وفاقی بجٹ بے سرو پا ہے،اس میں معاشی پالیسی کہیں نظر نہیں آتی، وفاقی حکومت کے پاس مختصر ، وسط اور طویل مدتی پالیسی نہیں ، بجٹ میں معاشی پالیسی کی کوئی سمت نظر نہیں آتی،ٹیکس گذاروں کی تعداد بڑھانے ، ٹیکس چوری روکنے اور ایماندار ٹیکس دہندگان کو ٹیکس ریلیف فراہم کرنے کی پالیسی پیش نہیں کی گئی

سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کے چیئرمین سینیٹرسلیم مانڈوی والا کی نوید قمر اور نذیر ڈھوکی کے ہمراہ پریس کانفرنس

منگل 7 جون 2016 22:06

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔07 جون ۔2016ء ) پیپلزپارٹی کے رہنما اور سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کے چیئرمین سینیٹر سلیم مانڈوی والا نے وفاقی بجٹ پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ مسلم لیگ نون کی جانب سے پیش کیا گیا بجٹ بے سرو پا پے جس میں معاشی پالیسی کہیں نظر نہیں آتی۔ وفاقی حکومت کے پاس شارٹ ٹرم ، مڈٹرم اور لانگ ٹرم معاشی پالیسی نہیں ہے۔

بجٹ میں معاشی پالیسی کی کوئی سمت نظر نہیں آتی۔ ٹیکس گذاروں کی تعداد بڑھانے ، ٹیکس چوری روکنے اور ایماندار ٹیکس دہندگان کو ٹیکس ریلیف فراہم کرنے کی پالیسی پیش نہیں کی گئی۔ منگل کو یہاں پیپلز پارٹی کے رکن قومی اسمبلی سید نوید قمر اور میڈیا آفس انچارج نذیر ڈھوکی کے ساتھ ایک پریس کانفرنس کرتے ہوئے سینیٹر سلیم مانڈوی والا نے کہا ہے کہ موجودہ حکومت کے دور میں زراعت اور پیداواری شعبہ تباہ حالی کا شکار ہے حکومت کے پاس اس کی بحالی کا کوئی ٹھوس منصوبہ نہیں ہے۔

(جاری ہے)

مسلم لیگ نون نے چار سال میںآ ئی ایم ایف کی ڈکٹیشن پر بجٹ پیش کیے ہیں، لگتا ہے آئی ایم ایف پاکستان کی معاشی پالیسیاں بنارہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت اعداد و شمار کا ہیر پھیر کرنے میں ماہر ہے، آزاد اور غیر جانبدار ادارے پاکستان کی شرح نمو پر شکوک و شبہات کا اظہار کرررہے ہیں۔ سوشل پالیسی اینڈ ڈویلپمنٹ سینٹر کی جانب سے جاری کی گئی حالیہ رپورٹ میں پاکستان کی معاشی شرح نمو 3.1 فیصد بتائی جارہی ہے جب کہ حکومت کا دعویٰ ہے کہ معاشی شرح نمو 4.71 فیصد ہے۔

حکومت جی ڈی پی کے اعدادو شمار سے متعلق غلط بیانی کررہی ہے۔ سینیٹر سلیم مانڈوی والا نے کہا ہے کہ شماریات ڈویڑن اپنی خود مختاری کھو چکا ہے۔ وزارت خزانہ اپنی مرضی کے اعدادو شمار حاصل کرنے کے لیے شماریات ڈویڑن پر دباو ڈال رہی ہے۔ وفاقی حکومت جی ڈی پی ، مہنگائی، براہ راست سرمایہ کاری، بے روزگاری اور لوڈ شیڈنگ سے متعلق مسلسل جھوٹ بول رہی ہے۔

سینیٹر سلیم مانڈوی والا نے فیڈرل بورڈ آف ریونیو کی کارکردگی کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ ٹیکس ٹو جی ڈی پی کے اعدادو شمار بھی جھوٹ پر مبنی ہیں۔ ٹیکس ٹو جی ڈی پی ریشو 12 فیصد نہیں نلکہ 9 فیصد ہے۔ ملکی ٹیکسوں میں بلواسطہ ٹیکسوں کا حصہ 85 فیصد ہے جب کہ براہ راست ٹیکسوں کا حصہ صرف 15 فیصد ہے۔ ایف بی آر ود ہولڈنگ ٹیکس کو براہ راست ٹیکسوں میں شامل کرکے اپنی کارکردگی ظاہر نہیں کرسکتا۔

انہوں نے کہا کہ قرضوں کی 78 فیصد رقم غیر ترقیاتی اخراجات پر خرچ کی جارہی ہے، یہ رقم حکومتی اخراجات اور ملازمین کو تنخواہوں کی مد میں خرچ کی جارہی ہے۔ سینیٹر سلیم مانڈوی والا نے ملکی مجوعی قرضوں پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ حکومت قرضوں سے متعلق پارلیمنٹ کے قوانین کی خلاف ورزی کررہی ہے۔ ملکی قرضے جی ڈی پی کے 60 فیصد سے تجاوز کرچکے ہیں مگر حکومت پارلیمنٹ سے اس کی منظوری نہیں لے رہی۔

سینیٹر سلیم مانڈوی والا نے کہا کہ گردشی قرضوں کی ادائیگی ملکی تاریخ کا انوکھا اسکینڈل ہے جس کی تحقیقات جاری ہیں مگر حکومت اپنے تین سالہ دور میں سرکلر ڈیبٹ کے مسئلے کو حل کرنے کا کوئی واضح منصوبہ پیش نہیں کرسکی، سرکلر ڈیبٹ کا حجم 600 ارب روپے تک پہنچ چکا ہے مگر موجودہ بجٹ میں یہ اعدادو شمار کہیں دکھائی نہیں دیتے۔ سینیٹر سلیم مانڈوی والا نے کہا کہ حکومت نے اپنے دور میں غربت ختم کرنے کے لیے فنڈز میں کمی کی ہے اور سڑکوں اور پلوں کی تعمیر پر زیادہ فنڈز خرچ کیے گئے ہیں۔

موجودہ حکومت کے دور میں ماحول، وار سپلائی اور سیوریج پر فنڈز کے اخراجات میں 50 فیصد کمی ہوئی ہے، منصوبہ بندی کا بجٹ 50 فیصد، سیلاب قدرتی آفات سے بچاو کے بجٹ میں 57 فیصد، اور دیہی ترقی کے بجٹ میں 300 کی کمی ہوئی ہے جب کہ زراعت کے شعبہ کا بجٹ بھی 50 فیصد کم کیا گیا ہے۔ سینیٹر سلیم مانڈوی والا نے بجٹ سے متعلق تجاویز دیتے ہوئے کہا کہ غیر منقولہ جائیداد پر لگایا گیا ٹیکس غیر آئینی ہے پیپلزپارٹی اس کی شدید مذمت کرتی ہے۔

وفاقی حکومت صوبائی معاملات میں دخل اندازی کررہی ہے، یہ ٹیکس صوبائی معاملہ ہے، وفاق اس پر ٹیکس نہیں لگا سکتا۔ انہوں نے کہا کہ ملک بھر میں غریب افراد کو گھر کی سہولت فراہم کرنے کے لیے وفاقی حکومت ہاوسنگ اسکیم شروع کرے۔ جنرل سیلز ٹیکس کی شرح میں کمی کی جائے جنرل سیلز ٹیکس کی شرح میں سالانہ ڈیڑھ فیصد کمی سے عوام کو بڑا ریلیف مل سکتا ہے۔

متعلقہ عنوان :