جیکب آباد کے محکمہ روڈس میں ڈیڑھ سال کے اندر چار ارب روپوں کے ٹھیکے جاری ہونے کے باوجود کام نہ ہوسکے

اکثر کام محکمہ کے اہم عملداروں رشتیداروں، ڈرائیور اور من پسندوں کے حوالے،7رولر سرکاری رولر و پلاٹ فروخت کرنے کا پھانڈہ پھوٹنے پر محکمہ میں کھلبلی

منگل 24 مئی 2016 22:24

جیکب آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔24 مئی۔2016ء) جیکب آباد کے محکمہ روڈس میں ڈیڈھ سال کے اندر چار ارب روپوں کے ٹھیکے جاری ہونے کے باوجود کام نہ ہوسکے، اکثر کام محکمہ کے اہم عملداروں رشتیداروں، ڈرائیور اور من پسندوں کے حوالے،7رولر سرکاری رولر و پلاٹ فروخت کرنے کا پھانڈہ پھوٹنے پر محکمہ میں کھلبلی،جھوٹہ رکارڈ بنانے کی تیاریاں، تفصیلات کے مطابق: جیکب آباد کے محکمہ روڈس میں گزشتہ ڈیڈھ سال کے اندر روڈوں کی تعمیر و مرمت کے لیے چار ارب روپوں کی ٹھیکے دیے گئے، جس میں ضلع ہیڈ کوارٹر جیکب آباد،تحصیل ٹھل اور تحصیل گڑہی خیرو سمیت کہیں بھی کام نہیں کیے گئے۔

اس ضمن میں محکمہ کے معتبر ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ گزشتہ مالی سال 2014-15میں اس وقت کے انجینئر فضل محمد منگی اور ٹینڈر کلرک سید اعجاز شاہ نے ملی بھگت کرتے ہوئے اپنے من پسند ٹھیکیداروں سے مبینہ طور 5فیصد کمیشن وصول کرنے کے بعد ورک آرڈر جاری کر کے کروڑوں روپوں کی کرپشن کی گئی۔

(جاری ہے)

جبکہ کروڑوں روپوں کی اسکیموں پر صرف 25ہزار سے2لاکھ روپوں تک پیسے رکھے گئے تھے اور وہ بھی بااثر ٹھیکیدار دفتری عملے سے ملی بھگت کر کے نکلوا کر کام کیے بغیر ہڑپ کر گئے۔

گزشتہ برس کے کام ابھی التوا کے شکار تھے تو انجینئر محمد علی ڈیپر اور ٹینڈر کلرک اعجاز شاہ نے پپرا قانون کے خلاف 49کاموں کی نئی این آئی ٹی جاری کر کے رات کی تاریکی میں بااثر اور من پسند ٹھیکیداروں کو کام دیے گئے جن پر رقم تو نکلوائی جا چکی ہے مگر تاحال کام شروع نہیں ہو سکا۔ ذرائع کے مطابق ضلع بھر میں سینکڑوں ایسے روڈبھی موجود ہیں جو کاغذوں میں مکمل دکھا کر رقم ہڑپ کی گئی ہے جبکہ ٹینڈر کلرک اعجاز شاہ نے انجینئر محمد علی ڈیپر کی مدد سے اپنے بھائی ممتاز شاہ اور ڈرائیور کے نام پر بھی سینکڑوں ٹھیکے لے رکھے ہیں جن بھی کام کروانے کے بغیر رقم نکلوا کر حصہ پتی کرنے کے بعد ہڑپ کر دی گئی ہے ممتاز شاہ کے جیکب آباد،ٹھل اور گڑہی خیروکے مختلف علاقوں میں ٹھیکے موجود ہیں اور چند ایک ٹھیکے مکمل کرنے کے سوائے باقی تمام کا م التوا کے شکار ہیں اور علاقہ مکین روڈ نہ بننے کے باعث شدید مشکلات کا شکار ہیں ۔

ذرائع سے یہ بھی معلو م ہوا ہے کہ انجینئر محمد علی ڈیپر اور ٹینڈر کلرک سید اعجاز شاہ کی جانب سے محکمہ روڈس کے سرکاری ورکشاپ کے پلاٹ اور 7رولر فروخت کرنے کی خبریں نشر ہونے کے بعد اب محکمہ میں کھلبلی مچ گئی ہے اور بغیر واک کے فروخت کیے گئے رولرکا جعلی کاغذات بنانے کے لیے قانونی ماہرین سے رابطے کیے جارہے ہیں جبکہ انکوائریوں سے بچنے کے لیے محکمہ روڈس کے عملدار سیاستدانوں کے بنگلوں کے چکر بھی کاٹ رہے ہیں ۔

جبکہ نیب اور ایف آئی اے کے چھاپوں سے بچنے کے لیے اینٹی کرپشن سے ملی بھگت کرتے ہوئے مصنوعی چھاپے مروا کر تمام رکارڈ اینٹی کرپشن کے پاس محفوظ کروالیا گیا ہے۔محکمہ روڈس میں چند سالوں کے اندر ہونے والے اربوں روپوں کی کرپشن پر شہر کے سیاسی،سماجی و مذہبی تنظیمیں بھی برہم ہیں۔سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ محکمہ روڈس کے عملداروں نے سرکاری پلاٹ اور رولر فروخت کر کے عوام کے پیسوں کو دونوں ہاتھوں سے لوٹا ہے ان کرپشن کے کھلاڑیوں کا وقت ختم ہو چکا ہے کرپٹ افسران کو گرفتار کر کے حاضر سروس جج صاحبان سے تحقیقات کروائی جائے۔

متعلقہ عنوان :