سینیٹ قائمہ کمیٹی برائے سائنس و ٹیکنالوجی کا پی ای سی کی کارکردگی ،انجینئرنگ کے شعبہ کے فروغ کیلئے اٹھائے گئے اقدامات اورسابقہ اجلاسوں میں دی گئی سفارشات پر عمل درآمد کے معاملات کا تفصیل سے جائزہ

جمعرات 19 مئی 2016 22:41

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔19 مئی۔2016ء) سینیٹ قائمہ کمیٹی برائے سائنس و ٹیکنالوجی کا اجلاس چیئرمین کمیٹی سینیٹر عثمان سیف اﷲ خان کی زیر صدارت پارلیمنٹ لاجز کے کانفرنس ہال میں منعقد ہوئی۔قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں پاکستان انجینئرنگ کونسل کی کارکردگی ،کام کا طریقہ کار،انجینئرنگ کے شعبہ کے فروغ کیلئے اٹھائے گئے اقدامات کے علاوہ قائمہ کمیٹی کے سابقہ اجلاسوں میں دی گئی سفارشات پر عمل درآمد کے معاملات کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا۔

جمعرات کوقائمہ کمیٹی کے اجلاس میں سینیٹرزحاجی مومن خان آفریدی،لیفٹیننٹ جنرل (ر) عبد القیوم،میان محمد عتیق شیخ اور محمد اعظم خان سواتی کے علاوہ سیکرٹری سائنس و ٹیکنالوجی فضل عباس میکن،سینئر جوائنٹ سیکرٹری سائنس و ٹیکنا لوجی محمد نعیم،ریکٹر کامسیٹس یونیورسٹی ڈاکٹر ایس ایم جونیئر زیدی،چیئرمین پی ای سی جاوید صالد قریشی،ریکٹر نسٹ،ڈی جی پی این اے سی ڈی جی پی ای آرای ٹی کے علاوہ دیگر اعلی حکام نے شرکت کی۔

(جاری ہے)

چیئرمین پاکستان انجینئرنگ کونسل نے قائمہ کمیٹی کو بتایا کہ ادارہ 1976میں قائم ہو ا۔یہ ایپکس باڈی جو انجینئرنگ کے فروغ اور ڈسپلن کی تعلیم کو ریگولیٹ کرتی ہے اور انجینئرنگ پریکٹس کے فروغ کیلئے اقدمات اٹھاتی ہے۔ادارے کا بنیادی کام اانجینئرنگ پروگرام ترتیب دینا ہے۔ انجینئرز ،کنسلٹنٹ فرمز اور ٹھیکیداروں کی رجسٹریشن کرتا ہے یہ ادارہ پاکستان کی تھنک ٹینک کا کام بھی دیتا ہے اور انجینئرنگ فورم اور وفاقی حکومت کے درمیان پل کا کام بھی کرتا ہے ۔

ادارے کی گورننگ باڈی ہے جسکے65ممبرا ن ہیں او رممبران کی تقرری تین سال کیلئے ہوتی ہے ۔چیئرمین چیف ایگزیکٹو ہے جنکا پاکستان کے انجینئرز ڈائریکٹ انتخاب کرتے ہیں۔ادارے نے اب تک1.12لاکھ انجینئرز رجسٹرڈ کیے ہیں اور90ہزار پروفیشنل رجسٹرڈ کئے ہیں جبکہ550کنسلٹنگ انجینئرز اور 23500کنسٹرکٹر رجسٹرڈ کئے ہیں۔ادارے کے ساتھ 200یونیورسٹیوں نے الحاق کر رکھا ہے جہاں345پروگرام کرائے جاتے ہیں ۔

مختلف 29ڈسپلنزہیں اور ادارے نے بین الا قوامی اداروں سے بھی الحاق کر کھا ہے ۔پی ای سی کو اپنا نصاب مرتب کرنے کی اجازت دی جائے ادارے نے200یونیورسٹیوں کے ہیڈز کے ساتھ مشاورت کے بعد تجاویز ترتیب دے رکھی ہیں اور ایک طرح کے ٹیسٹ چاروں صوبوں میں داخلے کے لئے لئے جاتے ہیں۔انجینئرنگ کے فروغ کیلئے متعدد اقدامات اٹھائے گئے ہیں۔سیمینارز،تربیتی پروگرام او رورکشاپش کا انعقاد بھی کیا جاتاہے۔

