بلوچستان اسمبلی نے این ایف سی ایوارڈ کے حوالے سے قراردادا متفقہ طور پر منظور کرلی

منگل 17 مئی 2016 22:34

کوئٹہ(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔17 مئی۔2016ء ) بلوچستان اسمبلی نے این ایف سی ایوارڈ کے حوالے سے قراردادا متفقہ طور پر منظور کرلی جبکہ صوبے میں تعلیم کی ترقی و ترویج پر ارکان نے بحث کی بلوچستان اسمبلی کا اجلاس سپیکر راحیلہ حمید خان درانی کی صدارت میں ہوا اجلاس میں عبدالرحیم زیارتوال اور ثمینہ خان کی مشترکہ قرارداد ایوان میں پیش کی گئی جس میں کہاگیا کہ اس مسلمہ حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ بلوچستان جو پورے ملک کے کل رقبے کے تقریبا نصف پر محیط ہے دوسری جانب یہ حقیقت بھی اپنی جگہ مسلمہ ہے کہ صوبہ بلوچستان ترقیاتی کاموں کے حوالے سے ملک کے دیگر صوبوں کے مقابلے میں بہت پیچھے رہ گیا ہے موجودہ مخلوط صوبائی حکومت نے اگر چہ صوبے کے تمام اداروں کو اپنے پاؤں پر کھڑا کردیا ہے لیکن بدقسمتی سے بلوچستان کو دیگر صوبوں کے برابر لانے کیلئے ترقیاتی فنڈز کی مد میں مرکز کی جانب سے صوبہ بلوچستان کیلئے خاطر خواہ فنڈز فراہم نہ کرنے کے باعث اپنی اہداف حاصل کرنے کا متحمل نہ ہوسکا ہے لہٰذا یہ ایوان صوبائی حکومت سے سفارش کرتا ہے کہ وہ وفاقی حکومت سے رجوع کریں کہ وہ این ایف سی ایوارڈ کے طے ہونے تک بشمول صوبے کی پانی انرجی روڈ زراعت اور دیگر مد میں خاطر خواہ فنڈز کی فراہمی کو یقینی بنائیں قرارداد پر اظہار خیال کرتے ہوئے یاسمین لہڑی نے کہاکہ ہم قراردادیں منظور کرکے انہیں جمع نہ کریں بلکہ قراردادوں کیلئے عملدرآمد کیلئے جو کمیٹی بنائی گئی ہے اس کو فعال کیا جائے اٹھارویں ترمیم کے حوالے سے ایوان کی ٹاسک فورس بنائی جائے اٹھارویں ترمیم ایک اہم موضوع ہے اس کے تحت ہمیں صرف ذمہ داریاں دی گئی ہے صوبے کو فنڈز بھی ملنا چاہئے صوبائی وزیر ڈاکٹر حامد خان اچکزئی نے کہاکہ ماضی میں جو رویہ برقرار رکھا گیا اگر وہ اب بھی برقرار رکھاگیا تو اس کے نتائج بیانک ہونگے صوبے کی ضروریات کو مدنظر رکھاگیا ہے وفاقی بجٹ میں صوبے کو زیادہ فنڈز دئیے جائیں آبادی کو ہی مدنظر نہ رکھا جائے ہمارا صوبہ زیادہ پسماندہ ہے پھر یہاں پر جو صورتحال ہے اس میں نوجوان بے روزگاری کے باعث غلط راہ پر چل سکتے ہیں بلوچستان کو اس کی ترقی کیلئے فنڈز دئیے جائیں صوبائی وزیر عبدالرحیم زیارتوال نے کہاکہ اب تک این ایف سی ایوارڈ کے حوالے سے فیصلہ نہیں کیا کہ اس کا اجلاس کب ہوگا ہمارا صوبہ ماضی میں نظر انداز رہا جس کی وجہ سے یہ پسماندہ ہے اسلام آباد میں آنیوالی حکومتوں نے ہمیشہ صوبے کی ترقی کی بات تو کی مگر فنڈز نہیں دئیے این ایچ اے کی سڑکوں کا آدھا ہمارے صوبے میں ہے مگر اس کیلئے نہیں دی جاتی ہماری آبادی ہماری لیے مشکل بنادی گئی ہے اگر ہم کھانے پینے کی چیز مانگیں تو آبادی کی لحاظ سے دی جائے مگر جب سڑکوں کی بات آئے