سینیٹ میں اپوزیشن نے سال 2016-17 کے بجٹ کو پرانے پاکستان اور ایک صوبے کا بجٹ قرار دیدیا

18 ویں ترمیم کے بعد پاکستان ایک نئے سماجی معاہدے کے تحت بننے والا وفاق ہے،نیا این ایف سی ایوارڈنہیں دیا جا رہا ہے،سرکلر ڈیٹ 650 ارب ہو چکا ہے ، حکومت نے تین سال میں پانچ ہزار ارب کا قرض لیا ،سٹیل ملز کو جان بوجھ کر تباہ کیا جا رہا ہے،سٹیٹ لائف کو بھی کارپوریشن سے کمپنی بنانے کی تیاری ہو چکی ، وسائل کی تقسیم آبادی کی بنیاد پر کی گئی ہے بلوچستان کو صرف دو فی صد ملا، کسان پیکج کا فائدہ بھی امرا نے ہی اٹھایا ہے ، اسلامی بنکاری بارے موجودہ بجٹ میں کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا،یہ پوری دنیا میں ایک کامیاب تجربہ ہے ، 50لاکھ لوگ ٹیکس دینے کے قابل ہیں مگر صرف 8 لاکھ لوگ ٹیکس دیتے ہیں سینیٹ میں اپوزیشن جماعتوں کے سینیٹرز سعید غنی ، شاہی سید، عائشہ رضا اور دیگر کا وفاقی بجٹ پر بحث کے دوران اظہار خیال ق

منگل 7 جون 2016 18:33

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔07 جون ۔2016ء) اپوزیشن جماعتوں کے سینیٹرز نے سال 2016-17 کے بجٹ کو پرانے پاکستان اور ایک صوبے کا بجٹ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ 18 ویں ترمیم کے بعد پاکستان ایک نئے سماجی معائدے کے تحت بننے والا وفاق ہے،نیا این ایف سی ایوارڈنہیں دیا جا رہا ہے،سرکلر ڈیٹ 650 ارب ہو چکا ہے ، حکومت نے تین سال میں پانچ ہزار ارب کا قرض لیا ہے،سٹیل ملز کو جان بوجھ کر تباہ کیا جا رہا ہے،سٹیٹ لائف کو بھی کارپوریشن سے کمپنی بنانے کی تیاری ہو چکی ہے، وسائل کی تقسیم آبادی کی بنیاد پر کی گئی ہے بلوچستان کو صرف دو فی صد ملا،65 فی صد زمین 5 فی صد لوگوں کی ملکیت ہے کسان پیکج کا فائدہ بھی امرا نے ہی اٹھایا ہے،حکومت نے اسلامی بنکاری کا اعلان کیا تھا مگر موجودہ بجٹ میں اس جانب کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا،یہ پوری دنیا میں ایک کامیاب تجربہ ہے، انہوں نے کہا کہ 50لاکھ لوگ ٹیکس دینے کے قابل ہیں مگر صرف 8 لالھ لوگ ٹیکس دیتے ہیں،منگل کو ایوان بالا میں وفاقی بجٹ پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے پیپلز پارٹی کے پارلیمانی لیڈرسینیٹر سعید غنی نے کہا کہ حکومت کا دعوی ہے کہ معیثت کی شرح نمو 4.7صد ہے جو کہ درست نہیں ہے ،سرکلر ڈیٹ 650 ارب ہو چکا ہے ،ہم نے پانچ سال میں 8 ہزار افب کا قرض لیا انھوں نے تین سال میں پانچ ہزار ارب کا قرض لیا ہے،یہ ہمارے دور پر تنقید کرتے تھے مگر ں ھوں نے ہمارے بھی ریکارڈ توڑے دیے،قرض ٹو جی ڈی پی 66 فی صد ہو چکا ہے جو مقررہ حد سے زیادہ ہے،جنریٹر کی امپورٹ میں 20 فی صد اضافہ ہے ایکسپورٹ میں دس فی صد کمی ہوئی ہے،اس وقت تک جن اداروں کی نجکاری کی ہے وہ سب منافع بخش ادارے تھے،سٹیل ملز کو جان بوجھ کر تباہ کیا جا رہا ہے،سٹیٹ لائف کو بھی کارپوریشن سے کمپنی بنانے کی تیاری ہو چکی ہے،قومی اسمبلی میں تین چھوٹے صوبوں کے ممبران اقلیت میں ہیں،سینٹ کو بااختیار بنانا ہو گا سینٹ کو فنانس بل منظور کرنے کا اختیار کرنا چاہیے،سینٹ کی اپنی پبلک اکاونٹس کمیٹی ہونی چاہیے،سندھ نے 26 منصوبوں دیے جن میں سے ایک کو بھی شامل نہیں کیا گیا،سینیٹر شاہی سید نے بجٹ بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ دنیا کے تمام ممالک کی خارجہ پالیسی اپنے قومی مفاد میں بنائی جاتی ہے،پاکستان واحد ملک ہے جس کی خارجہ پالیسی دوسروں کے مفاد میں بنائی جاتی ہے،یہاں صرف ایک دوسرے کو زلیل کرنے کے لیے تقریریں ہوتی ہیں،پانامہ پیپرز سے کچھ نہیں نکلے گا،صرف سیاست دانوں کو بدنام کیا جا رہا ہے ،ایک وزیر اعظم کو پھانسی اور دوسرے کو سی ون تھرٹی سے باندھ کر ملک بدر کیا گیا،ہم سب کو مل کر فیصلہ کرنا ہو گا کہ ہمیں کیا کرنا ہے،ڈاکٹر جہانزیب جمالدینی نے بجٹ بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ وسائل کی تقسیم آبادی کی بنیاد پر کی گئی ہے بلوچستان کو صرف دو فی صد ملا،ہم صوبائی خود مختاری چاہتے تھے مگر ہمیں مذید پیچھے دھکیل دیا گیا،بلوچستان کا سب سے بڑا مسئلہ پانی کا ہے مگر اس کے لییے کوئی منصوبہ نہیں،جب تک پانی کا مسئلہ حل نہیں ہو گا اس وقت تک ترقی کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا ،جماعت اسلامی کے امیر سینیٹر سراج الحق نے بجٹ پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ یہ ترقیاتی بجٹ ہے اور نہ ہی ویلفئر بجٹ ہے بلکہ یہ انتظامی بجٹ ہے،65 فیصد زمین 5 فی صد لوگوں کی ملکیت ہے کسان پیکج کا فائدہ بھی امرا نے ہی اٹھایا ہے،حکومت نے اسلامی بنکاری کا اعلان کیا تھا مگر موجودہ بجٹ میں اس جانب کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا،یہ پوری دنیا میں ایک کامیاب تجربہ ہے، انہوں نے کہا کہ 50لاکھ لوگ ٹیکس دینے کے قابل ہیں مگر صرف 8 لالھ لوگ ٹیکس دیتے ہیں،آئی ڈی پیز کے لیے رکھے گئے 100 ارب ناکافی نہیں،بجٹ سے پہلے مشاورت ہونی چاہیے تھی مگر ایسا نہیں ہوا،پسماندہ ممالک میں عوام کو جنگ کے ماحول میں رکھنا دانشمندی نہیں،ہمیں تعلیم صحت اور انسانی وسائل کی ترقی پر توجہ دینے کی ضرورت ہے ،سینیٹر شیری رحمان نے بجٹ بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ بجٹ ایک پرانے پاکستان اور ایک صوبے کے لیے بنایا گیا ہے،18 وین ترمیم کے بعد پاکستان ایک نئے سماجی معائدے کے تحت بننے والا وفاق ہے،نیا این ایف سی ایوارڈنہیں دیا جا رہا ہے،موجودہ بجٹ میں صوبوں سے حقوق واپس لینے کی کوشش ہے،یہ وفاقی نہیں بلکہ ایک صوبائی بجٹ ہے،صوبوں کو اختیار ہو کہ وہ مطمئن نہ ہو بجٹ منظور نہ ہو،ہمیں یہ بات سمجھنا چاہیے کہ وفاق اور اکائیوں کا رشتہ بدل چکا ہے،آپ نے کہا تھا لوڈ شیڈنگ ختم کریں گے مگر ان کے دور میں بجلی کی پیدا وار کم ہوئی ہے،حکومت کی اپنی رپورٹ کے مطابق غربت کی شرح میں اضافہ ہوا ہے،ان کا دعوی تھا کہ کشکول توڑیں گے مگر اب کشکول تو بڑا ہو رہا ہے،بجٹ پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے مسلم لیگ (ن) کی سینیٹر عائشہ رضا نے کہا کہ بجٹ میں حکومت نے قابل تعریف اقدامات کئے ہیں۔

