مراد علی شاہ کی کراچی چیمبرکو ایس آر بی سے متعلق مسائل کے حل کی یقین دہانی

کراچی چیمبر کی جانب سے دی گئی بجٹ تجاویز پر تفصیلی تبادلہ خیال کیاجائے گا،وزیر خزانہ سندھ کا کراچی چیمبر میں خطاب

جمعرات 26 مئی 2016 17:00

کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔26 مئی۔2016ء) سندھ کے وزیرخزانہ،توانائی، پلاننگ اینڈ ڈیولپمنٹ، ایری گیشن سید مراد علی شاہ نے کراچی چیمبر آف کامرس کی جانب سے مسائل کے حل کے لیے پیش کی گئی تجاویز اور تحفظات کو دور کرنے کی یقین دہانی کرواتے ہوئے کہا ہے کہ اگلے ہفتے دو علیحدہ علیحدہ اجلاس منعقد کیے جائیں گے جن میں کراچی چیمبر کی جانب سے دی گئی بجٹ تجاویز پر تفصیلی تبادلہ خیال کیاجائے گااور ایس آر بی سے متعلق مسائل کاحل ڈھونڈا جائے گا۔

ان خیالات کااظہار انہوں نے کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری( کے سی سی آئی ) کے دورے کے موقع پر اجلاس سے خطاب میں کیا۔اس موقع پر وزیربلدیات جام خان شورو،سیکریٹری فنانس سہیل راجپوت، چیئرمین سندھ ریونیوبورڈ تاشفین خالد نیاز، چیئرمین بزنس مین گروپ و سابق صدر کے سی سی آئی سراج قاسم تیلی، وائس چیئرمینز بی ایم جی و سابق صدور کے سی سی آئی طاہر خالق،زبیر موتی والا،ہارون فاروقی،کے سی سی آئی کے صدر یونس محمد بشیر، سینئر نائب صدرضیاء احمد خان، نائب صدر محمد نعیم شریف،سابق صدر کے سی سی آئی اے کیو خلیل اور منیجنگ کمیٹی کے اراکین بھی موجود تھے۔

(جاری ہے)

وزیرخزانہ سندھ نے کہاکہ اجلاس میں اٹھائے گئے زیادہ تر مسائل کا تعلق سندھ ریونیو بورڈ سے تھا جس پر ایس آر بی آفس میں تفصیلی تبادلہ خیال کیاجائے گاجبکہ کے سی سی آئی کی تجاویز پر غور کے لیے اگلے ہفتے علیحدہ اجلاس بلایا جائے گا تاکہ مختلف تجاویز پر اتفاق رائے کرتے ہو ئے آئندہ بجٹ میں انھیں شامل کیاجاسکے۔انہوں نے وفاقی حکومت کے امتیازی رویے پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہاکہ یہ کاروبار دوست حکومت نہیں ہے لیکن اب ا نہیں اپنے رویے میں تبدیلی لانا ہو گی اور سندھ پر توجہ دینا ہوگی مگر بدقسمتی سے وہ ایسا نہیں کررہے جس کی وجہ سے سندھ حکومت کے لیے مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔

انہوں نے کراچی کی تاجر برادری کو مخاطب کرتے ہوئے کہاکہ اگر سندھ حکومت وفاقی حکومت کے خلاف احتجاج کرتی ہے توکیا تاجر سندھ حکومت کا ساتھ دیں گے ؟ جس پر بی ایم جی کے چیئرمین سراج قاسم تیلی نے مراد علی شاہ کی بات سے فوری اتفاق کرتے ہوئے کہاکہ وفاقی حکومت کے رویے کے خلاف ساتھ دینے کے عزم کا اظہار کیا۔مراد علی شاہ نے انڈینٹرز کوایس آر بی کی جانب سے ملنے والے نوٹسسز کے باعث پریشانیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ان نوٹسز کو رکوانے کی یقین دہانی کروائی۔

اس موقع پر وزیربلدیات سندھ جام خان شورو نے بتایا کہ کراچی کی سڑکوں اور انفرا اسٹرکچر کی بہتری بعض بڑے منصوبے جلد شروع کیے جائیں گے جس کا تخمینہ 10ارب روپے لگایا گیاہے جس میں شارع فیصل کی توسیع،انڈر پاسز کی ازسرنو تعمیر،یونیورسٹی روڈ پر سڑکوں اور فلائی اوورز کی تعمیر اور مختلف علاقوں میں اسی قسم کے اور منصوبے بھی شامل ہیں۔بزنس مین گروپ کے چیئرمین اور سابق صدر کراچی چیمبر سراج قاسم تیلی نے کہاکہ وفاقی حکومت کراچی کی عوام کے ساتھ سوتیلی ماں جیسا سلوک کر رہی ہے۔

یہ امر باعث تشویش ہے کہ موجوہ حکومت نے گزشتہ تین بجٹ میں پرانے ایکسائز قوانین کو شامل کرتے ہوئے اداروں کوبے جا اختیارات دیے ۔انہوں نے کہاکہ اسمبلی میں کوئی یہ ماننے کوتیار نہیں کہ کراچی65فیصد سے زائد ریونیو دیتا ہے اور یہ جواز پیش کیا جاتاہے کہ ایسا بندرگاہوں کی وجہ سے ہے جو حقیقت پر مبنی نہیں جبکہ کوئی بھی ڈرائی پورٹس پر جاری غلط کاموں اور چوری کی نشاندہی نہیں کرتا۔

