گزشتہ تین برسوں میں ملک میں آٹو صنعت میں قابل ذکر نشوونماء دیکھنے میں آئی ہے،عبدالوحید خان

پیر 23 مئی 2016 17:47

کراچی(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔23 مئی۔2016ء) وزارت برائے تحفظ قومی خوراک اور ریسرچ (MNFS&R)ایک تجویز پر کام کر رہی ہے جس کے تحت کسٹم ڈیوٹی کو زیرو فی صد تک کم کرتے ہوئے تکمیل شدہ(CBU)زرعی ٹریکٹرز کی درآمد کی اجازت دے دی جائے گی۔ وزارت نے اپنی اس تجویز کے حق میں بے بنیاد اور خصوصی قسم کے دلائل بھی تیار کر لئے ہیں جب کہ اس خبر سے مقامی سطح پر ٹریکٹرز اور اس کے پرزے بنانے والوں میں تشویش کی شدید لہر دوڑ گئی ہے۔

پاکستان آٹوموٹیو مینوفیکچرنگ ایسوی ایشن (PAMA) نے اس تجویز پر سخت تنقید کرتے ہوئے اسے صنعت کے لئے نقصان دہ اور تباہ کن قرار دیا ہے۔ایسوسی ایشن کے ڈائریکٹر جنرل عبدالوحید خان نے کہا ہے کہ گزشتہ تین برسوں میں ملک میں آٹو صنعت میں قابل ذکر نشوونماء دیکھنے میں آئی ہے، سوائے زرعی ٹریکٹرز کے جو گزشتہ پانچ برسوں سے بحران کا مسلسل شکار چلی آ رہی ہے۔

(جاری ہے)

رواں مالی کے پہلے نو ما ہ کے دوران (9MFY16) اس کی کل فروخت کا حجم 22169 یونٹس ہے جو گزشتہ پندرہ برسوں میں کم ترین ہے۔ ان اعدادوشمار سے ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ اپنی کل سالانہ پیداواری صلاحیت 91,000 یونٹس کے ساتھ ملک میں نصب شدہ 68فیصد پیدا واری صلاحیت بے کار پڑی ہے۔انہوں نے کہا کہ اتنی بڑی پیداواری صلاحیت کا یوں بے کار پڑے رہنا دراصل حکومت کے خود پیدا کردہ حالات ہیں۔

حکومت نے پہلے عام شرح پر سیلز ٹیکس نافذ کیا لیکن صنعت اس 16فیصد اضافی سیلز ٹیکس کے بھاری اثرات کو برداشت نہ کر سکی اور تباہی کے دہانے پر پہنچ گئی، اس کے اثرات کے تحت2011میں پیداواری یونٹس کی تعداد 70770یونٹس سے 2012 میں کم ہو کر 48120پیدواری یونٹس ہو گئی ۔ بعد ازاں حکومت نے نقصان پر قابو پانے کے اقدامات کے طور پر سیلز ٹیکس کی شرح کم کر دی، جس کے طفیل پیداوار میں ہونے والا مزید نقصان رک گیا لیکن اس کی صنعت کو واپس اپنی اصلی حالت میں لانے میں تاحال کوئی خاص مدد نہیں ملی۔

رواں سال کے لئے، حکومت نے پیداواری میں اضافے کی کوشش میں سبسیڈی اسکیموں کا اعلان کیا لیکن یہ اسکیمیں تاحال سورج کی کرن نہیں دیکھ پائیں اور شاید انہیں لاگو کرنے سے پہلے ہی ختم کر دیا گیا ہے کیوں کہ رواں مالی سال اب اختتام کے دہانے پر ہے۔ڈائریکٹر جنرل نے کہا کہ ٹریکٹر کی صنعت کا شمار ملک کی بڑی صنعتوں میں ہوتا ہے۔ اس صنعت نے 92فیصد تک مقامی حیثیت حاصل کر لی ہے، جو کہ یورپی اور امریکی برانڈ ناموں کے حوالے سے کافی ہے؛ یہ دنیا بھر میں سستے ہیں، یہاں تک چین کی نسبت یہ بہت کم قیمت ہیں۔

حال ہی میں، مقامی صنعت نے یورپ سمیت سمندر پار مارکیٹ تلاش کی ہے، جہاں CBUs اور پرزے برآمد کئے جا سکتے ہیں اور یہ صنعت عالمی ویلیو چین میں شامل ہونے کے قریب ہے۔ یہ بڑے دکھ کی بات ہے کہ جب کہ ہم نے بہت کچھ اپنے طور پر ہی کر لیا ہے، پھر بھی حکومت غیر ملکی کمپنیوں کا فائد ہ تلاش کر رہی ہے۔ڈائریکٹر جنرل نے کہا کہ’’ MNFS&R کی تجویزاس صنعت کے لئے ایک آفت سے کم نہیں ہوگی جو پہلے ہی بحران کا شکار ہے؛ ہزاروں افراد کی ملازمت اور ایک بڑی بیرونی اور مقامی سرمایہ کاری خطرے میں پڑ جائے گی ۔

‘‘انہوں نے کہا کہ ’’MNFS&R صنعت کے افسوس ناک حالات سے اچھی طرح با خبر ہے اور اس بات کو تسلیم کرتی ہے کہ اسے فوری طور پر امدادی اقدامات فراہم کرنے کی ضرورت ہے پھر بھی نامعلوم وجوہات کی بنا پر CBU ٹریکٹرز کی درآمد جیسی بے تکی اسکیم جاری کرنے کے درپے نظر آتی ہے جس کے دور رس ایسے نتائج نکل سکتے ہیں جو ٹریکٹرز کو کسانوں کی پہنچ سے بہت دور کر دیں گے۔

‘‘انہوں نے کہا کہ ٹریکٹرز کی درآمد اور وہ بھی ڈیوٹی کے بغیر ایک حیران کن منظر نامہ ہے، جب کہ ان کی فروخت صنعت کی پیداواری استعداد سے کہیں کم ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ ’’فارم میکانائزیشن کی جانب اوپر تلے آنی والی حکومتوں کی غفلت کے ملک اور اس کی زراعت پر تباہ کن اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ یہ حکمت عملی قطعی غیر منطقی ہے کہ ٹریکٹرز پر زیرو درآمدی ڈیوٹی لگائی جائے اور یہ سہولت زرعی مشینری کے لئے لاگو نہ کی جائے جو کاشت ، بوائی اور فصلوں کو کاٹنے کے لئے اور اس کے ساتھ ساتھ پیداوار کو اسٹور کرنے اور آب پاشی کے لئے استعمال ہوتی ہے۔ ایسی مشینری کو ٹیکس فری کرنا زیادہ مناسب قدم ہوگا۔‘‘

متعلقہ عنوان :