Live Updates

کرپشن کے خاتمے کے لئے ایک آزاد خودمختار اور طاقتور جوڈیشل کمیشن جب تک نہیں بن پاتا تو دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی نہیں ہو گا، شاہ محمود قریشی

کرپشن پیپلزپارٹی کرے مسلم لیگ (ن)، جماعت اسلامی، تحریک انصاف کوئی بھی کرے کرپشن کرپشن ہے قانون معاشرہ اخلاقیات کسی میں اس کی کوئی گنجائش نہیں متفقہ ٹی او آرز کی تشکیل کے سلسلے میں ڈیڈلاک ہے کوئی مناسب پیش رفت نہیں ہو رہی حکومت اس سلسلے میں سنجیدہ نظر نہیں آتی، وکلاء سے خطاب

جمعرات 2 جون 2016 23:10

حیدرآباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔02 جون۔2016ء) تحریک انصاف کے مرکزی رہنما اور ٹی او آرز کمیٹی کے ممبر شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ متفقہ ٹی او آرز کی تشکیل کے سلسلے میں ڈیڈلاک ہے کوئی مناسب پیش رفت نہیں ہو رہی حکومت اس سلسلے میں سنجیدہ نظر نہیں آتی کہ کوئی ایسا آزاد خودمختار کمیشن قائم ہو سکے کہ پانامالیکس کی تحقیقات کے نتیجے میں دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ممکن ہو، اگر سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری سمجھتے ہیں کہ وزیراعظم نوازشریف کی لندن میں زیرعلاج ہونے کی وجہ سے سب کچھ غیرقانونی ہو رہا ہے تو انہیں سپریم کورٹ سے رجوع کرنا چاہئیے تاکہ عدالت عظمیٰ فیصلہ کر سکے، ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کے لئے امریکا کو ڈکٹیشن نہیں دی جا سکتی صرف درخواست کی جا سکتی ہے، ہماری کرپشن مٹاؤ ملک بچاؤ مہم جاری ہے اگر پانامالیکس پرکمیشن سے انصاف نہیں ملتا تو قانون کا راستہ اختیار کریں گے اور آخر میں دیگر جماعتوں سے مشاورت کرکے سڑکوں پر آنے کا آپشن بھی موجود ہے، بلاول کو فیصلہ کرنا پڑے گا کہ وہ آیا ان حواریوں میں گھرنا چاہتے ہیں جنہوں نے پارٹی کو نقصان پہنچایا ہے یا ان سے نجات حاصل کرنا چاہتے ہیں۔

(جاری ہے)

تحریک انصاف کے مرکزی رہنما ایم این اے مخدوم شاہ محمود قریشی نے جمعرات کو ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن میں وکلاء سے خطاب کیا جہاں ایم این اے عارف علوی، ایم این اے لعل مالہی، حلیم عادل شیخ، علی پلھ ایڈوکیٹ بھی موجود تھے، ہائیکورٹ بار کے صدر ایاز حسین تنیو، سیکریٹری حمیداﷲ ڈاہری اور وکلاء نے ان کا پرجوش استقبال کیا اور انہیں سندھی ٹوپی اور اجرک کے روایتی تحائف پیش کئے، بعد میں شاہ محمود قریشی نے میٹ دی پریس پروگرام سے بھی خطاب کیا۔

