وفاقی دارالحکومت میں زیر زمین پانی کا لیول نیچے ہو رہا ہے‘

ایف پی ایس سی ہر سال 12 گروپوں اور سروسز میں گریڈ BS-17 کے لئے مقابلے کا امتحان منعقد کرتی ہے ،سی ڈی اے میں ڈیپوٹیشن پر آئے افسران کو واپس بھجوا دیا گیا ہے، پولی کلینک میں مرکزی سپلائی نظام میں آکسیجن کے پریشر میں کمی کے واقعہ کی انکوائری کرائی جارہی ہے، سرکاری مکانات اور گھروں کی مرمت کیلئے سی ڈی اے کو وزارت خزانہ کی طرف سے فنڈز ملتے ہیں، سی ڈی اے میں ممبر فنانس ‘ سٹیٹ اور لینڈ و انوائرمنٹ کی آسامیاں خالی پڑی ہیں وزیر مملکت برائے کیڈ طارق فضل چوہدری کا ایوان بالا میں وقفہ سوالات کے دن جواب

جمعرات 2 جون 2016 15:02

اسلام آباد ۔ 2 جون (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔02 جون۔2016ء) ایوان بالا کو بتایا گیا ہے کہ وفاقی دارالحکومت میں زیر زمین پانی کی سطح گررہی ہے ‘ سی ڈی اے کے پاس دستیاب شدہ پانی کے ذرائع کو بھرپور انداز میں استعمال کیا جارہا ہے تاہم وہ موجودہ طلب کو پورا کرنے کے لئے کافی نہیں ،ایف پی ایس سی ہر سال 12 گروپوں اور سروسز میں گریڈ BS-17 کے لئے مقابلے کا امتحان منعقد کرتی ہے‘ گزشتہ تین سالوں کے دوران بالترتیب 220‘ 377 اور 368 امیدواروں نے ان امتحانات میں کامیابی حاصل کی،سی ڈی اے میں ڈیپوٹیشن پر آئے افسران کو واپس بھجوا دیا گیا ہے، پولی کلینک میں مرکزی سپلائی نظام میں آکسیجن کے پریشر میں کمی کے واقعہ کی انکوائری کرائی جارہی ہے، سرکاری مکانات اور گھروں کی مرمت کیلئے سی ڈی اے کو وزارت خزانہ کی طرف سے فنڈز ملتے ہیں، سی ڈی اے میں ممبر فنانس ‘ سٹیٹ اور لینڈ و انوائرمنٹ کی آسامیاں خالی پڑی ہیں۔

(جاری ہے)

جمعرات کو ایوان بالا کے اجلاس میں وقفہ سوالات کے دوران سینیٹر عتیق شیخ کے سوالات کے جواب میں وزیر مملکت برائے کیڈ طارق فضل چوہدری نے بتایا کہ حکومت کے زیر غور ایسی تجویز زیرغور نہیں ہے جس کے ذریعے سی ڈی اے کے دائرہ کار میں آنے والے علاقوں میں پانی کی بورنگ کو منضبط کیا جائے۔ انہوں نے بتایا کہ اسلام آباد کیپٹل ٹیریٹری کی آبادی 2171 ملین ہے۔

پانی کے ذرائع تلاش کرنے کے لئے غیر معمولی کوششیں کی جارہی ہیں۔ اسلام آباد کے سیکٹر ایچ 8‘ ایچ 9 اور آئی 8سے آئی 11 تک اور ماڈل دیہات کے پانی کی طلب مکمل طور پر ٹیوب ویل سے پوری کی جاتی ہے جبکہ جی سیون تا جی ٹین اور ایف سیون تا ایف الیون کے سیکٹرز کو پانی کی ترسیل میں انہی ٹیوب ویلز کے ذریعے اضافہ کیا جاتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ پانی کی کمی کو پورا کرنے کے لئے نئے ٹیوب ویلز کی تنصیب‘ چراہ ڈیم کی تعمیر اور انڈس ریور سسٹم سے پانی کے حصول سمیت مختلف تجاویز پر کام ہو رہا ہے۔