تو رقبے کو دکھا جائے صوبے میں 78کے قریب چھوٹے بڑے دریا اور ندیاں ہے تربیلا اور منگلا ڈیم جو ملک کیلئے لائف لائن ہے وہاں پر اس وقت پانی جمع کرنے کی گنجائش12ملین ایکڑ فٹ ہے جبکہ ہمارے صوبے میں بارشوں کا اتنا پانی بہہ کر ضائع ہوجاتا ہے جنہیں سٹور کرنے کیلئے ہمارے پاس وسائل نہیں ہے ہمارے زیر زمین پانی کے ذخائر ختم ہو تے جارہے ہیں باغات خشک ہوچکے ہیں وفاقی حکومت صوبے میں سڑکوں فلٹ پروٹکیشن ‘زراعت اور دیگر حوالے سے زیادہ فنڈز دیں کیونکہ ہمارے پاس صوبے میں کوئی صنعت نہیں ماضی میں یہاں پر ہرنائی اولن ملز مستونگ اور کوئٹہ میں ملے تھیں وہ بھی بند ہو گئے ہیں انہوں نے کہاکہ ہمارے پاس پورے ملک کے مقابلے میں انرجی کیلئے ہوا اور سورج بہت موضوع ہے ہمارے پاس 12سے14گھنٹے کی دھوپ ہے جس کی سبزیوں کو ہاتھوں ہاتھ لیا جاتا ہے مگر ہمارے ہاں ریسرچ نہیں اور زراعت بھی پرانے طریقے سے چل رہی ہے ہمارے پاس 50لاکھ میویشی ہے مگر ہمارے پاس چراگاہیں نہ ہونے کے برابر ہیں وفاقی حکومت صوبے کی ضروریات پوری کریں تو ہمارا صوبہ بہتر پاکستان کی ضمانت بن سکتا ہے اجلاس میں صوبے میں تعلیم کی ترقی و ترویج پر عام بحث کی گئی نصراﷲ زیرے نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہاکہ آج جو قومیں ترقی کی منزلوں کو چھورہی ہے انہوں نے تعلیم کو ترقی کا ذریعہ بنایا مگر ہمارے ہاں بدقسمتی سے تعلیم پر کوئی توجہ نہیں دی گئی ہے اور پھر تعلیم کو تقسیم کیاگیا ایک تعلیم 90فیصد غریبوں اور دوسری 10فیصد امیروں کے بچوں کیلئے ہے ملک کے قیام سے ہی مادری زبانوں میں تعلیم کو نظر انداز کیاگیا تعلیم کو نظر انداز کرنے سے انتہاء پسندی میں اضافہ ہوا انہوں نے کہاکہ پوری دنیا نے مادری زبانوں میں ترقی کی مگر ہمارے ہاں بچوں کو کئی ایک زبانوں میں تعلیم حاصل کرنا پڑتی ہے اب بھی کئی اساتذہ جن کی تنخواہیں ایک لاکھ سے زیادہ ہے غیر حاضر رہتے ہیں دوسری جانب سکولوں میں بچوں اور اساتذہ کا تناسب بھی ٹھیک نہیں اسی ٹھیک کیا جائے سپوڑمی اچکزئی نے کہاکہ ماضی میں تعلیم کا شعبہ نہایت ہی خستہ حالی کا شکار رہا موجودہ حکومت نے تعلیمی ایمرجنسی کا اعلان کیا ہے ضرورت اس بات کی ہے کہ ہر ڈسٹرکٹ میں ایک ایک گرلز اور بوائز سکول کو ماڈل بنا کر تمام سہولیات دی جائے اساتذہ کی حاضری کو یقینی بنایا جائے نصاب تعلیم کو بہتر بنایا جائے بچوں کو مادری زبان میں تعلیم دی جائے سید لیاقت آغا نے کہاکہ جب ہماری حکومت آئی تو اس کا یہ نعرہ تھا کہ ہر بچہ سکول میں ہوگا مگر ہم اس نعرے میں اب تک کامیاب نہیں ہوئے ہیں ہم دور دراز علاقوں کے بچوں تک نہیں گئے ہیں کلاسٹر پروگرام پر کوئی چیک نہیں میں نے اپنے علاقے کے 7سکولوں کا دورہ کیا جن میں سے4سکول بند تھے پانچ ارب روپے محکمہ تعلیم کے پاس اب بھی موجود ہے مگر ان کی تقسیم کا کوئی طریقہ کار نہیں انہوں نے زوردیا کہ بچوں کو سکالر شپس دئیے جائے پانچ ارب روپے اسلامی منافع میں رکھے جائیں ان کی آمدن سے فائدہ ہوگا اساتذہ کو ڈیوٹی کا پابند بنایا جائے اور ان کی قابلیت پر توجہ دی جائے شیخ جعفرخان مندوخیل نے کہاکہ سرکاری سکولوں میں تعلیم کمزور ہے ہمارے ہاں چند سکولوں کا معیار بہتر ہے مگر باقی کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے پانچ فیصد سے بجٹ 25فیصد کیے جانے کا بھی کوئی فائدہ نظر نہیں آرہا ہے اس سے بہتر تھا کہ ہم طلباء کو سکالر شپس دیتے تاکہ وہ نجی سکولوں میں تعلیم حاصل کرتے این ٹی ایس کے تحت اساتذہ کی بھرتی خوش آئند ہے ٹیچرز ٹریننگ کا اہتمام کیا جائے اساتذہ کی کپیسڈی بلڈنگ کی جائے ہمارے پاس پانچ ارب روپے موجود ہے انہیں استعمال کیا جائے نظام تعلیم میں خرابیاں دور کی جائے ڈاکٹر شمع اسحاق نے کہاکہ صرف تعلیم کی بدولت قوموں نے ترقی کی ہمارے ہاں ماضی میں اس جانب توجہ نہیں دی گئی اساتذہ کی جانب توجہ دی جائے اساتذہ قابل ہونگے تو بچوں کو بہتر تعلیم دے سکتے ہیں انہوں نے زوردیا کہ مادری زبانوں میں بچوں کو تعلیم دی جائے اساتذہ کی حاضریوں کو یقینی بنایا جائے بچوں کو سکالرشپس دئیے جائیں ولیم برکت نے کہاکہ صوبے میں نجی تعلیمی اداروں کا اہم کردار ہے ان کو سہولیات دینے کی بجائے ان کیلئے مسائل پیدا نہ کیے جائے نجی اداروں کے بل پر نجی سکولوں کے تحفظات دور کیے جائیں ہائی سکولوں میں کالجز کی کلاسیں شروع کی جائے معیار تعلیم کی بہتری کیلئے اساتذہ اور والدین کی کمیٹیاں بنائی جائے اور اقلیتی کوٹے پر عمل کیا جائے عاصم کرد گیلو نے کہاکہ میرے ضلع کی تحصیل سنی میں 40 میں 36سکولز بند پڑے ہیں سنی ہائی سکول 10سال سے بند پڑا ہے اس کو دکھا جائے ڈاکٹر حامد خان اچکزئی نے کہا کہ اصل مسئلہ غیر جمہوری حکومتوں کا ہے جنہوں نے نظام تعلیم کا بیڑہ غرق کردیا تعلیم کی کمزوری کی بنیادی وجہ مادری زبانوں میں تعلیم نہ ہونا ہے ہمیں نقل سے جانی چھڑانی ہوگی غیر حاضر اساتذہ کا مسئلہ حل کرنا ہوگا اور ہر تحصیل میں ریذیڈیشنل کالج بنانے ہونگے یاسمین لہڑی نے کہاکہ فاصلے دور ہونے کی وجہ سے بچے تعلیم حاصل نہیں کرپاتے انہوں نے پک اینڈ ڈراپ کی سہولت یا ٹرانسپورٹ الاؤنس دیا جائے کوالٹی ایجوکیشن پر توجہ دی جائے سنگل استاد سکولوں کی جانب توجہ دی جائے گھوسٹ اساتذہ کو ختم کرکے اساتذہ کی حاضریوں کو یقینی بنایا جائے اظہارحسین کھوسہ نے کہاکہ ہمارے ہاں اکثر سکول2010اور2012کے سیلاب کی وجہ سے بری طرح سے متاثر ہوئے ہیں اور اس قابل نہیں کہ وہاں پر بچے پڑھ سکے جبکہ اس وقت وہاں موسم شدید گرم ہے ان سکولوں کی عمارتیں بنائی جائے اساتذہ کی کیپٹسی بلڈنگ کی جائے غیر حاضر اساتذہ کیخلاف کارروائی کی جائے ابھی بحث جاری تھی کہ اپوزیشن کے رکن عبدالمالک کاکڑ نے کورم کی نشاندہی کی جس پر سپیکر نے گھنٹیاں بجانے کی ہدایت کی تاہم کورم پورا نہ ہونے پر سپیکر نے اجلاس 20مئی تک ملتوی کردیا۔

متعلقہ عنوان :