شاہ محمود قریشی نے کہا کہ پوری قوم متفق ہے کہ جب تک کرپشن کا تدارک نہیں ہو گا یہ ملک آگے نہیں بڑھ سکتا اور کرپشن کے خاتمے کے لئے ایک آزاد خودمختار اور طاقتور جوڈیشل کمیشن جب تک نہیں بن پاتا تو دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی نہیں ہو گا، کمیشن کی تشکیل کے لئے ٹی او آرز کمیٹی میں جو پیش رفت ہونی چاہئیے تھی وہ مجھے دکھائی نہیں دے رہی ڈیڈلاک کا سماء ہے اور افراتفری کا عالم ہے، پوری بحث چند لوگوں کو بچانے کے لئے ہو رہی ہے کہ کمیشن قائم ہو جائے تاکہ حجت تمام ہو جائے اور کوئی بدنام بھی نہ ہو، شاہ محمود قریشی نے کہا کہ پانامالیکس پیپرز میں 650 پاکستانیوں کا نام ہے جنہوں نے آف شور کمپنیاں بنا کر ملک سے باہر غیرقانونی طور پر رقم منتقل کی کیونکہ وہ یہاں اپنی دولت محفوظ نہیں سمجھتے تھے، انہوں نے کہا کہ حکومت ٹیکس دہندگان کا پیسہ خرچ کرکے بیرون ملک ترغیب دیتی ہے کہ لوگ اپنا سرمایہ پاکستان لائیں جب خود پاکستانی اپنا سرمایہ پاکستان میں محفوظ نہ سمجھتے ہوں تو اس کا کیا فائدہ ہو سکتا ہے، کیا خاک کوئی باہر سے آ کر سرمایہ کاری کرے گا، انہوں نے کہا کہ پانامالیکس میں وزیراعظم اور ان کے خاندان کا بھی تذکرہ ہے پارلیمنٹ نے متفقہ قرارداد پائی کی کہ اس سلسلے میں تحقیقات کرائی جائے خود وزیر خزانہ کے مطابق سوئس بینکوں میں 200 ارب ڈالر پاکستانیوں کے جمع ہیں یہ پیسہ کس کا ہے کس طرح گیا آیا لوٹی ہوئی دولت ہے ہمارے یہاں ایسا کوئی نظام نہیں کہ جس کے ذریعے کوئی یہ جرات کرے کہ اس پیسے کو واپس لا کر قومی خزانے میں جمع کرایا جا سکے، انہوں نے کہا کہ چیف جسٹس پاکستان نے حکومت کے ٹی او آرز یہ کہہ کر واپس کر دیئے کہ یہ مناسب نہیں ہیں اور 1956ء کے ایکٹ کے تحت اگر کوئی جوڈیشل کمیشن ان کی سربراہی میں بن بھی جائے تو کوئی نتیجہ خیز تحقیقات نہیں ہو گی اور اس سے عدالت عظمیٰ کا ادارہ بدنام ہو گا، انہوں نے کہا کہ پوری اپوزیشن کا مطالبہ رہا ہے کہ ایف آئی اے اور دیگر ادارے بھی تحقیقات کریں مگر وائٹ کالر کرائم کے حوالے سے کوئی ادارہ وزیراعظم کے خلاف تحقیقات کرنے کی جرات کرے، ہمارا مطالبہ ہے کہ اگر چیف جسٹس صاحب چاہتے ہیں کہ موثر کمیشن بنے تو اس کے ساتھ فرانزک آڈٹ کا وسیع تجربہ رکھنے والی بین الاقوامی فرم کو بھی ساتھ نتھی کیا جائے تاکہ لوگوں کا اعتماد بحال ہو سکے، انہوں نے کہا کہ حکومت نے نہ چاہتے ہوئے بھی جوائنٹ ٹی او آر پارلیمانی کمیٹی کو تسلیم تو کر لیا 9 مختلف خیال جماعتوں کی طرف سے اتفاق رائے سے جو ٹی او آرز تشکیل دیئے گئے تھے ان پر کمیٹی میں مزاکرات تو جاری ہیں ہم نے 15 سوالات مرتب کئے ہیں جن میں سے ہر سوال کے پیچھے قانون موجود ہے اور اس کے پیچھے قانون شکنی کی داستان بھی موجود ہے، افسوس ہے کہ مزاکرات کے چار سیشن ہو چکے ہیں لیکن وہ نشستاً گفتاً برخاستاً کے سواء کچھ حاصل نہ ہو سکاآج مزاکرات میں ڈیڈلاک ہے کوئی پیش رفت نہیں ہو رہی کیونکہ ہم میں سے ایک طبقہ ایسا ہے جس میں حوصلہ نہیں ہے کہ وہ ایک شفاف اور کھلے احتساب کا سامنا کر سکے، سیاسی حلقوں میں ایک بہت بڑا عنصر پیدا ہو چکا ہے کہ جنہوں نے کک بیگس اور کمیشن کے ذریعے لوٹ مار کرکے اپنی تجوریاں بھری ہیں، انہوں نے کہا کہ ملک میں ایک ریفرنڈم کرا لیں کہ پاکستانی کے شہری کیا سوچ رہے ہیں اگر یہ رائے آئے کہ ملک صحیح چل رہا ہے تو ہم خاموش ہو جائیں گے اگر نہیں میں جواب آئے تو پھر وکلاء جیسے طبقات کو خاموش نہیں رہنا چاہئیے اور ہمارا ساتھ دینا چاہئیے، انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ بار نے بھی حکومت کے ٹی او آرز پر عدم اطمینان کا اظہار کیا ہے اور سپریم کورٹ بار، پنجاب بار کونسل اور لاہور کے وکلاء کنونشن سب نے اپنے اپنے انداز میں سیاستدانوں سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ متفقہ ٹی او آرز تشکیل دیں اور خبردار کیا ہے کہ اگر وہ 15 دن میں ایسا نہیں کریں گے تو شائد کالے کوٹ والوں کو میدان میں آنا پڑے، انہوں نے کہا کہ انسان کو ناامید نہیں ہونا چاہئیے لیکن میرا ضمیر ملامت کرے گا اگر میں صحیح صورتحال آپ کے سامنے پیش نہ کروں مجھے ٹی او آرز کمیٹی میں مناسب پیش رفت دکھائی نہیں دے رہی مجھے حکومت میں سنجیدگی اور جذبہ نظر نہیں آ رہا جس کے تحت وہ شفاف اور موثر احتساب کرے ایسی کیفیت ہے کہ تو مجھے نہ چھیڑ میں تجھے نہ چھیڑوں، تو مجھے چین سے بیٹھنے دے میں تجھے چین سے بیٹھنے دوں، پردا ڈالا جا رہا ہے کہ جو تو نے کھایا وہ تیرا نصیب جو میں نے کھایا وہ میرا نصیب۔

