اس حوالے سے آن بورڈ لیا گیا تھا۔

پاکستان ، افغانستان اور امریکہ کے سہ فریقی میکنزم کے حوالے سے انہوں نے کہاکہ کیونکہ امریکہ افغانستان میں موجود ہے اس لئے کئی امور پر تینوں ممالک آپس میں رابطہ رکھتے ہیں تاہم بعد ازاں افغانستان اور پاکستان دو طرفہ طورپر امور آگے بڑھائیں گے ۔انہوں نے کہاکہ پاک افغان سرحد پر طور خم کے علاوہ تمام باضابطہ کراسنگ پوائنٹ پر دستاویزات کی جانچ پڑتا ل اور تصدیق کا عمل شروع کیا جائیگا یہ عمل افغانستان کیلئے بھی اتنا ہی فائدہ مند ہے جتنا پاکستان کیلئے ہے ۔

انہوں نے آپریشن ضرب عضب کے حوالے سے بتایا کہ یہ بڑی لمبی جنگ ہے جس میں اب تک اتنی کامیابی کے ساتھ یہاں تک پہنچے ہیں دو سال کے اندر پوری قوم اکٹھی ہوئی اتفاق رائے حاصل ہوا اور قوم کے اتفاق رائے سے فورسز نے ایک سمت کی طرف بڑھنا شروع کیا انہوں نے کہاکہ ہم نے اس آپریشن کے دور ان پوری دنیا کیلئے ایک مثال قائم کی یہاں پیچیدہ مسائل کا سامنا تھا انہوں نے کہاکہ بعض اوقات غیر ضروری طورپر پاکستان پر الزام تراشی کی جاتی ہیں اور ہماری قربانیوں کو پس پشت ڈالنے کی کوشش کی جاتی ہے دنیا کو ہماری کامیابیاں اور قربانیاں اعتراف کر نا ہوگا ۔انہوں نے اسموقع پر قوم کو حقائق سے آگاہ کر نے پر میڈیا کا بھی شکریہ ادا کیا۔