بجٹ میں حکومت نے غلط اعدادوشمار جاری کئے ہیں ٗ بجٹ میں کسان یا زرعی پیکیج سے خوشی ہوئی تھی ٗ اپوزیشن کی بجٹ پر تنقید

بجٹ میں کئی چیزیں حوصلہ افزا ہیں ٗمہنگائی میں کمی غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر میں بہتری خوش آئند ہے ٗجہانزیب جمالدینی سٹیٹ بنک اور وزارت خزانہ کے اعداد و شمار میں 200 ارب روپے کا فرق ہے ٗ سینیٹر سعید غنی

منگل 7 جون 2016 17:56

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔07 جون ۔2016ء) سینٹ میں اپوزیشن نے بجٹ کو الفاظ کا گورکھ دھندہ قرار دیتے ہوئے الزام عائد کیا ہے کہ بجٹ میں حکومت نے غلط اعدادوشمار جاری کئے ہیں ٗ بجٹ میں کسان یا زرعی پیکیج سے خوشی ہوئی تھی ٗ ملک کی 65 فیصد اراضی پر پانچ فیصد جاگیردار قابض ہیں ٗصحت اور تعلیمی شعبے میں ہم بہت پیچھے ہیں ٗ 15 سے 19 سال کی عمر کے دو کروڑ نوجوانوں کے لئے روزگار کے مواقع پیدا کرنا ہوں گے۔

سینٹ میں بجٹ پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے مسلم لیگ (ن) کی سینیٹر عائشہ رضا نے کہا کہ بجٹ میں حکومت نے قابل تعریف اقدامات کئے ہیں ٗبجٹ میں توانائی کے منصوبوں‘ ہائی ویز کی تعمیر اور سوشل سیکٹر پر خاصی توجہ دی گئی ہے۔ ملک میں روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے۔

(جاری ہے)

بیت المال کے لئے رقم دوگنا کردی گئی ہے۔ سینیٹر فرحت اﷲ بابر نے کہا کہ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی میں سینٹ کی کوئی نمائندگی نہیں ہے ٗ وقت آگیا ہے کہ سینٹ اپنے رولز میں ترمیم کرکے اپنی پی اے سی بنائے۔

اس بات سے غرض نہیں ہونی چاہیے کہ قومی اسمبلی کی پی اے سی کیا کرتی ہے وہ اپنی رپورٹ دے اور ہم اپنی۔ انہوں نے کہاکہ سی پیک کے مغربی روٹ کو ترجیح نہیں دی گئی۔ سلامی نظریاتی کونسل کے لئے بجٹ میں سو ملین کے فنڈز رکھے گئے ہیں جس نے عجیب و غریب سفارشات کی ہیں کونسل کی مزید کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اگر کوئی کمیٹی چاہے تو کسی مسئلے پر علماء کو بلا کر رہنمائی لے سکتی ہے۔

اس رقم کو نیشنل کمیشن برائے تشخص خواتین کو دیا جائے کیونکہ وہ نشانہ بنی ہیں۔ سینیٹر شبلی فراز نے کہا کہ بجٹ میں حکومت کا وژن نظر نہیں آتا‘ انصاف کی فراہمی کے لئے کوئی اقدامات نہیں کئے گئے۔ بجٹ پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے سراج الحق نے کہا کہ بین الاقوامی مالیاتی اداروں کی ایڈوائس پر بجٹ تیار کیا گیا ہے۔ 42 فیصد قرضوں پر سود کی مد میں دیا جاتا ہے، قرضوں کی ادائیگی کے لئے مزید قرضے لئے جار ہے ہیں ٗ بجٹ میں کسان یا زرعی پیکیج سے خوشی ہوئی تھی لیکن ملک کی 65 فیصد اراضی پر پانچ فیصد جاگیردار قابض ہیں۔

