افغان صدر کی زیر صدارت قومی سلامتی کونسل کا ہنگامی اجلاس ،طورخم تنازعہ سفارتکاری کے ذریعے حل کرنے پر اتفاق

مشیر خارجہ سرتاج عزیر اور آرمی چیف راحیل شریف سے فون پر بات ہوئی ہے، امید ہے یہ مسئلہ آئندہ چند دنوں میں سفارتی سطح پر حل کر لیا جائے گا،پاکستان میں افغان سفیر عمر زخیوال کا سوشل میڈیا پربیان

منگل 14 جون 2016 23:16

افغان صدر کی زیر صدارت قومی سلامتی کونسل کا ہنگامی اجلاس ،طورخم تنازعہ ..

کابل/لندن(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔14 جون ۔2016ء ) افغان صدر ڈاکٹر اشرف غنی کی زیر صدارت قومی سلامتی کونسل کا ہنگامی اجلاس ہوا ہے جس میں طورخم میں پاکستان کے ساتھ ہونے والی جھڑپوں پر غور اور تنازعے کو سفارت کاری کے ذریعے حل کرنے پر اتفاق کیا گیا ۔برطانوی میڈیا کے مطابقمنگل کو افغانستان کے دارالحکومت کابل میں طورخم میں پاکستان کے ساتھ ہونے والی جھڑپوں پر غور کرنے کے لیے قومی سلامتی کونسل کا ایک ہنگامی اجلاس افغان صدر ڈاکٹر اشرف غنی کی زیر صدارت ہوا جس میں اس مسئلہ کو سفارت کاری کے ذریعے حل کرنے پر اتفاق کیا گیا ہے۔

افغان قومی سلامتی کونسل کے اجلاس میں طورخم کے باڈر پر تعینات افغان فوجی دستوں کو بھی سراہا گیا۔افغان سلامتی کونسل کے اجلاس میں اس بات کا اعتراف کیا گیا کہ طورخم کا سرحدی تنازع جنگ کے ذریعے حل نہیں ہو گا اور اس کا حل سفارتی ذرائع سے ہی کیا جا سکتا ہے۔

(جاری ہے)

یاد رہے کہ دونوں ملکوں کی خارجہ امور کی وزارتوں نے اپنے اپنے ملک میں تعینات دوسرے ملک کے سفیر وں کو طلب کر کے طورخم پر ہونے والی جھڑپوں پر اپنے ملک کا اجتجاج ریکارڈ کرایا تھا۔

طور خم سرحد پر دونوں ملکوں کی سکیورٹی فورسز میں کشیدگی بدستور موجود ہے اور منگل کو شام گئے تک وقفے وقفے سے بھاری اسلحے سے آر پار فائرنگ کا سلسلہ جاری تھا۔دونوں ممالک نے سرحد پر اپنی فوجوں کی تعداد میں اضافہ کردیا ہے ۔پاکستان میں افغان سفیر عمر زخیوال جو منگل کو کابل میں موجود تھے نے سوشل میڈیا ویب سائٹ پر لکھا ہے کہ ان کی پاکستان کے خارجہ امور کے مشیر سرتاج عزیر اور پاکستان کی فوج کے سربراہ راحیل شریف سے فون پر بات ہوئی ہے۔

اسی پیغام میں افغان سفیر نے اس امید کا اظہار بھی کیا ہے کہ یہ مسئلہ آئندہ چند دنوں میں سفارتی سطح پر حل کر لیا جائے گا۔طورخم جہاں سے ہر روز تین سے چار ہزار لوگ سرحد کے آر پار جاتے ہیں وہاں ہر طرف ویرانی چھائی ہوئی ہے۔ سرحد کے قریب دکانیں بند ہیں اور کسی کو بھی سرحد کے قریب جانے کی اجازت نہیں دی جا رہی۔دونوں طرف فوجیوں کی نفری میں بھی اضافہ کر دیا گیا ہے۔