سابق چیف جسٹس پاکستان افتخار محمد چوہدری کے حوالے سے ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ وہ سابق چیف جسٹس رہے ہیں مجھ سے زیادہ آئین اور قانون کو بہتر سمجھتے ہیں اور بینچ اور بار کے مزاج پر ان کی گہری نظر ہے اگر وہ سمجھتے ہیں کہ بیماری کے سبب وزیراعظم کی عدم موجودگی کی وجہ سے سب کچھ غیرقانونی اور غیرآئینی ہو رہا ہے تو انہیں سپریم کورٹ سے رجوع کرنا چاہئیے تاکہ وہاں فیصلہ ہو سکے، ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کے حوالے سے سوال پر انہوں نے کہا کہ جب وہ وزیر خارجہ تھے تو ہیلری کلنٹن سے ان کی براہ راست بھی بات ہوئی تھی مگر امریکا کے اپنے قاعدے قوانین ہیں ہم صرف درخواست کر سکتے ہیں ڈکٹیٹ نہیں کر سکتے باکل اسی طرح کہ امریکا ڈاکٹر شکیل آفریدی کے بارے میں ہم سے درخواست کر رہا ہے کیونکہ ہمارے اپنے قوانین ہیں، شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ملک میں صورتحال یہ ہے کہ 4 سال میں اتنی بڑی پارلیمنٹ سے حکومت کو کوئی وزیر خارجہ نہیں ملا ریٹائرڈ بیوروکریٹ خارجہ پالیسی چلا رہے ہیں حالانکہ مسلم لیگ (ن) میں کافی اچھے لوگ بھی ہیں مگر شائد چند لوگوں کے سواء کسی پر اعتماد نہیں کیا جاتا خاندان کی سیاست سے حکمران آگے بڑھنے کے لئے تیار نہیں ہیں، اسی ناقص حکمرانی کے حوالے سے سپریم کورٹ نے اپنے ریمارکس میں کہا ہے کہ ملک میں جمہوریت ہے یا بادشاہت اس طرح شاہ محمود قریشی نے سندھ حکومت کے مقدمے کے ریمارکس کو بھی وفاق پر تھوپ دیا، شاہ محمود قریشی نے کہا کہ آئندہ وفاقی بجٹ سے ملک میں مہنگائی دگنی ہو جائے گی آج صورتحال یہ ہے کہ آئی ایم ایف کی ڈکٹیشن کے بغیر وزیر خزانہ کوئی بجٹ پیش نہیں کر سکتا، سالانہ ترقیاتی پروگرام کے منصوبوں میں صوبہ کے پی کے اور سندھ کو خصوصاً نظرانداز کیا گیا ہے انہیں ان کا حق نہیں دیا جا رہا۔

