پانامہ لیکس کمیشن کے لیے ٹی او آرز کی تشکیل ‘حکومت اور اپوزیشن ارکان میں ڈیڈلاک پیدا ہوگیا

Zeeshan Haider ذیشان حیدر جمعہ 27 مئی 2016 19:24

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔27 مئی۔2016ء) پانامہ لیکس کمیشن کے لیے ٹی او آرز کی تشکیل کے معاملے پرحکومت اور اپوزیشن ارکان میں ڈیڈلاک پیدا ہوگیا ہے،اور حکومت نے وزیراعظم کا نام ٹی اوآر سے نکالنے کیلئے اپوزیشن کی شرائط ماننے سے انکارکردیا ہے، اپوزیشن کا کہنا ہے کہ وزیراعظم کا نام ٹی او آر سے نکال کر حسین نواز کے والد کا نام شامل کرلیتے ہیں۔

اپوزیشن کمیٹی رکن اعتزازاحسن اور شاہ محمودقریشی نے ٹی او آرز کی تشکیل کے معاملے پر ڈیڈ لاک کی تصدیق کردی ہے۔ اپوزیشن ارکان کا کہنا ہے کہ اس وقت ٹی اوآرز پر اپوزیشن اورحکومت کے درمیان ڈیڈ لاک ہے، اپوزیشن کے ٹی اوآرز جوں کے توں مانے جائیں تو وزیراعظم کا نام شامل نہ کرنے پر راضی ہونگے، حکومت ہمارے ٹی اوآرز میں مزید کچھ شامل کرنا چاہے تو کرلے، اپنے ٹی اوآرز سے کسی صورت پیچھے نہیں ہٹیں گے۔

(جاری ہے)

حکومتی ارکان کا کہنا ہے کہ اپوزیشن کے ٹی او آرز جوں کے توں تسلیم نہیں ہوسکتے۔قبل ازیں ضوابط کار طے کرنے کے لیے تشکیل دی جانے والی پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس کے بعد اسلام آباد میں پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر میڈیا کے نمائندوں سے بات کرتے ہوئے پیپلز پارٹی کے رہنما چوہدری اعتزاز احسن نے کہا کہ حکومت کے ساتھ ڈیڈ لاک کی حالت ہے، جب کہ تحریکِ انصاف کے رہنما محمود قریشی نے کہا کہ حکومت کے ساتھ بات چیت میں معاملات ایک انچ بھی آگے نہیں بڑھے۔

چوہدری اعتزاز نے اس تاثر کو رد کیا کہ حزبِ اختلاف اپنے موقف سے پیچھے ہٹ گئی ہے۔ انھوں نے کہا کہ ہم 15 ضوابطِ کار پر مصر ہیں، اور ہم نے کسی وقت بھی وزیرِ اعظم کو استثنیٰ دینے کی بات نہیں کی۔انھوں نے کہا کہ اگر نواز شریف کا نام ضوابطِ کار سے نکال بھی دیا جائے تب بھی وہ والد کے طور پر تفتیش کے دائرے میں آتے ہیں۔چوہدری اعتزاز نے اس تاثر کو بھی رد کرنے کی کوشش کی کہ حزبِ اختلاف کے درمیان کسی قسم کا اختلاف ہے۔

اس موقعے پر محمود قریشی نے کہا کہ آج حکومت کے ساتھ بات چیت ایک انچ بھی آگے نہیں بڑھی۔ انھوں نے کہا کہ حکومت سپن ڈاکٹرنگ کے ذریعے مقاصد حاصل نہیں کر پائے گی اور اگر کوئی معاہدہ ہوا تو وہ کلیت میں ہو گا۔انھوں نے کہا کہ ہم اپنے موقف پر قائم ہیں اور قائم رہیں گے۔سپیکر قومی اسمبلی نے 24 مئی کو پاناما لیکس، کک بیکس اور سیاسی اثر و رسوخ استعمال کرکے قرضے معاف کروانے کی تحقیقات کے بارے میں ضابطہ کار طے کرنے کے لیے 12 رکنی پارلیمانی کمیٹی قائم کی تھی جسے ضوابطِ کار طے کرنے کے لیے دو ہفتوں کا وقت دیا گیا ہے۔

اس کمیٹی میں حکومت اور اپوزیشن کے ارکان شامل ہیں اور اس کا تیسرا اجلاس جمعے کو منعقد ہوا۔ادھرپارلیمنٹ میں حزب مخالف کی دوسری بڑی جماعت پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے آج پارٹی کا مشاورتی اجلاس طلب کیا ہے جس میں پانامالیکس کی تحقیقات میں وزیراعظم کا نام نکالنے سے متعلق حزب مخالف کی دیگر جماعتوں کی طرف سے کی جانے والی پیشکش کا جائزہ لیا جائے گا۔

حکومت نے پارلیمانی کمیٹی میں شامل اپنے چھ ارکان میں سے وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف کا نام واپس لے کر اْن کی جگہ وفاقی وزیر قانون زاہد حامد کا نام شامل کیا ہے۔اس سے پہلے زاہد حامد ضوابط کار طے کرنے والی کمیٹی کے اجلاس میں وفاقی وزیر قانون کی حیثیت سے شرکت کرتے تھے جس پر حزب مخالف کی جماعتوں نے اعتراض کیا تھا۔خیال رہے کہ اپوزیشن کی طرف سے مطالبے کے بعد حکومت چیف جسٹس کی سربراہی میں تحقیقاتی کمیشن بنانے پر تیار تو ہو گئی تھی لیکن اس معاملے پر تحقیقات کے لیے حکومت نے جو ضوابط کار تجویز کیے تھے ان کو حزب اختلاف کی جماعتوں نے یکسر مسترد کر دیا تھا۔