انہوں نے کہا کہ صحت اور تعلیمی شعبے میں ہم بہت پیچھے ہیں۔ ایک ہزار 38 افراد کے لئے ا یک ڈاکٹر ہے جبکہ ہر پانچواں شخص بیمار ہے۔ دیہات سے شہروں کو منتقلی کا رجحان بڑھ رہا ہے۔ دیہاتی ا?بادی کو دیہات میں ہی خوشحال رکھنے کی کوشش کی جائے تاکہ شہروں کی طرف منتقلی نہ ہو۔ دیہات میں سہولیات کو بہتر کیا جائے۔سراج الحق نے کہاکہ 15 سے 19 سال کی عمر کے دو کروڑ نوجوانوں کے لئے روزگار کے مواقع پیدا کرنا ہوں گے۔

اس وقت 36 لاکھ سے زائد نوجوان بیروزگار ہیں ٗ صرف آٹھ لاکھ لوگ ٹیکس دیتے ہیں۔ باقی جو ٹیکس دینے کے قابل ہیں ان سے ٹیکس کس طرح وصول کرنا ہے اس بارے میں بجٹ خاموش ہے۔انہوں نے کہا کہ آئی ڈی پیز کے لئے سو ارب کم ہیں اس میں اضافہ کیا جائے ٗجنگلات‘ چھوٹے ڈیموں کے لئے بجٹ میں رقم نہیں رکھی گئی ٗ 35 فیصد لوگ پینے کے پانی سے محروم ہیں۔ بجٹ کی تیاری میں مشاورت نہیں کی گئی۔

مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر ظفر اﷲ ڈھانڈلہ نے کہا کہ حکومت اور اپوزیشن ملکی مفاد کے لئے مل کر لائحہ عمل بنائیں تاکہ ملک ترقی و خوشحالی کی جانب گامزن ہو۔ انہوں نے وزیراعظم اور ان کی ٹیم بالخصوص وزیر خزانہ اسحاق ڈار اور وزیر فوڈ سیکیورٹی سکندر بوسن کو خراج تحسین پیش کیا جنہوں نے کسان دوست بجٹ پیش کیا۔ انہوں نے کہاکہ زراعت کا شعبہ بحران سے دوچار تھا۔

وزیراعظم نے 341 ارب کے کسان پیکج سے بھی کسانوں کے دل جیتے تھے۔ کاشتکاروں کو اب سستی کھاد دستیاب ہوگی اور ان کے دلوں سے وزیراعظم نواز شریف کے لئے دعائیں نکلیں گی۔ موجودہ حکومت نے قرضوں کی رقم بڑھا کر شرح سود میں کمی کی ہے۔ زرعی ٹیوب ویل کے لئے بجلی کے نرخ کم کرنے سے بھی کسانوں کو خاطر خواہ فائدہ ہوگا۔ سینیٹر شاہی سید نے کہا کہ ملک میں دہشتگردی اوربدعنوانی جیسے مسائل موجود ہیں بجٹ خسارے کو کہیں نہ کہیں سے تو پورا کرنا ہے۔

انہوں نے کہاکہ ہماری خارجہ پالیسی دوسرے ملکوں کے مفادات کے تابع ہے اور اس کی بڑی مثال افغان جنگ ہے ٗ ہمیں ایک دوسرے کو چور کہنے کی بجائے ایسی تجاویز دینی چاہئیں کہ جن سے ہم کسی نکتے پر نیشنل ایکشن پلان کی طرح متحد ہو جائیں۔ ہمیں ایک دوسرے کی تذلیل نہیں کرنی چاہیے ٗپانامہ لیکس سے کچھ نہیں نکلے گا۔ انہوں نے کہاکہ ٹی او آرز میں ایسا طریقہ کار اور حکمت عملی دی جائے کہ پتہ چلے کہ لوگوں نے آف شور اکاؤنٹس کیوں کھولے اور پیسہ باہر کیوں لے گئے۔

پیسہ باہر جانے کی وجہ اعتماد کا فقدان ہے ۔ ہمارے ملک میں جمہوری حکومتوں کو اٹھا کر پھینک دیا جاتا ہے۔ ملوں کو بند کردیا جاتا ہے۔ بھٹو کو پھانسی دی گئی‘ بھاری مینڈیٹ والے وزیراعظم کو اٹک جیل پہنچایا پھر سی ون تھرٹی کی سیٹ سے باندھ کر دربدر کیا۔ کیا اس طرح کے اقدامات سے بداعتمادی نہیں ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ چھوٹے صوبوں کو گلے لگایا جائے تاکہ پاکستان مضبوط ہو۔

