مدارس کے نصاب اور فنڈنگ کی نگرانی ہونی چاہیے ‘ آئی جی سندھ

منگل 7 جون 2016 13:26

کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔07 جون ۔2016ء) صوبہ سندھ کے انسپکٹر جنرل پولیس اے ڈی خواجہ نے کہا ہے کہ دینی مدراس کی رجسٹریشن کے حوالے سے پورے پاکستان میں کوئی یکساں قانون موجود نہیں‘ ان مدارس کے نصاب اور فنڈنگ کی نگرانی ہونی چاہیے جن دونوں پر ابھی کام ہونا باقی ہے۔ایک انٹرویومیں اے ڈی خواجہ نے کہاکہ قومی ایکشن پلان کے تحت مدارس کی رجسٹریشن ہو رہی ہے تاہم اس قانون کو مزید فعال اور موثر بنانے کی ضرورت ہے۔

پورے ملک میں یکساں قانون ہونا چاہیے تاکہ تمام مدارس ایک چھتری کے نیچے آئیں اور ان کی نگرانی میں بھی آسانی پیدا ہو۔انہوں نے کہاکہ جیکب آباد اور شکارپور خودکش بم دھماکوں میں جتنے بھی لوگ گرفتار ہوئے ‘ان کا تعلق بلوچستان سے تھا اسی طرح زیریں پنجاب میں جو شدت پسندی ہے وہ سندھ کی سرحدی علاقوں پر اثر انداز ہوتی ہے ‘ لازم ہے کہ سندھ کا ماحول بھی ان علاقوں پر اثر ہوتا ہوگا۔

(جاری ہے)

آئی جی سندھ نے تسلیم کیا کہ سندھ میں مذہبی شدت پسندی میں اضافہ ہورہا ہے۔سندھ کا جو روایتی صوفی کلچر تھا وہ آہستہ آہستہ مٹ رہا ہے، چھوٹے چھوٹے شہروں میں بڑے بڑے مدرسے بن رہے ہیں اور یہ مدرسے شدت پسندی کے لیے بہت بڑا کردار ادا کر رہے ہیں، خاص طور پر سندھ کے بالائی علاقوں میں۔آئی جی سندھ مدارس کے فروغ کو سرکاری تعلیمی نظام کی ناکامی قرار دیتے ہوئے کہاکہ غریب لوگوں کے بچے نجی اسکولوں میں تعلیم اور دو وقت کا کھانا برداشت نہیں کرسکتے اس وجہ سے انھیں مدرسے میں کشش نظر آتی ہے جہاں تعلیم ، دو وقت کا کھانا اور کپڑے بھی مل جاتے ہیں اس وجہ سے لوگ بچے وہاں بھیج دیتے ہیں تاہم تمام مدراس ایک جیسے نہیں کچھ اچھے بھی ہیں۔

سندھ میں گذشتہ دو برسوں کے دوران قومی ایکشن پلان کے تحت لاوٴڈ سپیکر کی خلاف ورزی پر 1308 ملزمان کو گرفتار کیا گیا، غیر قانونی طور پر مقیم 2896 افغان شہری گرفتار ہوئے، نفرت انگیز مواد کی اشاعت اور تقسیم پر 178 افراد کو حراست میں لیا گیا اسی طرح وال چاکنگ کے الزام میں 157 افراد گرفتار ہوئے۔آئی جی سندھ نے کہاکہ کالعدم تنظیمیں پہلے کھلے عام جلسے جلوس کرتی تھیں اور حالیہ دنوں بھی خیرپور اور حیدرآباد میں ایسی کوششیں کی گئی تھیں تاہم پولیس نے انہیں قطعی طور پر ایسے جلسے جلوسوں کی اجازت نہیں دی۔

انھوں نے بتایاکہ کچھ ایسی کالعدم تنظیمیں ہیں جنھوں نے اپنا نام تبدیل کرکے بلدیاتی انتخابات میں حصہ لیا تھااس حوالے سے پالیسی سطح پر فیصلہ لینے کی ضرورت ہے ‘ بجائے اس کے کہ ہم انھیں قبول کریں اور وہ نئے نام کے ساتھ آئیں ‘ہمیں ایسی پالیسی بنانا ہوگی کہ وہ افراد جو ایک بار کسی شدت پسند فکر یا نظریے کے ساتھ ہوجاتے ہیں تو ان کی ہر قسم کی سیاست پر پابندی ہونی چاہیے۔آئی جی سندھ نے اس تاثر کو مسترد کیا کہ رینجرز فرنٹ لائن اور پولیس سیکنڈ لائن پر چلی گئی ہے ‘پولیس فرنٹ لائن پر موجود ہے ماسوائے ایک عشرے میں یہ تاثر ابھرا تھا کہ پولیس ایک مخصوص سیاسی ٹولے کے خلاف کام نہیں کر پا رہی، اب وہ ماحول نہیں رہا پولیس بہتری کے ساتھ کام کر رہی ہے۔

متعلقہ عنوان :