انتہا پسندانہ نظریات نے انسانیت کو کرب میں مبتلا کر رکھا ہے اساتذہ و محققین دین اسلام کے خلاف پھیلائی گئی غلط فہمیوں کو دور کر نے میں اپنا کردار ادا کریں ، جامعات میں اعلیٰ نصاب وبہترین اساتذہ ملکی ترقی کیلئے ناگزیر ہیں

صدر ممنون حسین کا اسلامی یونیورسٹی کے 10 ویں کانووکیشن سے خطاب کانووکیشن میں 5620 طلبہ کو ڈگریاں عطا ،صدر مملکت نے 81 طلباء کو پی ایچ ڈی کی ڈگریاں ، 115 طلباء کو طلائی تمغے عطا کیے

ہفتہ 28 مئی 2016 18:45

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔28 مئی۔2016ء) صدر مملکت و چانسلر بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی ممنون حسین نے کہا ہے کہ بہترین اساتذہ ، اعلیٰ نصاب اور مناسب سہولیات اگر جامعات کو میسر ہوں تو تعلیمی ادارے معیار کی بلندیوں تک پہنچ کر ملک کو مزید برق رفتاری سے ترقی کی راہ پر گامزن کر سکتے ہیں، انتہا پسندانہ نظریات نے انسانیت کو کرب میں مبتلا کر رکھا ہے اوراساتذہ، محققین و دانشوروں پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ دین اسلام کے خلاف پھیلائی گئی غلط فہمیوں کو دور کر کے اس کا پیغام امن عام کریں اور دہشت گردی کے عفریت سے چھٹکارے کے لیے معاشرے کو با عمل حل فراہم کریں۔

وہ ہفتہ کویہاں جناح کنونشن سنٹر میں اسلامی یونیورسٹی کے 10 ویں کانووکیشن میں خطاب کر رہے تھے جس میں484 غیر ملکی طلبا سمیت 562 طلباء کو ڈگریاں عطا کی گئیں جبکہ صدر پاکستان نے 115 طلباء کو طلائی تمغے اور 81 طلباء کو پی ایچ ڈی کی ڈگریاں بھی عطا کیں ۔

(جاری ہے)

صدر مملکت نے اپنے خطاب میں طلباء کو مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ وہ ملک کا فخر ہیں اور امید ظاہر کی کہ وہ مستقبل میں منفی رجحانات کی حوصلہ شکنی کرتے ہوئے ملک کو مزید مستحکم اور خوشحال بنانے میں اپنا مثبت کردار اد کریں گے ۔

صدر مملکت ممنون حسین نے اسلامی یونیورسٹی کے کردار کو سراہتے ہوئے کہا کہ جامعہ، عصری تقاضوں کے مطابق نوجوانوں کو اسلامی تعلیمات کی روشنی میں جو تعلیم مہیا کر رہی ہے وہ وقت کی اشد ضرورت ہے۔ انہوں نے جامعات پر زور دیا کہ وہ اساتذہ کی خدمات کو بروئے کار لاتے ہوئے تحقیق کے کلچر کو نوجوانوں میں عام کریں ااور ادبی سرقہ جیسی سرگرمیوں کی حوصلہ شکنی کریں۔

کانوووکیشن میں خطاب کرتے ہوئے ریکٹر جامعہ ڈاکٹر معصوم یٰسین زئی نے کہا کہ اسلامی یونیورسٹی کا اولین مقصد مسلمانوں کی گم گشتہ علمی قیادت وحیثیت کی بحالی اور جغرافیائی حد بندیوں سے ماورا ہو کر انسانیت کی خدمت کا عزم ہے، انہوں نے کہا کہ یونیورسٹی کا نقطہ نظر اعتدال پسندی اور ہم آہنگی پر بنیاد رکھتا ہے جبکہ جامعہ کسی بھی طور دہشت گردی اور انتہا پسندی کی حوصلہ افزائی اور اعانت نہیں کرتی اور نہ ہی اس کے لیے کوئی نرم گوشہ رکھتی ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ امن و سکون ، رواداری اور پر امن بقائے کا فروغ ہی اسلامی یونیورسٹی کا پیغام ہے۔ ڈاکٹر معصوم یٰسین زئی نے کہا کہ بین الاقوامی اسلامی یونی ورسٹی ، اسلام آباد کے لیے ایک مستحکم وقف کے قیام کے لیے معاشی وسائل کے حصول کی کاوشیں جاری ہیں، اب اس یونی ورسٹی کو نئی تدریسی عمارتوں ، تجربہ گاہوں اور طلبہ کی اقامت گاہوں کی تعمیر کی اشد ضرورت ہے، اس مقصد کے لیے میگا پی۔

سی۔وَن پیش کردیا گیا ہے اور پلاننگ کمیشن کے فیصلے کا انتظار ہے جبکہ یونیورسٹی کی انٹرنیشنل فنانس کمیٹی، کیمپس میں 10 میگا واٹ کے شمسی توانائی کے پلانٹ کے قیام کے لیے متحرک ہے اور سعودی عرب میں ایک ذیلی کیمپس کے قیام کی کاوشیں بھی جاری ہیں۔اس موقع پر صدر جامعہ ڈاکٹر احمد یوسف الدریویش نے اپنے خطاب میں کہا کہ کے اس کانووکیشن میں ڈگری حاصل کرنے والے 11644 طلباء و طالبات مبارکباد کے مستحق ہیں جنہوں نے ایسی مثالی درسگاہ سے تربیت حاصل کی ہے جو اپنی تدریسی، تعلیمی و تحقیقی سرگرمیوں کے ذریعے معاشرے کی تخلیقی انداز میں خدمات انجام دینے کے ساتھ ساتھ اپنے اندر ایک قومی، بین الاقوامی اور اسلامی اثر اور شناخت رکھتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس وقت یونیورسٹی کی9 کلیات میں 45شعبہ جات کام کر رہے ہیں جبکہ ٹیکنالوجی سنٹر اور 93ماڈل سکولز بھی بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کے زیر انتظام چل رہے ہیں، اس وقت یونیورسٹی میں 145تعلیمی پروگرام چل رہے ہیں،اپنے خطاب میں انہوں نے بتایا کہ حالیہ کانووکیشن کے بعد جامعہ سے فارغ التحصیل طلباء و طالبات کی تعداد 38002 ہو جائے گی۔

ڈاکٹر الدریویش نے کہا کہ یونیورسٹی میں انجنیئرنگ، ٹیکنالوجی اور دیگر جدید علوم کے ساتھ ساتھ شرعی علوم اور عربی زبان کی ترویج اس طریقے سے کی جاتی ہے کہ جس سے علوم اور معارف کا تکامل معرض وجود میں آتا ہے، اس لحاظ سے یہ صرف ایک یونیورسٹی ہی نہیں بلکہ ایک بین الاقوامی اسلامی ادارہ ہے جس کا مقصد اسلامی تعلیمات کی روشنی میں تہذیبوں کے ٹکراؤ اور تعصب اور انتہا پسندی کی روک تھام کرنا ہے۔اس موقع پر جامعہ کے نائب صدور ، ڈائریکٹر جنرل انتظامی و مالیاتی امور اور دیگر اعلیٰ عہدیدران بھی موجود تھے۔

متعلقہ عنوان :