عالمی طاقتوں کی جانب سے مسئلہ کشمیر پر اسرار طور پر خاموشی دوہرا معیار ہے ‘عبد القیوم

عالمی برادری کا ضمیر بیدار کرنے کیلئے مسلم ممالک کا اکٹھا ہونا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے ٗخطاب کشمیر کے اندر مزاحمت کی شکل بدل تو سکتی ہے ٗ ختم نہیں ہوسکتی ٗعامر کمال کا خطاب

پیر 30 مئی 2016 18:29

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔30 مئی۔2016ء) سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے دفاعی پیدوار کے چیئر مین ‘دفاعی تجزیہ نگار‘سینیٹر لیفٹیننٹ جنرل (ر) عبدالقیوم نے کہا ہے کہ عالمی طاقتوں کی جانب سے مسئلہ کشمیر پر اسرار طور پر خاموشی دوہرا معیار ہے ‘عالمی برادری کا ضمیر بیدار کرنے کیلئے مسلم ممالک کا اکٹھا ہونا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے ۔

وہ پیر کو دی انسٹیٹیویٹ آف سٹریٹجک سٹیڈیز میں فرزانہ قاضی کی کتاب "سیکرٹس آف کشمیر ویلی"کی تقریب رونمائی سے خطاب کر رہے تھے ۔ اس موقع پر دی انسٹیویٹ آف سٹریٹجک سٹڈیزکے ڈائریکٹر جنرل و سابق سفیر مسعود خان ‘نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی کے شعبہ گلوبل سٹڈیز کے سربراہ و سابق سفیر عامر کمال ‘ آزاد کشمیر کی وزیر فرزانہ یعقوب ‘ پیس اینڈ کلچر آرگنائزیشن کی چیئر پرسن مشعال ملک ‘غلام محمد صفی‘آمنہ ہوتی ‘شمیم شال ‘شائستہ صفی سمیت دیگر کشمیری قائدین موجود تھے ۔

(جاری ہے)

سینیٹر لیفٹیننٹ جنرل (ر) عبدالقیوم نے کہا کہ مصنفہ نے مسئلہ کشمیر ‘خواتین پر ڈھائے جانے والے مظالم کے حوالے سے غیر جانبدانہ طور پرعالمی برادری کے سامنے رکھا ہے‘یہ بہترین ادبی کوشش ہے‘ بھارتی حکومت نے کشمیر کے اندر خواتین ‘بچوں کے ساتھ انسانیت سوز سلوک کی انتہا کر دی ہے‘اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ مسئلہ کشمیر پاکستان یا مسلمانوں کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ یہ خالصتاً انسانیت اور انسانی حقوق کا مسئلہ ہے‘بین الاقوامی برادری گواہ ہے کہ اس معاملے کو بین الاقوامی سطح پر خود بھارت لیکر گیا اور یقین دہانی کرائی کہ وہ کشمیریوں کو حق خوداردیت دے گا۔

اس کے باوجودآج بھی کشمیر میں مظالم ڈھائے جارہے ہیں‘سات لاکھ فوج بندوق تانے کھڑی ہے ‘مقبوضہ کشمیر میں شوٹ ٹو کل کے اختیارا ت دیئے گئے ہیں ۔انہوں نے کہا کہ امریکا اور دیگر عالمی طاقتیں دوغلی پالیسی پر عمل پیرا ہیں‘عراق ‘لیبا ‘فلسطین ‘افغانستان پر حملے کر کے مرضی کا سسٹم لانے کی کوشش کی گئی لیکن ان عالمی طاقتوں کو مسئلہ کشمیر نظر نہیں آرہا جہاں کئی سال سے خواتین ‘بچوں، نوجوانوں اور بوڑھوں پر مظالم ڈھائے جارہے ہیں ۔

انہوں نے کہا کہ دنیا کا کوئی قانون اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ کسی بھی مشتبہ شخص کو جان سے مارا جائے ‘اس کام کے لیے عدالتیں موجود ہیں جو جرم کے مطابق سزائیں دیتیں ہیں ‘لیکن ایک سپر پاور نے گذشتہ دنوں ڈرون حملہ کر کے پاکستان کی حدود میں ملا اخترمنصور کو نشانہ بنا یا ۔انہوں نے کہا کہ امت مسلمہ کی قیادت سے بہت سی توقعات وابستہ تھیں لیکن ابھی تک کوئی بڑا اتحاد یا فیصلہ نہیں کیا گیا ‘درپیش چیلنجز سے نمٹنے کے لیے مسلم ممالک کی قیادت کو ایک ہونا پڑے گا ۔

دی انسٹیویٹ آف سٹریٹجک سٹیڈیزکے ڈائریکٹر جنرل و سابق سفیر مسعود خان نے کہا کہ مقبوضہ کشمیر کی خواتین نے کبھی بھی ہمت اور حوصلہ نہیں ہارا ‘سخت ترین حالات کا ہمت سے مقابلہ کیا ‘یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ اگر عورتیں شامل نہ ہوتیں تو تحریک آزادی ختم ہوچکی ہوتی ۔انہوں نے کہا کہ مقبوضہ کشمیر کے اندر اس وقت نئی نسل نے آزادی کی جدوجہد کا پرچم تھام لیا ہے ‘وہاں عورتیں مردوں کے شانہ بشانہ کام کر رہیں ہیں ۔

نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی کے شعبہ گلوبل سٹڈ یزکے سربراہ سابق سفیر عامر کمال نے کہا کہ مصنفہ نے اپنی کتاب میں کشمیر کے اندر خواتین کی جدوجہد کی طرف اشارہ کیا ہے ‘شہیدوں ان کے والدین ‘بیواؤں ‘بہنوں اور بھائیوں کی کوششوں کو عالمی سطح پر اجاگر کیا ہے ۔انہوں نے کہاکہ کشمیر کے اندر مزاحمت کی شکل بدل تو سکتی ہے لیکن ختم نہیں ہوسکتی۔

پیس اینڈ کلچر آرگنائزیشن کی چیئر پرسن مشعال ملک نے کہا کہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج بندوق کی نوک پر تحریک آزادی کو دبانے کی کوشش کر رہی ہے لیکن کشمیری تحریک آزادی کو جاری رکھے ہوئے ہیں ‘آج بھی میرے خاوند یاسین ملک کو بغیر کسی ایف آئی آر یا عدالتی حکم کے سینٹرل جیل میں قید کر لیا گیا ہے ‘مقبوضہ کشمیر کے اندر کوئی قانون نہیں ہے ۔

مصنفہ فرزانہ قاضی نے کہا کہ عالمی طاقتوں کو مسئلہ کشمیر کے حل کر کے لئے کردار ادا کرنا چاہیے ۔غلام محمد صفی نے کہا کہ فرزانہ قاضی نے اپنی کتاب میں آسیہ اندرابی ‘ زمرودہ حبیب ‘ یاسمین راجہ ‘مجاہدین ‘دونوں اطراف کے مہاجرین ‘سید علی گیلانی ‘میرواعظ عمر فاروق ‘ یاسین ملک کا تذکرہ کر کے ثابت کر دیا کہ وہ ہر حقیقت اور سچائی کو دنیا کے سامنے لائی ہیں ۔