ایوان بالا کا اجلاس ، اپوزیشن نے نئے مالی سال کے وفاقی بجٹ کو مستردکردیا

جمعہ 10 جون 2016 15:25

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔10 جون ۔2016ء) سینٹ میں اپوزیشن نے وفاقی بجٹ 2016-17 کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ بجٹ سے عام آدمی کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا بلکہ مہنگائی کی شرح میں اضافہ ہوا ہے‘ چھوٹے صوبوں کا استحصال اور پی ایس ڈی پی میں مکمل طور پر نظر انداز کیا گیا ہے‘ بجٹ پر بحث کا کوئی فائدہ نہیں کیونکہ حکومت کے سامنے ایوان بالا کی کوئی وقعت نہیں ہے‘ یہ ایوان وفاق کی علامت اور یہاں موجود سینیٹرز اپنے صوبوں اور یونٹ کی نمائندگی کررہے ہیں‘ حکومت سینٹ کو صرف مباحثے کی سوسائٹی سمجھتی ہے‘ سینٹ نہ تو کوئی سوسائٹی ہے ‘ نہ کوئی سیمینار اور نہ ہی کوئی کنونشن‘ پی ایس ڈی پی سینٹ کے پاس ہونا چاہئے اور سینٹ کو اختیار ہونا چاہئے کہ وہ بجٹ سے متعلق قانون سازی میں اپنا کردار ادا کرے‘ سینٹ کی جانب سے قومی اسمبلی کو 150 سے زائد سفارشات بھیجی گئیں اور ان میں سے محض دو یا تین منظور کی گئیں اور جو سفارشات منظور نہیں کی گئیں ان پر کوئی تاویل بھی نہیں دی گئی‘ بجٹ میں پسماندہ طبقے ‘ منشیات کے عادی افراد‘ معذور افراد‘ عمر رسیدہ اور خواتین کے لئے کسی بھی ریلیف پیکج کا اعلان نہیں کیا گیا‘ فاٹا کی تعمیر و ترقی کے حوالے سے بھی حکومت نے کسی خاص سکیم یا منصوبے کا اعلان نہیں کیا‘ بجٹ میں صرف ٹی ڈی پیز کے لئے کچھ رقم رکھی گئی ہے جو کہ اونٹ کے منہ میں زیرے کے مترادف ہے۔

(جاری ہے)

جمعہ کو ایوان بالا میں وفاقی بجٹ 2016-17 پر عام بحث میں پیپلز پارٹی کے سینیٹر کریم احمد خواجہ ‘ سید مظفر حسین شاہ‘ ستارہ ایاز‘ تاج محمد آفریدی سمیت دیگر سینیٹر نے حصہ لیا۔ سینٹ کا اجلاس چیئرمین سینٹ میاں رضا ربانی کی صدارت میں ہوا۔ اجلاس میں وفاقی بجٹ 2016-17 پر سینیٹر کریم احمد خواجہ نے عام بحث کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ بجٹ مایوس کن رہا ہے اور اس سے مہنگائی کی شرح میں اضافہ ہوگا سینٹ کو منی بل اور پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا اختیار ملنا چاہئے اور ایک وفاقی وزیر کے مطابق تمام اختیارات قومی اسمبلی کو حاصل ہیں اور حکومت کی جانب سے سینٹ کو وقعت نہیں دی جاتی۔

ترقی اور منصوبہ بندی کی وزارت نے بتایا کہ سندھ کی بائیس لاکھ ایکڑ زمین سمندر میں بہہ گئی ہے اس طرح سمندر زمین کھا رہا ہے مگر ویژن 2015 میں اس پر کوئی منصوبہ بندی موجود نہیں ہے۔ وزارت دفاع اور وزارت سائنس اینڈ ٹیکنالوجی نے پچاس کروڑ روپے بجٹ ان کے لئے رکھنے کی تجویز دی تھی مگر نہیں رکھے گئے بجٹ میں چھوٹے صوبوں کیلئے کچھ نہیں رکھا گیا پاکستان کی جانب سے صرف چین سے سرمایہ کاری حاصل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔

پی ایس ڈی پی میں سندھ کو مکمل نظر انداز کیا جارہا ہے۔ سینیٹر سید مظفر حسین شاہ نے کہا کہ موجودہ حکومت چوتھی دفعہ بجٹ پیش کررہی ہے اگرچہ یہ ایوان اعلیٰ اور بالا ہے مگر حقیقت میں حکومت کے سامنے کوئی حیثیت نہیں رکھتا یہ ایوان وفاق کی علامت اور یہاں موجود سینیٹرز اپنے صوبوں اور یونٹوں کی نمائندگی کررہے ہیں سیاسی پارٹیوں اور قانونی ماہرین کے مطابق یہ وفاقی ریاست ہے ہماری بجٹ پر بحث کا فائدہ کیا ہے۔

حالانکہ آئین کے مطابق پارلیمان دو ایوانوں پر مشتمل ہے مگر سینٹ کی نمائندگی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی میں ہونی چاہئے سینٹ کوئی مباحثے کی سوسائٹی نہیں ہے اور نہ ہی کوئی سیمینار ہے اور نہ ہی کنونشن ہے پی ایس ڈی پی سینٹ کے پاس ہونی چاہئے کیونکہ وفاق کی علامت صرف سینٹ ہے اور سینٹ کو اختیار ہونا چاہئے اور سینٹ میں تمام پارٹیوں کے پارلیمانی لیڈرون کو اس بارے میں متفقہ طور پر قانون سازی کرنی ہوگی۔

سینٹ کی جانب سے ایک سو پچاس سے زائد سفارشآت قومی اسمبلی کو بھیجی گئیں اور محض دو یا تین منظور کی گئیں اور جو منظور نہیں ہوئے اس پر کوئی تاویل پیش نہیں کی گئی ۔ کپاس کی صنعت تباہ ہوچکی ہے اور اب تک زراعت کے لئے بجلی کے نرخوں کا اعلان اور جائزہ نہیں لیا جاتا زرعی بیج کے حوالے سے کوئی پالیسی نہیں بنائی گئی۔ سینیٹر ستارہ ایاز نے کہا کہ پسماندہ طبقے اور منشیات کے عادی افراد کیلئے بجٹ میں کچھ نہیں رکھا گیا معذور افراد کیلئے بجٹ بھی نہیں ہے اور ان کی بہتری کیلئے پالیسی ہی نہیں بنائی گئی عمر رسیدہ افراد اور خواتین کے حوالے سے بھی حکومت غیر سنجیدہ نظر آرہی ہے۔

قومی اسمبلی میں خواتین کے حوالے سے نازیبا الفاظ استعمال کئے گئے ہیں۔ بجٹ میں فاٹا کا ذکر نہیں ہے۔ فاتا کی تعمیر و ترقی کے حوال یسے کچھ نہیں رکھا گیا بجٹ میں صرف ٹی ڈی پیز کیلئے بجٹ رکھا گیا ہے مگر وہاں ترقیاتی سکیمیں بالکل ناپید ہیں۔ پسماندہ اور چھوٹے صوبوں کو بالکل نظر انداز کردیا گیا ہے حکومت نے سولہ مہینوں میں چار دفعہ جھوٹ بولا اے پی سی میں ہونے والے فیصلوں پر عمل درآمد نہیں کیا جارہا ہے ۔

سینیٹر تاج آفریدی نے کہا کہ اگر بجٹ پر ایک سیشن بجٹ سے قبل ہوتا اور وزیر خزانہ بریفنگ دیتے تو اچھا ہوتا اس وقت ہم اس پر صرف بحث کررہے ہیں۔ موجودہ حکومت نے ہمیشہ ثابت قدمی کا مظاہرہ کیا ہے۔ عوام کو موٹر وے جیسی سہولیات اور دیگر سفری سہولیات بھی فراہم کی گئی ہیں۔ بجٹ میں ترقی اور انفراسٹرکچر کی بحالی کیلئے فنڈز بھی رکھے گئے فاٹا میں آپریشن ضرب عضب کی وجہ سے سکولوں سمیت ہسپتالوں اور سڑکوں کا نظام بری طرح متاثر ہوا ہے۔

اساتذہ‘ ڈاکٹرز اور دیگر طبی عملہ نہ ہونے کی وجہ سے مسائل میں مزید اضافہ ہورہا ہے مہمند ایجنسی میں ہائیڈرل پاور منصوبے کے لئے پانچ کروڑ روپے رکھے گئے ہیں جو کہ کم ہیں فاٹا میں لیویز کی خالی آسامیوں پر بھرتی ہونی چاہئے اور اس بجٹ میں اس کے لئے فنڈز مختص کئے جائیں۔

متعلقہ عنوان :