ہر ٹیوب ویل پر پانی کو صاف کرنے کے لئے ایک کلورینیٹر نصب ہے جو ٹھیک طریقے سے کام کر رہے ہیں۔ پانی ذخیرہ کرنے والی ٹینکیوں کی رواں سال صفائی کی گئی ہے اور پینے کے پانی کے معیار کی تصدیق متعلقہ محکمہ یعنی این آئی ایچ سے کرائی گئی ہے۔ سینیٹر چوہدری تنویر خان کے سوال کے جواب میں وزیر مملکت نے بتایا کہ جن گروپوں اور سروسز میں تعیناتی کے لئے مقابلے کا امتحان منعقد کیا جاتا ہے ان میں کامرس اینڈ ٹریڈ گروپ‘ فارن سروس‘ انفارمیشن گروپ‘ ان لینڈ ریونیو سروس‘ ملٹری لینڈز اینڈ کنٹونمنٹ گروپ‘ آفس مینجمنٹ گروپ‘ پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروس‘ پاکستان آڈٹ اینڈ اکاؤنٹس سروس‘ پاکستان کسٹمز سروس‘ پولیس سروس آف پاکستان‘ پوسٹل گروپ اور ریلوے گروپ شامل ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ گزشتہ تین سالوں کے دوران 3578 امیدوار امتحان کے بعد انٹرویو کے لئے شارٹ لسٹ کئے گئے اور 1075کو نامزدگیاں جاری کی گئیں۔ کرنل (ر) طاہر مشہدی کے سوال کے جواب میں وزیر مملکت نے بتایا کہ سی ڈی اے میں ڈیپوٹیشن پر آئے افسران کو واپس بھجوا دیا گیا ہے۔ ڈیپوٹیشن پر آنے والے افسران کو پلاٹ الاٹ کرنے کی کوئی پالیسی نہیں ہے۔ سینیٹر چوہدری تنویر خان کے سوال کے جواب میں وزیر مملکت برائے کیڈ نے بتایا کہ اسلام آباد کے چڑیا گھر کو پرائیویٹ پارٹی کے حوالے کرنے کے بارے میں رائے مانگی گئی ہے۔

چڑیا گھر پر سالانہ سات کروڑ روپے کا خرچہ آرہا ہے۔ چڑیا گھر کی حالت ناگفتہ بہ ہے۔ اسلام آباد کا چڑیا گھر زیادہ بہتر نہیں ہے۔ لاہور سے دو شیر منگوائے گئے ہیں۔ وہاں سے مزید جانور بھی منگوائے گئے ہیں۔ چڑیا گھر کو آؤٹ سورس کرنے کی تجویز ہے جس پ چیئرمین سینٹ نے کہا کہ اسلام آباد کے چڑیا گھر کے ہاتھی کی حالت بہت خراب ہے۔ اس پر توجہ دی جائے اس کو باندھ کر رکھا گیا ہے۔

جانوروں پر رحم کیا جائے۔ وزیر مملکت نے کہا کہ ہاتھی زنجیروں سے بندھا ہوا نہیں ہے۔ کھلا ہے اور شیڈ کا بھی اہتمام ہے۔ سینیٹر محسن عزیز کے سوال کے جواب میں وزیر مملکت نے بتایا کہ چھ مارچ 2016ء کو آئی سی یو (پولی کلینک) کی آکسیجن کی نشاندہی کرنے والی گھنٹی بجی اور مرکزی سپلائی نظام میں آکسیجن پریشر کم ہوا۔ اس دوران کسی مریض کو نقصان نہیں ہوا۔

تاہم واقعہ کی انکوائری کرائی جارہی ہے اور تین افسران کو معطل کردیا گیا ہے۔ سینیٹر احمد حسن کے سوال کے جواب میں وزیر مملکت کیڈ نے بتایا کہ سی ڈی اے سرکاری مکانوں اور گھروں کی مرمت وزارت خزانہ کی طرف سے فراہم کئے گئے فنڈز سے کرتا ہے۔ فیصل مسجد اور پاک سیکرٹریٹ کے لئے بھی فنڈز ملتے ہیں۔ سردار محمد اعظم خان موسیٰ خیل کے سوال کے جواب میں انہوں نے کہاکہ سی ڈی اے میں ممبر فنانس‘ سٹیٹ اور لینڈ و انوائرمنٹ کی آسامیاں وفاقی حکومت کی جانب سے کئے گئے تبادلوں کی وجہ سے خالی پڑی ہیں۔ ان آسامیوں کو پر کرنے کے لئے وفاقی حکومت کو استدعا کردی گئی ہے۔

متعلقہ عنوان :