دنیاکا کوئی قانون دریاوٴں کے بہتے پانی کو دوسرے ملک میں داخل ہونے سے نہیں روک سکتا ، ایم یوسف سرور

بھارت پاکستانی دریاؤں کا رخ مورنے سے باز رہے ورنہ پاکستانی عوام اور قومی پاسبان بھارت کی یہ صلاحیت ختم کردے گے، ڈائریکٹر ورلڈ واٹر اسمبلی

جمعرات 19 مئی 2016 19:07

لاہور(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔19 مئی۔2016ء) ورلڈ واٹر اسمبلی کے ڈائریکٹر ایم یوسف سرور نے کہا کہ دنیاکا کوئی قانون دریاوٴں کے بہتے پانی کو دوسرے ملک میں داخل ہونے سے نہیں روک سکتا ۔چونکہ آفاقی نظام زندگی،عالمی قوانین،بارسلونا کنونشن کے تحت دریاوں کا رخ موڑنا اور پانی روکنا بہت بڑا قانونی جرم اور سندھ طاس معاہدہ کی مکمل خلاف ورزی ہے ہے۔

دریاؤں کا پانی روکنے اور 30دریاؤں کو لنک کر نے کے منصوبے کے بعد اب بھارت پاکستان کے باقی ماندہ دریاؤں کا رخ موڑنے کا منصوبہ انتہائی انسانیت سوز ہے۔ بھارت پاکستانی دریاؤں کا رخ مورنے سے باز رہے ورنہ پاکستانی عوام اور قومی پاسبان بھارت کی یہ صلاحیت ختم کردیں گے ۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے میڈیا بریفنگ میں کیا۔

(جاری ہے)

ایم یوسف سرور نے کہا کہ دریائے چناب پر بگلہار دیم فیز 1،2 اور سانول کوٹ ڈیم او ر کرتھائی ڈیم کے ذریعے بھارت پہلے ہی قابض ہو چکا ہے۔

آبی جارحیت کے طوفان کو نہ روکا گیا تو دریاؤں میں پانی کی بجائے خون بہہ گا۔ چونکہ عوام بھوکا اور پیاسہ مرنے کی بجائے لڑ کر مرنا پسند کریں گے ۔131ممالک آبی جار حیت کا شکار ہیں پاکستان کو تشویشناک صورتحال کا سامنا ہے۔ آبی جارحیت عالمی جنگ کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتی ہے۔ خطہ کے امن کے لیئے انسانی حقوق کمیشن،اقوام متحدہ نوٹس لے۔چونکہ پاکستان پہلے ہی پانی کے شدیدبحران سے دو چار ہے۔

سندھ طاس معاہدہ کے بعد 1961ء میں دریائے سندھ میں93ملین ایکڑ فٹ ، دریائے چناب میں 26ملین ایکڑ فٹ ، دریائے جہلم میں 23 ملین ایکڑ فٹ ، دریائے ستلج میں 19ملین ایکڑ فٹ اوردریائے راوی میں 7 ملین ایکڑ فٹ پانی موجود تھا ۔ اسی طرح2002ء میں دریائے سندھ کا سالانہ بہاوٴ 49ملین ایکڑ فٹ ،چناب میں 9 ملین ایکڑ فٹ اور دریائے جہلم میں 8ملین ای کڑ فٹ پانی رہا ۔

اب ان دنوں دریائے سندھ میں صرف24ہزار کیوسک پانی آرہاہے۔ 2004ء میں ایک لاکھ 30ہزارکیوسک پانی تھا ۔ دریائے چناب میں ہیڈ مرالہ پر 5ہزار کیوسک سے کم پانی ریلیز ہورہا ہے ۔ دریائے چناب سے بگلیار ڈیم کی تعمیر سے پہلے 90 لاکھ ایکڑ رقبہ سیراب ہوتا تھا۔ اب صرف 20 لاکھ سیراب ہورہا ہے ۔ دریاوٴں میں پانی کے بہاوٴ میں مجموعی طور پر 80 فیصد کمی واقع ہوئی ہے ۔