ایک سینئر صحافی نے اپنے سوال میں شاہ محمود قریشی کو توجہ دلائی کہ سندھ حکومت کے کیس میں چیف جسٹس کے ریمارکس کو بھی آپ نے وفاقی حکومت پر تھوپ دیا ہے گذشتہ دنوں سندھ کے پورے دورے میں آپ نے پیپلزپارٹی کا اور اس شخصیت کا نام نہیں لیا جسے آپ لوگ کرپشن کا بادشاہ کہتے تھے یا کیا یہ سیاست کی شفافیت ہے جس پر آپ مسلسل زور دے رہے ہیں اس پر شاہ محمود قریشی نے کہا کہ کرپشن پیپلزپارٹی کرے مسلم لیگ (ن)، جماعت اسلامی، تحریک انصاف کوئی بھی کرے کرپشن کرپشن ہے قانون معاشرہ اخلاقیات کسی میں اس کی کوئی گنجائش نہیں ہے میں بھی یہ نہیں کہہ رہا کہ کسی سے رعایت برتی جائے یا کسی کے ساتھ ناروا سلوک کیا جائے ہمارا موقف ہے کہ سب کا بلاامتیاز احتساب ہونا چاہئیے ہم چاہتے ہیں کہ ایسا ادارہ، نظام، ایسے قوانین ہوں اور ماحول ہو کہ سب ایک ہی چھنی سے گزریں، انہوں نے کہا کہ میری زبان میں بہت کچھ ہے مجھے زبان چلانا آتی ہے آپ جو اشارہ کر رہے ہیں میں سمجھ رہا ہوں میں 34 سال سے سیاست کرتا آ رہا ہوں کھیل نہیں کھیلا جس پر صحافی نے کہا کہ ہماری گذارش بھی یہی ہے کہ یہ زبان چلنی چاہئیے، شاہ محمود قریشی نے کہا کہ بلاامتیاز سب کرپٹ عناصر کا احتساب ہو اور انہیں کٹہرے میں کھڑا کیا جانا چاہئیے اور ایک ہی پیمانے سے سب کو جانچا جانا چاہئیے، پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول زرداری کے مستقبل کے حوالے سے سوال پر شاہ محمود قریشی نے کہا کہ میرے پاس کوئی ایسا آلہٰ ہوتا کہ میں پیشنگوئی کر سکتا تو ضرور بتاتا کہ آئندہ موسم بہار میں کیا بہار آئے گی، صرف اندازے ہی لگائے جا سکتے ہیں، ہر کسی کو اختیار ہے کہ وہ اپنی سیاست کرے، بلاول کا ایک سیاسی گھرانے سے تعلق ہے وہ ایک بڑی ماں کے بیٹے اور بڑے نانا کے نواسے ہیں اگر انہوں نے اپنی "صحبت" درست رکھی تو وہ اپنا مستقبل بنا سکتے ہیں اگر ان کے گرد حواری اکٹھے ہو گئے جنہوں نے ملک کو نچوڑا ہے پی پی جیسی بڑی جماعت کو سکیڑ کر رکھ دیا ہے تو پھر انہیں نقصان ہو گا فیصلہ بلاول کو کرنا ہے مجھے نہیں کہ کن لوگوں نے پارٹی کو نقصان پہنچایا ہے۔

عمران خان کی آف شور کمپنی کے بارے میں انہوں نے کہا کہ عمران خان کاؤنٹی کرکٹ کھیلتے تھے اور جو بھی پیسہ آتا تھا اس پر وہاں ٹیکس ادا کرتے تھے ایسا نہیں کہ وہ ملک سے دولت لوٹ کر ملک سے باہر لے جا رہے تھے تاہم اس کے باوجود جو بھی متفقہ ٹی او آرز بنیں اس کے مطابق مخالفین عمران خان کا احتساب کر لیں اور میں نوازشریف کا کر لوں، انہوں نے کہا کہ مسائل کے ہر طرف انبار لگے ہوئے ہیں بجلی پانی گیس کے لئے ہر ایک کے لئے کراچی حیدرآباد ہر جگہ بڑے پیمانے پر احتجاج ہو رہا ہے شہر گندگی کے ڈھیر بنے ہوئے ہیں ہم صفائی کا بھی کوئی مربوط نظام قائم نہیں کر سکیں ہیں، انہوں نے کہا کہ آج پریس کلب کے سامنے ایس ڈی اے کے ملازمین 14 ماہ کی تنخواہ اور اسمال انڈسٹریز کے ملازمین 10 ماہ کی تنخواہ کے لئے احتجاج کر رہے ہیں، انہوں نے کہا کہ صرف نمائشی بلدیاتی نظام وجود میں آیا ہے پنجاب اور سندھ میں تو وہ ابھی مکمل بھی نہیں ہو سکا ہے اس نظام میں جو تیسرے نمبر پر اہمیت رکھتے ہیں انہیں کوئی اختیارات نہیں دیئے جا رہے، انہوں نے کہا کہ اگر کے پی کے میں بھی بلدیاتی نمائندوں کو مالی اور دیگر اختیارات نہیں ہیں تو میں وہاں کے وزیراعلیٰ سے درخواست کروں گا کہ وہ اس پر خصوصی توجہ دیں۔

Live پاکستان تحریک انصاف سے متعلق تازہ ترین معلومات