(جاری ہے)

بجٹ میں توانائی کے منصوبوں‘ ہائی ویز کی تعمیر اور سوشل سیکٹر پر خاصی توجہ دی گئی ہے۔ ملک میں روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے۔ بیت المال کے لئے رقم دوگنا کردی گئی ہے۔ سینیٹر فرحت اﷲ بابر نے کہا کہ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی میں سینٹ کی کوئی نمائندگی نہیں ہے۔ وقت آگیا ہے کہ سینٹ اپنے رولز میں ترمیم کرکے اپنی پی اے سی بنائے۔ اس بات سے غرض نہیں ہونی چاہیے کہ قومی اسمبلی کی پی اے سی کیا کرتی ہے وہ اپنی رپورٹ دے اور ہم اپنی۔

بجٹ نے وفاق کو نقصان پہنچایا ہے۔ سی پیک کے مغربی روٹ کو ترجیح نہیں دی گئی۔ بجٹ میں فیڈریشن کا سب سے بڑا نقصان سی پیک کے حوالے سے ہوا ہے۔ اسلامی نظریاتی کونسل کے لئے بجٹ میں سو ملین کے فنڈز رکھے گئے ہیں جس نے عجیب و غریب سفارشات کی ہیں۔ اسلامی نظریاتی کونسل کی مزید کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اگر کوئی کمیٹی چاہے تو کسی مسئلے پر علماء کو بلا کر رہنمائی لے سکتی ہے۔ اس رقم کو نیشنل کمیشن برائے خواتین کی قومی حیثیت کو دیا جائے کیونکہ وہ نشانہ بنی ہیں۔ سینیٹر شبلی فراز نے کہا کہ بجٹ میں حکومت کا وژن نظر نہیں آتا‘ انصاف کی فراہمی کے لئے کوئی اقدامات نہیں کئے گئے۔