اس سنگین صورتحال کے پیش نظر پارلیمانی کمیٹی برائے سندھ طاس بنائی جائے ۔ ہمسایہ ملک بھارت جنگی بنیادوں پر پاکستانی باقی ماندہ دریاوٴں پر متنازع ڈیموں کی تعمیر جاری رکھے ہوئے ہے ۔ دریائے چناب پر بگلیار ڈیم فیز II تعمیر کا کام مکمل کر لیا گیا ہے ۔ ساول کوٹ کے نام سے ایک اور ڈیم کی تعمیر بھی شروع ہے ۔ اس ڈیم کی بلندی 646 فٹ ہے ۔ اور یہ تربیلا اور منگلا ڈیم سے 3گنا بڑا ہے۔

اس ڈیم کی سٹوریج صلاحیت متنازع گلیار ڈیم سے 13گنا زیادہ ہے۔ 4ارب ڈالر لاگت سے یہ دنیا کا چوتھا بڑا ڈیم ہوگا۔ اسی طرح بھارت نے دریائے چناب پر کرتھائی ڈیم کے نام سے دنیا کا تیسرا بڑا ڈیم کی تعمیر کا کام مکمل ۔ جس کے بعد پاکستان دریائے چناب کے پانی سے مکمل طور پر محروم ہوجائے گا۔ دونوں متنازع ڈیموں کو فی الفور انٹرنیشنل کورٹ میں چیلنج کیاجائے ۔

ان کے علاوہ بھارت دریائے سندھ پر 8 ڈیم مکمل کر چکا اور بڑے چھوٹے 24 ڈیموں کی تعمیرآخری مراحل میں ہے۔ دریائے جہلم کی صورتحال بھی کافی خوفناک ہے ۔ بھارت دریائے جہلم پر وولر بیراج ، اوری ٹو ڈیم اور بیر سر ڈیم سمیت بڑے چھوٹے 54 ڈیم چکا۔ جن میں وولر بیراج اور اوری ٹو ڈیم کی تعمیرمکمل کرچکا۔ دریائے نیلم پر کشن گنگا ڈیم کی تعمیر سے بھارت نے دریائے نیلم کا رُخ موڑ کر جہلم میں ڈال ردیاہے ۔

جس کے باعث وادی کشمیر کا جنت نذیر علاقہ تباہ ہوجائے گا اور یہاں پینے کے لئے پانی ہی دستیاب نہیں ہوگا۔ اس منصوبہ بھی پاکستان میں نیلم جہلم ہائیڈرو پروجیکٹ اور منگلا ڈیم خشک صحرا بن جائیں گے۔ بگلیار ڈیم کے بعد پاکستان کشن گنگا منصوبہ جو عالمی عدالت انصاف میں لے تھا ۔ اس ڈیم کا بھی ڈیزائن چیلنج کیا گیا ۔ جب کہ پاکستان کا اعتراض ڈیم کی تعمیر پر بنتا ہے ۔

یہ اٹل حقیقت ہے کہ بھارت دریائے چناب ، جہلم اور سندھ پر مکمل قبضہ کر چکا ہے۔اب بھارت جب چاہیپاکستان میں قحط وخشک سالی برپاکر دے اور جب چاہے سیلابوں سے ہر طرف تباہی پھیلادے۔ دریائے سندھ پر دنیا کے دوسرے بڑے کارگل ڈیم کی تعمیر جاری ہے ۔ علاوہ ازیں 4 بڑے ڈیم بنا رہاہے جبکہ 14 چھوٹے ڈیم مکمل کر چکا ہے ۔ اس آبی جنگ کے خلاف مورچہ بندی نہ کی گئی تو نہ زراعت بچے گی ۔ نہ معشیت اور فیڈریشن کا یہ سسٹم ٹوٹ پھوٹ جائے گا۔بھارت میں 4ہزار ڈیم زیر تعمیر ہیں۔ 14ہزار کلومیٹر رابطہ نہریں نکالی جارہی ہیں۔جبکہ پاکستان میں ایک بڑے ڈیم پر اتفاق رائے پیدا نہیں ہوسکا۔

متعلقہ عنوان :