کراچی ڈویژن کی 900221ایکڑ زمین میں سے 681000 ایکڑ زمین کا ہنگامی بنیادوں پر سرویے شروع کردیا گیا

صوبہ سندھ میں کل 6000دیہہ ہیں جن میں سے 4000دیہوں کا ریکارڈ کمپیوٹرائز ہو چکا ہے، ذوالفقار شاہ

جمعرات 19 مئی 2016 22:50

کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔19 مئی۔2016ء) کراچی ڈویژن 900221ایکڑ زمین پر مشتمل ہے جس میں سے 60,000ایکڑ زمین پر وفاقی و صوبائی حکومت کے مختلف اداروں اور ہاؤسنگ اتھارٹیز نے غیر قانونی قبضہ کیا ہوا ہے ۔ کیونکہ 681000ایکڑ زمین نا کلاس کی ہے جس کے لئے ہنگامی بنیادوں پر سروے کا کام شروع کیا گیا ہے۔ یہ بات وزیراعلیٰ ہاؤس میں وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ کی سربراہی میں منعقد کیئے گئے اجلاس میں بتائی گئی۔

اجلاس میں وزیراعلیٰ سندھ کے پرنسپل سیکریٹری علم الدین بلو اور میمبربور ڈ آف رونیو سید ذوالفقار شاہ نے شرکت کی ۔وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ نے کہا کہ سپریم کورٹ آف پاکستان نے زمین کے ریکارڈ کی کمپیوٹرائزیشن کے لئے واضح ہدایات کی تھی اسکے لئے بور ڈ آف رونیو نے اب تک کیا کیا ہے۔

(جاری ہے)

اس پر میمبر بور ڈ آف رونیو نے کہا کہ سپریم کورٹ آف پاکستان نے شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے وقت جلائے گئے مختلف دیہوں کے ریکارڈ کی تحصیل کی سطح تک تصدیق کے احکامات دیئے تھے جس کے لئے ہم نے جامشورو، مٹیاری اور ٹنڈو الہیار کی تین تحصیلوں میں تصدیق کے کام کا آغاز کر دیا ہے ۔

پریزینٹیشن کے ذریعے بریفینگ دیتے ہوئے ذوالفقار شاہ نے اجلاس کو بتایا کہ صوبہ سندھ میں کل 6000دیہہ ہیں جن میں سے 4000دیہوں کا ریکارڈ کمپیوٹرائز ہو چکا ہے ۔ شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے موقع پر 870دیہوں کو ریکارڈ جلا دیا گیا تھا اور اب تک بورڈ آف رونیونے 520دیہوں کا ریکارڈ واپس حاصل کر کے کمپیوٹرائز کر لیا ہے جبکہ بقایا 350دیہوں پر کام جاری ہے ۔

وزیراعلیٰ سندھ کی طرف سے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں بورڈ آف رونیوکے رکن سید ذوالفقار علی شاہ نے بتایا کہ کراچی ڈویژن 900221ایکڑ سے زائد ز مین پر مشتمل ہے جس میں سے 681000 ایکڑ نا کلاس زمین ہے جس کا کبھی سروے نہیں کرایا گیا جبکہ 641406ایکڑ ز سروے شدہ زمین ہے ۔ انہوں نے مزید بتایا کہ غیر قانونی قبضہ ہمیشہ غیر سروے شدہ زمینوں پر ہی ہوتا ہے۔

اوریہی وجہ ہے کہ 60,000ایکڑ پر وفاقی و صوبائی حکومت کے مختلف اداروں اور ہاؤسنگ اتھارٹیز نے غیر قانونی قبضہ کیا ہوا ہے جن میں ملیر ڈولیپمنٹ اتھارٹی ، لیاری ڈولیپمنٹ اتھارٹی ، کراچی پورٹ ٹرسٹ اور دیگر ہاؤسنگ اتھار ٹیز شامل ہیں۔ وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ کی جانب سے پوچھے گئے ایک اور سوال کے جواب میں میمبر بورڈ آف رونیو نے بتایا کہ 6000سرکاری ایکڑ زمین پر خانگی افراد کا غیر قانونی قبضہ ہے جبکہ 60000ایکڑ سرکاری زمین پر سرکاری اداروں نے قبضہ کیا ہوا ہے ۔

وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ نے بورڈ آف رونیوکو ہدایت کی کہ وہ سروے کا کام تیزی سے مکمل کریں تاکہ غیر قانونی قبضے سے سرکاری زمین کو خالی کرایا جائے ۔ انہوں نے واضح طور پر کہا کہ میں کسی شخص کو بھی سندھ حکومت کی ایک انچ زمین پر بھی غیر قانونی قبضے کی ہر گز اجازت نہیں دونگا۔ میمبر بورڈ آف رونیو سید ذوالفقار شاہ نے کہا کہ کمپیوٹرائزیشن ریکارڈ کی تصدیق تپیدار اور مختیار کار کے بعد اسسٹنٹ کمشنر کی طر ف سے کی گئی ہے کیونکہ تصدیق اور کمپیوٹرائز یشن کرنے کا یہی سب سے زیادہ محفوظ عمل ہے ۔

وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ سپریم کورٹ کا خیال ہے کہ ریکارڈ میں کچھ جعلی انٹریاں بھی کی گئی ہیں اس پر ذوالفقار شاہ نے بتایا کہ کھاتیداروں نے پورے سندھ میں بورڈ آف رونیو کے 27سروس سینٹر سے اپنے حقوق کے ریکارڈ کی 6000 سرٹیفائیڈ نقل حاصل کیں ہیں اور اب تک جعلی ریکارڈ کی ایک بھی شکایت موصول نہیں ہوئی۔ ہم انکے حقوق کے ریکارڈ کے محافظ ہیں اور اس ریکارڈ کو اسکی اصل حالت میں اور غلطیوں سے پاک رکھنے کے لئے ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں انہوں نے وزیراعلیٰ سندھ کو یقین دہانی کرائی کہ ریکارڈ میں کسی بھی صورت کوئی ایک بھی جعلی انٹری برداشت نہیں کی جائیگی ۔

لیکن کمپیوٹر کے نظام میں چندایک چھوٹی خرابیا ں آ جاتی ہیں جن کو دور کیا جاسکتا ہے ۔ انہوں نے مزید بتایا کہ انہوں نے دیہوں کے ہزاروں نقشوں کو بھی کمپیوٹرائز کر لیا ہے جن میں سروے نمبر ، زمین کا تفصیلی نقشہ ، علاقہ اور مالکان کی تفصیل بھی شامل ہے ہم انکو بہت جلد لانچ کرنے والے ہیں کیونکہ کچھ نقشے مسخ شدہ تھے اسی لئے اس مرحلے میں زیادہ وقت لگ گیا ہے ۔

اجلاس کے دوران انہوں نے اپنے لیپ ٹاپ پر وزیراعلیٰ سندھ کو کمپیوٹرائزیشن سسٹم کی مختلف اپلیکشن دکھائی جن میں خیرپور میں فیض محل ، دولھہ دریا خان کا مزار ، لاڑکانہ کی گجن پور دیہہ اور دیگر مقامات کو وزیراعلیٰ سندھ نے دیکھا اور بورڈ آف رونیو کے کمپیوٹرائزیشن کے کام پر اطمینان کا اظہار کیا ۔ انہوں نے بورڈ آف رونیوکو واضح طور پر حکم دیا کہ وہ کمپیوٹرائزشن کے کام کے حوالے سے سپریم کورٹ کی ہدایات پر عملدرآمد کریں۔

متعلقہ عنوان :