پبلک اکاؤنٹس کمیٹی فیڈرل ایمپلائز بنوولنٹ فنڈ میں اربوں روپے کی بے قاعدگی پر نیب اور اسٹیبلشمنٹ ڈویژن پر اظہار برہمی

کمیٹی نے 2ارب 76کروڑروپے سے زائد کی خلاف ضابطہ سرمایہ کاری پر نیب سے رپورٹ طلب کرلی نیب سے پہلے ادارے اگر محکمانہ تحقیقات کریں تو نیب کو کارروائی کرنے میں آسانی ہوتی ہے، عارف علوی

منگل 24 مئی 2016 21:20

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔24 مئی۔2016ء) قومی اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی جانب سے فیڈرل ایمپلائز بنوولنٹ فنڈ میں اربوں روپے کی بے قاعدگی پر نیب اور اسٹیبلشمنٹ ڈویژن پر برہمی کا اظہار،کمیٹی نے کہا کہ ہمیں بے وقوف بنایا جارہاہے ، نیب نے دوہرا معیار اختیارکیاہوا ہے جو کہ تشویش ناک ہے،کمیٹی نے سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ ڈویژن اور منیجنگ ڈائریکٹر وفیڈرل ایمپلائز بینوولینٹ فنڈ اینڈ گروپ انشورنس شرجیل خان کی جانب سے کمیٹی کے سامنے غلط بیانی پر بھی برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ادارے یہ سمجھتے ہیں کہ ہمیں کچھ بھی پتہ نہیں ہے،ایم ڈی ایف ای بی ایف غلط بیانی کرتاہے اور سیکرٹری تائید کرتا ہے،کمیٹی نے 2ارب 76کروڑروپے سے زائد کی خلاف ضابطہ سرمایہ کاری کے حوالے سے نیب سے رپورٹ طلب کرلی،کمیٹی رکن ڈاکٹر عارف علوی نے کہا کہ نیب سے پہلے ادارے اگر محکمانہ تحقیقات کریں تو نیب کو کارروائی کرنے میں آسانی ہوتی ہے،کمیٹی نے موقف اختیار کیا کہ ملازمین کی فلاح کے فنڈ میں سے عیاشیاں کی جارہی ہیں،بیواؤں اور یتیموں کا پیسہ بے دریغ استعمال کیا جارہاہے،کمیٹی نے خلاف قاعدہ ہاؤس رینٹ الاؤنس کی رقم بڑھانے کا معاملہ خزانہ ڈویژن کو بھیج دیا۔

(جاری ہے)

وزرات کیڈ کے آڈٹ اعتراضات میں انکشاف کیا گیا کہ 2کروڑ سے زائد رقم لیپس ہونے کے ڈر سے بینک میں رکھی گئی تھی، وزرات کو رقم خرچ کرنے کیلئے دی گئی تھی،سیکرٹری کیڈ حسن اقبال نے کہا کہ اس معاملے کی تحقیقات ہورہی ہے،کمیٹی نے وزرات کیڈ کو ڈیلی ویجزاور عارضی بنیادوں پر تعینات اساتذہ کو مستقل کرنے کی بھی ہدایت کردی۔قومی اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا اجلاس چیئرمین کمیٹی خورشید شاہ کی صدارت میں ہوا،اجلاس میں آڈٹ حکام کی جانب سے اسٹیبلشمنٹ ڈویژن اور وزرات کیڈ کے مالی 2012-13کے آڈٹ اعتراضات اور گرانٹس پیش کیں،کمیٹی نے گرانٹس کو نمٹانے کے ساتھ ساتھ اکثر اعتراضات بھی نمٹا دیے۔

اجلاس میں آڈٹ حکام نے کمیٹی کو بتایا کہ وفاقی ملازمین کی فلاح کے فنڈ کے دو ارب روپے سے زائد کی رقم سے ایسی کمپنیوں میں سرمایہ کاری کی گئی جو کہ سیکیورٹی ایکسچینج کمیشن اور بینک دولت پاکستان کی سرمایہ کاری کرنے والی کمپنیوں یک فہرست میں نہیں ہے اور قواعد کی خلاف ورزی کی گئی ہے جس ایم ڈی ایف ای بی ایف شرجیل خان نے انکشاف کیا کہ 2 ارب روپے سے زائد رقم ڈوب چکی ہے، 2009 میں مختلف گیس اور کھاد بنانے والی کمپنیوں میں سرمایہ کاری کی گئی تھی، قدرتی گیس کے بحران کے باعث نقصان ہوا، بورڈز نے ٹی او آرز منظور کئے تھے جس کو مد نظر رکھتے ہوئے سرمایہ کاری کی گئی، سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ نے کمیٹی کو بتایا کہ اس فنڈ سے دوسرے اداروں میں سرمایہ کاری کا فیصلہ بورڈ کی اجازت سے کیا جاتا ہے اور یہ ایک قانونی باڈی ہے اور خزانہ ڈویژن نے ٹی او آرز کی تصدیق کی ہے جس پر خزانہ ڈویژن نے کمیٹی کے سامنے برملا کہا کہ خزانہ ڈویژن نے کارپوریٹ اداروں کیلئے گائیڈ لائن بنائی ہے اور جو ادارے ایس ای سی پی اور اسٹیٹ بینک سے تصدیق شدہ ہیں صرف ان میں سرمایہ کاری کی جا سکتی ہے جس پرکمیٹی نے کہا کہ 22 ارب میں سے دو ارب روپے کی سرمایہ کاری پر آڈٹ حکام نے اعتراض اٹھایا ہے، کیا جو فہرست اسٹیٹ بینک نے بنائی ہے کیا اس کے مطابق سرمایہ کاری کی گئی ہے؟ یہ عوام کا پیسہ ہے۔