انہوں نے کہاکہ ایف بی آر نے کراچی کے کاروباری ماحول کوتباہ کرکے رکھ دیا ہے اور یہ بہت ہی مایوس کن امر ہے کہ وفاقی حکومت لاہور پر زیادہ اور کراچی پر کم توجہ دیتی ہے۔ہم یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ ہم اپنا کیس کس کے پاس لے کر جائیں کیونکہ موجودہ حالات میں وفاقی حکومت ایف بی آر کے ذریعے تاجربرادری کے لیے مسائل پیدا کررہی ہے اور اب پیپلز پارٹی کی حکومت بھی ایس آر بی کے نوٹس بھیج کر ویسا ہی کر رہی ہے۔

اگر ایس آر بی درست کام کرے گی تو اہم سپورٹ کریں گے اور اگر ایماندار ٹیکس گزاروں کونوٹسز بھیج کر غلط کام کرکے گی تو اس کی شدید مخالف کریں گے۔انہوں نے وزیرخزانہ سندھ سے مطالبہ کیا کہ ایس آر بی سے متعلق مسائل کے حل کے لیے حتمی ڈیڈ لائن دی جائے۔اس موقع پر ایس آر بی کے چیئرمین تاشفین خالد نیاز نے ایف بی آر کے ایک مخصوص خط جس میں سروسز سیکٹر کی تشریح بیان کی گئی ہے اسے رد کرتے ہوئے غیر قانونی قرار دیا اور کہا کہ وہ اسے نہیں مانتے۔

بی ایم جی کے وائس چیئرمین و سابق صدر کے سی سی آئی زبیر موتی والا نے کہاکہ صوبہ سندھ کو قدرت نے بے شمار قدرتی وسائل سے مالا مال کیا ہے جن میں کوئلے کے وسیع ذخائر، ونڈ ٹنلز، بندرگاہیں اور بے پناہ گیس کے ذخائر شامل ہیں جن کے صحیح استعمال سے یہ صوبہ ملک بھر کے لیے پاور ہاوٴس بن سکتا ہے۔انہوں نے جی آئی ڈی سی کے نفاذ کا حوالہ دیتے ہوئے کہاکہ تاجروصنعتکار برادری یہ غیر منصفانہ سیس دینے پر مجبور ہے جس کو ملک کے وسیع تر مفاد میں ختم ہونا چاہیے کیونکہ جی آئی ڈی سی کے نفاذ کے نتیجے میں پاکستان کی برآمدات میں2.5ارب ڈالر کی کمی واقع ہوئی ہے۔

وائس چیئرمین بی ایم جی و سابق صدر کے سی سی آئی ہارون فاروقی نے زور دیا کہ ایف بی آر اور سندھ ریونیو بورڈ کو سروسز سیکٹر کی تشریح کے لیے ایک ساتھ بیٹھنا چاہیے۔ایف بی آر الگ تشریح دیتا ہے جبکہ ایس آر بی الگ تشریح دیتا ہے جس سے تاجربرادری الجھن میں مبتلا ہوگئے ہیں۔انہوں نے الیکٹرک انسپکٹرز کی جانب سے تاجر وصنعتکار برادری کو ہراساں کرنے پر صوبائی وزیر سے مدد طلب کی جو مالی فوائد حاصل کرنے کے لیے تاجروصنعتکار برادری کو ہراساں کرتے ہیں۔

قبل ازیں کے سی سی آئی کے صدر یونس محمد بشیر نے صوبائی وزراء کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہاکہ کراچی کی تاجروصنعتکار برادری کو مسلسل مسائل کاسامناہے اور ایس آر بی کی جانب سے انہیں ہراساں کیاجاتا ہے نیز یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ ایس آر بی کے پیدا کردہ مسائل ایف بی آر کے مسائل کے مقابلے میں زیادہ بڑے ہوتے جارہے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ کراچی قومی خزانے میں 65فیصد سے زائد ریونیو کا حصہ دار ہے جبکہ دوسرے شہر صرف ٹیکس ادا کرناہی نہیں چاہتے لہٰذا ٹیکس نادہندگان کے خلاف کارروائی کے بجائے حکومت کراچی کی تاجروصنعتکار برادری کو نچوڑنے پر تُلی ہے اور اُن کے ساتھ امتیازی سلوک جاری ہے۔

انہوں نے کہاکہ گیس، بجلی اور پانی کے بحران سمیت خستہ حال انفرا اسٹرکچر کے باعث کاروباری لاگت میں نمایاں اضافہ ہوگیاہے جس کی وجہ سے صنعتکار اپنی سرگرمیاں محدود رکھنے پر مجبور ہیں۔ اس کے نتیجے میں سندھ میں غربت اور بے روزگاری میں اضافہ ہورہاہے۔کے سی سی آئی کے سابق صدر اے کیوخلیل نے حکومت پر زور دیا کہ موجودہ ٹیکس گزاروں پر مزید بوجھ لادنے کی بجائے حکومت کو زراعت کے شعبے پر دیگر شعبوں کے برابر ٹیکس عائدکرنا چاہیے۔انہوں نے کہاکہ انڈینٹرز کے امپورٹ بزنس کو 14فیصد اضافی ٹیکس (ایس ایس ٹی) سے مشروط نہیں ہونا چاہیے جو اس سال کے بجٹ میں واپس لیا جائے۔ انھوں نے مشورہ دیا کہ کاروباری مسابقت کے قابل بنانے کے لیے صوبائی ٹیکسوں کو یکساں اور ہم آہنگ ہونا چاہیے۔

متعلقہ عنوان :