مولوی ہیبت اللہ اخونزادہ تحریک طالبان افغانستان کے نئے امیر مقرر

Mian Nadeem میاں محمد ندیم بدھ 25 مئی 2016 10:35

مولوی ہیبت اللہ اخونزادہ تحریک طالبان افغانستان کے نئے امیر مقرر

قندھار(ا ردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔25مئی۔2016ء) افغانستان میں طالبان تحریک نے ایک باضابطہ بیان میں ملا محمد اختر منصور کی امریکی ڈرون حملے میں موت کی تصدیق کرتے ہوئے ان کے نائب مولوی ہیبت اللہ اخونزادہ کو نیا رہنما مقرر کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ تحریک طالبان کی رہبری شوریٰ کی جانب سے میڈیا کو جاری ایک بیان میں تحریک کا کہنا ہے کہ ملا اختر منصور کی موت جنوبی افغانستان کے صوبہ قندھار کے ریگستان اور پاکستان کے صوبے بلوچستان کے نوشکی کے سرحدی علاقے میں ہوئی۔

مولوی ہیبت اللہ ملا اختر منصور کے نائب تھے اور شوریٰ نے بظاہر حقانی نیٹ ورک کے سراج الحق کی جگہ ہیبت اللہ کو ترجیح دی ہے۔ شوری نے ملا محمد عمر کے صاحبزادے مولوی یعقوب کو ہیبت اللہ کی جگہ نائب امیر مقرر کیا ہے۔

(جاری ہے)

ایک غیرملکی نشریاتی ادارے نے طالبان ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ دواہم راہنماﺅں ملا یعقوب اور ملا سراج الدین حقانی نے امارت سنبھالنے سے معذرت کرلی تھی جس پر ملا ہیبت اللہ کو تحریک طالبان افغانستان کا امیر منتخب کیا گیا ہے-طالبان کے بانیوں میں شمار کیے جانے والے ملا عمر کے بیٹے ملا یعقوب نے یہ عہدہ سنبھالنے سے انکار کر دیا تھا کیونکہ ان کے خیال میں وہ کم عمر ہے۔

اسی طرح سراج الدین حقانی نے بھی ذاتی وجوہات کی بنا پر اس عہدے پر براجمان ہونے سے معذرت کرلی۔ طالبان ذرائع کے مطابق ملا منصور کے نائب اور حقانی نیٹ کے آپریشنز ہیڈ سراج الدین حقانی بھی اس منصب پر فائز نہیں ہونا چاہتے تھے۔نشریاتی ادارے نے دعوی کیا ہے کہ طالبان کی سپریم کونسل اتوار کے دن سے ہنگامی ملاقات جاری رکھے ہوئے ہے۔ طالبان کی سپریم کونسل اپنی اس مشاورت کے لیے میٹنگ کے مقامات کو مسلسل تبدیل بھی کرتی رہی تاکہ ممکنہ فضائی حملے سے بچا جا سکے۔

طالبان کے نئے سربراہ کے طور پر ملا عبدالغنی برادر کا نام بھی لیا جا تا رہا ہے، جو تحریک کا نائب سربراہ ہیں۔ملا برادر کو 2010 میں پاکستان سے گرفتار کر کے کی ایک جیل میں قید کرد یا گیا تھا۔ بعدازاں اسے ستمبر 2013 میں افغان امن عمل کی کوششوں کے سلسلے میں رہا کیا گیا تھا۔ ملا ہیبت اللہ اخونزادہ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ طالبان تحریک کے آغاز کے بہت بعد اس کا حصہ بنے تھے۔

ملا ہیبت اللہ افغان طالبان کی 1994 میں قندہار سے شروع ہونے والی تحریک کے 33 ارکان کا حصہ نہیں تھے۔ شیخ الحدیث ملا ہیبت اللہ اصل میں عالمِ دین ہیں اور ان کا جنگی تجربہ کم ہے، لیکن اس وقت طالبان دھڑے بندیوں کا شکار ہیں جن کی وجہ سے ایک عالمِ دین کو سربراہ مقرر کیا گیا ہے تاکہ زیادہ لوگوں کو اعتراض نہ ہو۔ملا ہیبت اللہ طالبان کی جنگی کارروائیوں کے حق میں فتوے جاری کرتے رہے ہیں۔

وہ 2001 سے قبل افغانستان میں قائم طالبان کی حکومت میں عدالتوں کے سربراہ بھی رہے ہیں۔ملا ہیبت اللہ کو اقوامِ متحدہ کی ایک رپورٹ میں طالبان کا سابق چیف جسٹس بھی کہا گیا تھا۔ان کی عمر 40 سے 45 کے درمیان بتائی جاتی ہے اور ان کا تعلق بھی ملا منصور کے قبیلے اسحاق زئی قبیلے سے ہی بتایا گیا ہے۔اطلاعات کے مطابق ملا ہیبت اللہ نے اپنی زندگی کا زیادہ تر حصہ افغانستان میں ہی گزارا ہے اور ان کے بیرونِ ملک سفر کے بارے میں بہت کم معلومات دستیاب ہیں۔

ملا ہیبت اللہ افغانستان کے علاقے ننگرہار میں ایک مدرسہ چلاتے رہے ہیں اور طالبان انھیں اپنا استاد کہتے ہیں اور ان کی بڑے پیمانے پر عزت کی جاتی ہے۔ بظاہر ایسا نظر آ رہا ہے کہ ملا ہیبت اللہ صرف علامتی سربراہ ہوں گے اور اصل اختیارات ان کے نائبین یعنی ملا یعقوب اور طاقتور فوجی کمانڈر سراج الدین حقانی کے پاس ہوں گے۔ اپریل میں ملا یعقوب کو افغانستان کے 15 صوبوں کا فوجی کمانڈر مقرر کیا گیا تھا، اس لیے توقع یہی ہے کہ طالبان کے جنگی امور کی قیادت یہی دو نائبین کریں گے۔

مولوی ہیبت اللہ اخونزادہ تحریک طالبان افغانستان کے نئے امیر مقرر

متعلقہ عنوان :