محمد ولی نے بسم اللہ ٹیرس کا فلیٹ طالبان کارندے سے خریدا

حملے سے قبل محمد ولی اور ڈرائیور نے کوچکی کے ایک ہوٹل سے کھانا کھایا تھا ، نجی ٹی وی کی رپورٹ

منگل 24 مئی 2016 14:05

کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔24 مئی۔2016ء) امریکی ڈرون حملے میں ہلاک ہونیوالے محمد ولی نے کراچی میں بسم اللہ ٹیرس کا فلیٹ طالبان کارندے جبار چریا سے خریدا اور کرائے پر دے دیا۔ نجی ٹی وی کے مطابق امریکی ڈرون کا نشانہ بننے والی گاڑی پر سوار محمد ولی اور ڈرائیور نے حملے سے قبل کوچکی کے ایک ہوٹل سے کھانا کھایا تھا۔ محمد ولی یا ملا اختر منصور؟ کوچکی میں مارا جانے والا کون تھا ؟ وقت کے ساتھ ساتھ گتھیاں سلجھیں تو کئی سوال کھڑے ہو گئے۔

سیکورٹی ذرائع کے مطابق محمد ولی نے کراچی بسم اللہ ٹیرس کا فلیٹ طالبان کارندے جبار چریا سے خریدا اور محمد شائق کو کرائے پر دے دیا۔ جبار چریا کو حراست میں لے کر نامعلوم مقام پر منتقل کر دیا گیا ہے، کرائے دار محمد شائق کا کھوج بھی لگا لیاگیا۔

(جاری ہے)

پولیس نے فلیٹ چوکیدار اور سٹیٹ ایجنٹ کے بیانات قلم بند کر لئے۔ سٹیٹ ایجنٹ یاسر عرفات نے بتایا محمد ولی پہلے فلیٹ نمبر 16 بی میں رہتا تھا پھر کرائے پر دے دیا۔

حاصل کرائے نامے میں محمد ولی نے پتہ اکلوزئی کالونی حاجی چابی روڈ کوئٹہ لکھوایا جبکہ حملے کی جگہ سے ملنے والے شناختی کارڈ پر قلعہ عبداللہ کا ایڈریس ہے۔ ادھر محمد ولی کا شناختی کارڈ کوئٹہ سے بھاری رشوت کے عوض بنوانے کا انکشاف بھی ہوا ہے جس نے نادرا کی کارکردگی پر سوال اٹھا دیئے ہیں۔ محمد ولی کا نام میونسپل کمیٹی چمن کی ووٹرز لسٹ میں بھی درج ہے جس نے شناخت کو مزید الجھا دیا ہے۔

امریکی میڈیا یہ دعویٰ کر رہا ہے کہ محمد ولی کے نام سے شناخت ہونے والے طالبان رہنما کی لاش بھتیجے نے وصول کرلی ہے۔ دوسری طرف یہ حقائق بھی سامنے آئے ہیں کہ محمد ولی اور ڈرائیور نے حملے سے قبل کوچکی کے ایک ہوٹل سے کھانا کھایا تھا۔ حملے کے مقام سے 3 کلومیٹر کے فاصلے پر نوشکی کے علاقے کوچکی میں یہ ہے حاجی رحیم خان ہوٹل جہاں محمد ولی اور ڈرائیور گاڑی میں آئے۔

دونوں نے بکرے کے گوشت کا آرڈر دیا ، کھانا کھایا اور بل دیکر روانہ ہوگئے۔ دونوں افراد نے بکرے کا گوشت کھایا اور کھانے کا بل 400 روپے وصول کیا۔ ہوٹل ویٹر نے بتایا کہ دوسرے مسافروں کی طرح ڈرون حملے کا نشانہ بننے والی گاڑی کے مسافروں کو کھانا کھلایا ، اس کے علاوہ کوئی پہچان نہیں تھی۔ خیال کیا جا رہا ہے کہ حملے سے پہلے یہی ہوٹل دونوں کار سواروں کا آخری پڑاوٴ تھا۔

متعلقہ عنوان :