قومی اسمبلی کے بعد سینیٹ نے پارلیمانی انتخابی اصلاحاتی کمیٹی کی سفارشات پر مبنی 22ویں آئینی ترمیم دو تہائی اکثریت سے منظور کرلی

ترمیم کے حق میں 71 سینیٹرزنے ووٹ دیئے‘ کسی رکن نے مخالفت میں ووٹ نہیں دیا بل کی شق وار منظور ی کے دوران سینیٹر محسن خان لغاری کی شق 1،2،4،5 مخالفت ،شق 3،6تا 11تک اتفاق رائے سے منظور بل قومی اسمبلی اور سینیٹ سے منظوری کے بعد صدر پاکستان کے دستخطوں سے آئین پاکستان کا حصہ بن جائے گا

جمعرات 2 جون 2016 17:47

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔02 جون۔2016ء) قومی اسمبلی کے بعد سینیٹ نے بھی پارلیمانی انتخابی اصلاحاتی کمیٹی کی سفارشات پر مبنی 22ویں آئینی ترمیم دو تہائی اکثریت سے منظور کرلی، ترمیم کے حق میں71 سینیٹرز نے ووٹ دیئے، کسی رکن نے ترمیم کی مخالفت میں ووٹ نہیں دیا،22ویں آئینی ترمیم بل کی شق 1تا 4تک کی سینیٹر محسن خان لغاری نے مخالفت کی اور بل میں ترامیم پیش کیں ، چیئر مین سینیٹ میاں رضا ربانی نے رائے شماری کے ذریعے ترامیم کو مسترد کر دیا۔

22ویں آئینی ترمیم کے تحت سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ جج کے ساتھ کوئی ٹیکنو کریٹ اور ریٹائرڈ سول سرونٹ بھی چیف الیکشن کمشنر بنایا جا سکے گا، جس نے 20سال وفاقی یا صوبائی حکومت میں ملازمت کی ہو اور 22ویں سکیل سے ریٹائرڈ ہوا ہو، اسی طرح الیکشن کمیشن کے ممبران کے تقرر کیلئے بھی ٹیکنو کریٹ اور ریٹائرڈ سول سرونٹس اہل ہوں گے، ترمیم کے تحت اب الیکشن کمیشن کے چار ممبران میں دو اڑھائی سال بعد جبکہ دو چار سال بعد ریٹائرڈ ہوں گے۔

(جاری ہے)

قبل ازیں چاروں ممبران ایک ساتھ ریٹائرڈ ہو جاتے تھے اسی طرح چیف الیکشن کمشنر کی عدم موجودگی میں چیف جسٹس آف پاکستان سپریم کورٹ سے کسی جج کو قائمقام چیف الیکشن کمشنر مقرر کرتے تھے اب کمیشن کا سینئرترین ممبر قائمقام قائمقام چیف الیکشن کمشنر بن سکے گا۔ جمعرات کو وفاقی وزیر قانون و انصاف زاہدحامد نے 22ویں آئینی ترمیم منظوری کیلئے ایوان بالا میں پیش کی ، بل پیش کرنے کی تحریک کی منظوری پہلی خواندگی کے تحت ہوئی جس میں71سینٹرز نے ووٹ دیا۔

تحریک کی منظوری کے بعد چیئر مین سینیٹ میا ں رضا ربانی نے دوسری خواندگی کے تحت بل کی شق وار منظوری شروع ہوئی جس کے دوران بل کے حق اور مخالفت میں ووٹنگ کیلئے چیئر مین سینیٹ رضا ربانی نے ارکان کو نشستوں پر کھڑے کر کے کاؤنٹنگ کرائی، آئینی ترمیم کی شق نمبر 1،2،4،5 کی سینیٹر محسن خان لغاری نے مخا لفت کی اور ان میں ترامیم پیش کیں جن کو چیئر مین سینیٹ نے رائے شماری کے بعد مسترد کر دیا، 22ویں آئینی ترمیم بل کی شق نمبر 1،2،4،5 کے لئے 69سینیٹرز نے حق میں ووٹ دیا جبکہ سینیٹر محسن خان لغاری نے انکی مخالفت میں ووٹ دیا۔

22ویں آئینی ترمیم بل کی شق 6تا 11تک کے حق میں,71 71 سینیٹرز نے ووٹ دئیے۔ جبکہ ترمیم کا عنوان اور دیباچہ کی منظوری بھی71سینیٹرز کے ووٹوں سے کی گئی۔ دوسری خواندگی کے اختتام پر چیئر مین سینیٹ نے تیسری خواندگی کے طریقہ کار کا اعلان کیا جس کے تحت 2منٹ تک ایوان کی لابیوں، چیمبرز اور راہداریوں میں گھنٹیاں بجائی گئیں تا کہ باہر موجود ارکان ایوان کے اندر آ سکیں،2منٹ بعد ایوان میں داخلے کے تمام دروازے بند کر دیئے گئے اور چیئر مین سینیٹ میاں رضا ربانی نے تیسری خواندگی میں ووٹنگ کے طریقہ کار سے ارکان کو آگاہ کرتے ہوئے ہدایت کی، بل کے حق میں ووٹ ڈالنے کیلئے سینیٹرز چیئر مین سینیٹ کے ڈائس کے دائیں جانب والی لابی میں جائیں جبکہ مخالفت میں ووٹ ڈالنے والے سینیٹرز ڈائس کے بائیں جانب والی لابی میں جائیں، لابیوں کے دروازوں پر ووٹنگ رجسٹر رکھے تھے جن میں اسمبلی سٹاف ووٹوں کا اندراج کر رہا تھا، تمام سینیٹرز نے یکے بعد دیگرے دائیں لابی میں جا کر ترمیم کے حق میں ووٹ ڈالا، کسی سینیٹر نے ترمیم کی مخالفت میں ووٹ نہ ڈالا ۔

جس کے بعد چیئر مین سینیٹ نے رزلٹ اعلان کیا جس کے تحت 71سینیٹرز نے ترمیم کے حق میں ووٹ دیا،22ویں آیئنی ترمیم قومی اسمبلی اور سینیٹ سے منظوری کے بعد صدر پاکستان کے دستخطوں سے آئین پاکستان کا حصہ بن جائے گا۔