سینیٹر جہانزیب جمالدینی نے کہا کہ بجٹ میں کئی چیزیں حوصلہ افزا ہیں۔ مہنگائی میں کمی غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر میں بہتری خوش آئند ہے۔انہوں نے کہاکہ تمام چیزیں بیورو کریسی کے کنٹرول میں ہیں‘ ایک ایس او جو لکھ دیتا ہے اس کو تبدیل کرنے میں برسوں لگ جاتے ہیں۔ ہم تمام صوبوں کی ترقی چاہتے ہیں۔ بجٹ میں چولستان کی ترقی کے لئے کچھ نہیں رکھا گیا۔

تھر میں لوگ بھوکے پیاسے مر رہے ہیں۔ بلوچستان میں سب سے بڑا مسئلہ آبی ذخائر ہیں۔ زیر زمین پانی کم ہو رہا ہے۔ صوبے میں ایک بھی آبی ذخیرے کی تعمیر کا منصوبہ نہیں ہے۔ ہنگول ڈیم کے لئے کچھ نہیں رکھا گیا۔ ناڑی ڈیم سے 80 میگاواٹ بجلی پیدا کی جاسکتی ہے۔ نوشکی اور خضدار میں کئی ڈیمز بن سکتے ہیں۔ ۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں ریلوے ٹریکس کو نامعلوم کون کھا گیا۔

سی پیک کے تحت مستقبل کی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے ہنرمند افرادی قوت کی تیاری کے لئے منصوبے بلوچستان میں شروع کئے جانے چاہئیں۔ سینٹ کے پاس قومی اسمبلی جتنے اختیارات ہونے چاہئیں بلکہ یہاں صوبوں کے نمائندوں کو ویٹو کا اختیار ہونا چاہیے۔ بلوچستان میں 120 ارب روپے کی محض فشریز سے کمائی ہو سکتی ہے لیکن سہولیات موجود نہیں ہیں۔ انہوں نے کہاکہ کم از کم تنخواہ 20 ہزار ہونی چاہیے۔

پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے رہنما سینیٹر عثمان کاکڑ نے کہا کہ پارلیمان کی بالادستی کو تسلیم کرنا‘ قوموں کی برابری‘ دولت کی منصفانہ تقسیم ضروری ہے، قربانیاں کسی نے دیں‘ مزے کوئی اور کر رہا ہے، 18ویں ترمیم پر سو فیصد عملدرآمد سے ملک خوشحال ہو سکتا ہے مگر لاہور اور اسلام آباد کے بعض سیاستدان اور بیورو کریٹس اس کے خلاف ہیں‘ ہمیں متعصب کہا جاتا ہے‘ دہشتگردی کا بنیادی سبب 38 سال قبل کی افغان پالیسی ہے۔

سینیٹر عثمان کاکڑ نے کہا کہ پاکستان میں قوموں کے درمیان نیا معاہدہ ہونا چاہیے، بنگالیوں کو بھی کمزور سمجھا گیا‘ ہمیں بھی کمزور سمجھا جا رہا ہے‘ پنجاب کے غریب عوام اسٹیبلشمنٹ کے سائے تلے زندگی گزار رہے ہیں، تمام صوبوں کے عوام کو ایک نظر سے دیکھا جائے۔ خارجہ و داخلہ پالیسی پارلیمنٹ نہیں کوئی اورطے کررہاہے اس ملک میں ملالہ اور اعتزاز کو کوئی خراج تحسین پیش نہیں کرتا۔

ملک کو درست کرنے کے لئے پارلیمان کی بالادستی کو تسلیم کرنا‘ قوموں کی برابری‘ دولت کی منصفانہ تقسیم ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم مزید قرضہ لے کر بجٹ بنا رہے ہیں، سی پیک کے مغربی روٹ کے لئے صرف ایک ارب رکھے گئے۔ 14 وزارتوں میں بلوچستان کو کچھ نہیں دیا گیا۔ سینیٹر سعید غنی نے کہا کہ سٹیٹ بنک اور وزارت خزانہ کے اعداد و شمار میں 200 ارب روپے کا فرق ہے۔