اب انجینئرز کی رجسٹریشن آن لائن کرائی جاتی ہے جس سے مافیا کو 160ملین کا نقصان پہنچا ہے ۔اور30جون تک ٹھیکیداروں کی رجسٹریشن بھی آن لائن کردی جائیگی۔اداروں نے پاکستان بلڈنگ کوڈسسمیک اور انرجی ترتیب دیئے ہیں اور پاکستان الیکٹریک اینڈ ٹیلی کاکام سیفٹی کوڈ بھی2014میں ترتیب دے دیا تھا اور فائر سیفٹی بلڈنگ کوڈ بھی تیار کئے جا رہے ہیں۔آن لائن رجسٹریشن کی بدولت6ہزار انجینئرز کو نوکری بھی دلوائی ہے ۔

چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ ادارے نے ایک سولر سسٹم لگایا تھا جس کے بارے میں متضاد خبریں آرہی ہیں جس کی تفصیل آئندہ اجلاس میں پیش کی جائے۔سابقہ اجلاسوں میں دی گئی سفارشات کے حوالے سے سیکر ٹری سائنس و ٹیکنالوجی نے قائمہ کمیٹی کو عمل درآمد بارے تفصیل سے آگاہ کیا ۔پینے کے پانی کی سکیم کے ملازمین کو ریگولر کرنے کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ معاملہ اسٹیبلشمنٹ ڈویژن میں اٹھایا گیا ہے185ملازمین ہیں جبکہ 158سیٹیں ہیں لوگوں کی دس سال سروس ہے اب ریگولر کرنے میں عمر کی حد کا مسئلہ آرہا ہے ۔

ایک کمیٹی بنا دی گئی ہے جو شفاف عمل کے ذریعے اس کام کو ایک ماہ میں مکمل کر دیگی۔قائمہ کمیٹی نے ایک ماہ کے اند ر رپورٹ طلب کر لی۔کامسیٹس کی دوہری ڈگری کے معاملے پر ریکٹر کامسیٹس نے بتایا کہ قائمہ کمیٹی اور پی اے سی کی کمیٹی نے دوہری ڈگری دینے کا کہا تھا تو ایچ ای سی عدالت میں معالہ لے گیا تھا اور معاملہ ابھی عدالت میں ہے۔سیکرٹری سائنس و ٹیکنالوجی نے کہا کہ یہ مسئلہ اب اکیڈمک اور انسانیت کا بن چکا ہے۔

2584بچوں کو مسئلہ ہے ۔قائمہ کمیٹی کو بتایا گیا کہ کامسیٹس ملک کی نمبر ون یونیورسٹی ہے اور40ہزار طالب علم ہیں مگر ادارے میں فیکلٹی کی کمی ہے ۔مگر بین الا قوامی رینکنگ میں پاکستان کا نمبر پیچھے ہے۔جس پر رکن کمیٹی لیفٹنٹ جنرل(ر) عبد القیوم نے کہا کہ بین الا قوامی رینکنگ میں آنا ملک کے لئے اعزا ز ہوتا ہے موثر حکمت عملی اپنا کر دنیا کی ٹاپ کی یونیورسٹیوں میں ہمارے اعلی تعلیمی ادارے کیے وفد جائیں اور انکا مشاہدہ کر کے بہتر اقدامات اٹھائیں۔

ریکٹر کامسیٹس یونیوورسٹی نے کہا کہ وہاڑی کپمیس میں 46فیصد لڑکیاں زیر تعلیم ہیں اور2018میں ایک ہزار پی ایچ ڈی طالب علم فارغ التحصیل ہونگے۔ جس پر چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ پی ایچ ڈی کی جو تعداد بتائی جا رہی ہے کیا عالمی سطح پر بھی ایسا ہے اسکی تفصیلات فراہم کی جائیں۔قائمہ کمیٹی کو بتایا گیا کہ ملک میں سائنس ٹیلنٹ ہنٹ کیلئے ہر صوبے کے چار چار اضلاع گلگت ،بلتستان اور اے جے کے دو دو اضلاع کو شامل کر کے کل 20اضلاع کو ماڈل بنایا جائیگا تاکہ باقی صوبے اس طرح کا طریقہ کار اختیا ر کر سکیں۔قائمہ کمیٹی کو بتایا گیا کہ ان اداروں کا بجٹ 16 ملین تھا جس کو بڑھا کر265ملین کر دیا گیا ہے ۔

متعلقہ عنوان :