کمیٹی رکن ڈاکٹر عارف علوی نے کہا کہ اس بات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ کسی نے کمیشن کیلئے اتنی بھاری رقم کی جان بوجھ کر سرمایہ کاری کرائی، نیب سے پہلے اس کیس کی محکمانہ انکوائری کیوں نہیں کی گئی، جس پر سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ نے بتایا کہ محکمانہ تحقیقات کی گئی تھیں جس میں بے ضاطگی کا امکان نظر آنے پر کیس نیب کو بھیج دیا گیا ہے، جس پر کمیٹی نے کہا کہ ہمیں بے وقوف سمجھا جا رہا ہے، اور ہمارے ساتھ ایک گھنٹہ تقریر کر کے مذاق کیا جا رہا ہے، ایم ڈی ایف ای پی ایف کی ہر بات کی تائید کی جا رہی ہے، سیکرٹری تائید کر رہے ہیں ، نیب نے 2 سال سے اس کی تحقیقات کیوں نہیں کیں؟ نیب نے دوہرا معیار رکھا ہے جس کی وجہ سے مسائل جنم لے رہے ہیں، کمیٹی نے خلاف ضابطہ سرمایہ کاری کی رپورٹ نیب سے طلب کرلی، دوسرے آڈٹ اعتراض میں آڈٹ حکام نے کمیٹی کو بتایا کہ خلاف ضابطہ اور بغیر اختیار کے ملازمین کے گھر کے کرائے کی رقم 45 سے 90فیصد کی گئی، جس پر کمیٹی نے تشویش کا اظہار کیا اور کہا کہ غریب بیواؤں اور یتیموں کے پیسے سے شاہ خرچیاں کی جا رہی ہیں، کیا ہمیں انسانیت یہی سکھاتی ہے کہ غریبوں کے پیسوں کو بے ذریغ خرچ کیا جائے ، پیسہ غریبوں کی امانت ہے اور امانت دار ہی خیات کرے تو پھر عوام کا اعتبار ہی اٹھ جائے گا، اگر خزانہ ڈویژن نے یہ معاملہ نمٹایا تو کمیٹی اس کو نہیں مانے گی کیونکہ پیسہ براہ راست ملازمین کی تنخواہ سے کاٹا جا رہا ہے،سیکرٹری کیڈنے پی اے سی اجلاس میں کیڈ کے ادارے ہیومن آرگنز ٹرانسپلانٹ اتھارٹی کے سربراہ کے انوکھے کام کا انکشاف کیا ،سربراہ ڈاکٹر قاضی عبدالصبور نے ادارے کے دفتر کے لیئے اپنا گھر ہی کرائے پر دے دیا،ڈاکٹر صاحب نے خود دو سال کا ایڈوانس کرایہ منظور کیا اور خود ہی بطور مالک مکان وصول کر لیا،مزید کام یہ دکھایا کہ پانچ ماہ بعد مکان خالی کروا لیا مگر باقی مہینوں کا کرایہ واپس نہیں کیا،یہ جرم کیا گیا ہے کیس ایف آئی اے کو بجھوا رہے ہیں پی اے سی نے ایف آئی اے کی تحقیقات تک آڈٹ اعتراض پر غور موخر کر دیا،شیخ رشید نے پی اے سی میں پمز کے برن سنٹر کا معاملہ اٹھاتے ہوئے کہا کہ برن سنٹر میں بہت کم بیڈز ہیں مریضوں کی تعداد ڈبل ٹرپل رہتی ہے حادثات میں جلنے والے ایک ایک بیڈ پر تین تین پڑے ہوتے ہیں چیئرمین کمیٹی خورشید شاہ نے کہابدقسمتی ہے ملک میں ہیومن ڈویلپمنٹ پر توجہ نہیں دس بارہ سالوں میں ملک میں اس طرح نئے ہسپتال نہیں بنائے گئے جس کی ضرورت ہے برن سنٹر کی استعداد بڑھانے کے لئیے پی اے سی کا وزیراعظم کو لکھنے کا فیصلہ کیا ،کمیٹی نے پمز میں موبائل ٹاور کی تنصیب کا معاہدہ غیر قانونی قرار دیتے ہوئے ٹاور فوری ہٹانے کی ہدایت کر دی ،ہوسٹل میں مقیم ڈاکٹرز سے ایئر کنڈیشنڈ کی مد میں ایک ہزار روپے ماہانہ کے حساب سے بقایا جات تنخواہ سے وصول کرنے کی ہدایت کے ساتھ ساتھ ڈیلی ویجز اور کنٹریکٹ اساتذہ کومستقل کرنے کی ہدایت کر دی،ڈیلی ویجز پر تعینات استاد گیارہ ہزار روپے میں کیا پڑھائے گا،میکنزم بنائیں کہ ڈیلی ویجز اور کنٹریکٹ ملازمین کو ریگولر کرنے میں پبلک سروس کمیشن کی شرط سے چھوٹ ملے،پی اے سی کی ہدایات پر عمل کریں گے سیکرٹری کیڈ کی جانب سے کمیٹی کو یقین دہانی کرائی گئی ۔

متعلقہ عنوان :