انہوں نے کہا کہ اگر ہم نے اپنے دور میں آٹھ ہزار ارب روپے قرضے لئے تھے تو انہوں نے تین سال میں پانچ ہزار ارب روپے کے قرضے لئے ہیں، 11 ہزار ارب روپے کی باروئنگ کی گئی ہے، ان کی خوش قسمتی ہے کہ پٹرولیم کی قیمتیں عالمی سطح پر کم ہوگئیں۔ جی ایس پی پلس کی حیثیت ملنے کے باوجود برآمدات کم ہوئیں۔ حکومت نے تسلیم کیا کہ 340 ارب کا کسان پیکج نہ دیتے تو زراعت تباہ ہو جاتی۔

ہم نے اپنے دور میں کوئی کسان پیکج نہیں دیا‘ صرف ان کی کاشت کی اچھی قیمت دی۔ ہم نے سیلابوں اور بارشوں کے باوجود کاشتکاروں کو نقصان نہیں پہنچنے دیا تھا۔ کاشتکاروں کے لئے بجٹ میں سہولتیں دی گئی ہیں مگر باقی طبقات کا کیا بنے گا۔ انہوں نے کہا کہ اگر لوڈشیڈنگ ختم ہوگئی ہے تو جنریٹرز کی درآمد میں اضافہ کیوں ہوا ہے۔ جتنی برآمدات 2011-12ء میں تھیں اتنی 2016ء میں ہیں۔

ہاؤسنگ کالونیاں بنانے کا وعدہ کیا گیا تھا اس کا کیا بنا، سٹیل ملز کا گیس کنکشن کاٹ کر اسے تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا گیا۔ 47 ارب 32 کروڑ روپے کا بونس سٹیٹ لائف میں دیا گیا، اب اس کی کمپنی بنانے جارہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سندھ حکومت نے 26 منصوبے بھیجے ایک بھی منظور نہیں کیا گیا۔ 800 ارب روپے کے پی ایس ڈی پی میں سندھ کے لئے 12 ارب روپے رکھے گئے۔

انہوں نے کہا کہ سینیٹ کے مالیاتی اختیارات پر بحث ہونی چاہیے، آئین میں تبدیلی کرنا پڑے گی، ترقیاتی سکیموں میں چھوٹے صوبوں کے مفادات کا تحفظ کرنا ہوگا، صوبوں نے ہمیں وفاق کے اس ایوان میں اسی مقصد کے لئے بھیجا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سینیٹ کو اپنی پی اے سی بنانی چاہیے خواہ اس کے جو بھی نتائج نکلیں، سندھ میں کے فور کے منصوبے کے لئے وفاق نے میچنگ گرانٹ دینی تھی جو نہیں رکھی گئی۔

اجلاس کے دور ان چیئرمین سینٹ میاں رضا ربانی نے کہا کہ پارلیمان کی منظوری کے بغیر ایک پائی کا ٹیکس بھی نہیں لگایا جاسکتا۔ سینیٹر شبلی فراز کی تقریر کے دوران چیئرمین سینٹ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ایک پائی کا ٹیکس بھی پارلیمان کی منظوری کے بغیر نہیں لگایا جاسکتا۔ بجٹ پر بحث کے دوران چیئرمین سینٹ نے سینیٹر فرحت اﷲ بابر کی تقریر کے بعد اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ اب تک بجٹ پر بحث کے دوران جو تجاویز آئی ہیں ان میں سینٹ کی اپنی پی اے سی کے قیام‘ پی ایس ڈی پی کی صوبوں سے منظوری اور فیڈرل لیجسلیٹو لسٹ پارٹ ٹو کی سی سی آئی سے منظوری کی تجاویز ابھر کر سامنے آئی ہیں۔بعد ازاں سینٹ کا اجلاس (آج) بدھ کی صبح گیارہ بجے تک ملتوی کردیا گیا۔

متعلقہ عنوان :