وزیراعظم کے اجلاس آنے تک بائیکاٹ کرنے والی اپوزیشن اپنے اعلان سے دست بردار ، سینیٹ اجلاس کا بائیکاٹ ختم کر دیا

ارکان سینیٹ کی مشترکہ مفادات کونسل کے ریگولر اجلاس نہ کرنے پر حکومت پرتنقید، 90 روز کے اندر اجلاس طلب کرنے کا مطالبہ سینیٹ میں سینیٹر اعظم سواتی، عبدالقیوم، سسی پلیجو، محسن لغاری، کریم خواجہ، عثمان کاکڑ، جہانزیب جمالدینی اور دیگر کی وزیر بین الصوبائی رابطہ کی پیش کی گئی قرار داد پر بحث کے دوران اظہار خیال

منگل 17 مئی 2016 22:01

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔17 مئی۔2016ء) ایوان بالا میں متحدہ اپوزیشن کے غبارے سے ہوا نکل گئی، وزیراعظم کے اجلاس میں آنے تک بائیکاٹ کرنے کے اعلان سے اپوزیشن دست بردار ہو گئی اور سینیٹ اجلاس کا بائیکاٹ ختم کر دیا، ارکان سینیٹ نے مشترکہ مفادات کونسل کے ریگولر اجلاس نہ کرنے پر حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا، 90 روز کے اندر اجلاس طلب کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ مشترکہ مفادات کونسل پارلیمنٹ کے بعد اہم ادارہ ہے، اس کے لئے جلد علیحدہ سیکرٹریٹ قائم کیا جائے ، صوبوں کے وفاق کے حوالے سے اہم مسائل کو مشترکہ مفادات کونسل میں لایا جائے اور اس کے فیصلوں پر عملدرآمد کے حوالے سے سنجیدگی کا مظاہرہ کیا جائے، سی پیک کو مشترکہ مفادات کونسل میں لایا جائے، سی سی آئی کا سیکرٹریٹ کے حوالے سے جلد فیصلہ کیا جائے گا ۔

(جاری ہے)

ان خیالات کا اظہار سینیٹر اعظم سواتی، سینیٹر عبدالقیوم، سسی پلیجو، محسن لغاری، کریم خواجہ، عثمان کاکڑ، جہانزیب جمالدینی، جاوید عباسی، بابر اعوان، سردار اعظم موسیٰ خان اور سینیٹر تاج حیدر نے ایوان بالا میں وزیر برائے بین الصوبائی رابطہ ریاض حسین پیرزادہ کی جانب سے پیش کی گئی قرار داد پر بحث کرتے ہوئے کیا۔ چیئرمین سینیٹ میاں رضا ربانی نے کہا کہ مشترکہ مفادات کونسل وفاق کا دل ہے، اس کے کر دار کو صحیح معنوں میں فنکشنل کیا جائے۔

ریاض حسین پیرزادہ نے کہا کہ مشترکہ مفادات کونسل کا علیحدہ سیکرٹریٹ جلد قائم کیا جائے گا، سی سی آئی کے فیصلوں پر عملدرآمد کا نظام ابھی نامکمل ہے۔سینٹر اعظم سواتی نے سی سی آئی کی رپورٹ پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ مشترکہ مفادات کونسل نہایت اہم ادارہ ہے اور کونسل کا ایک مستقل دفتر ہونا چاہیے اور 90 روز بعد اس کا اجلاس ہونا ہے اور ابھی تک اس کا مستقل دفتر نہیں ہے اور 90روز کے بعد اس کا اجلاس بھی منعقد نہیں کیا جا رہا ہے، اٹھارہویں ترمیم کے بعد چھوٹے صوبوں کیلئے صرف سی سی آئی کا فورم ہے مگر اجلاس نہ ہونے کی وجہ سے چھوٹے صوبوں کی محرومیوں میں اضافہ ہو رہا ہے، ابھی تک مردم شماری کا معاملہ حل نہیں ہوا، مارچ 2016 میں مردم شماری کا وعدہ کیا گیا تھا مگر اب اس کو بالائے طاق رکھا جا رہا ہے، معاشی نظام جب تک درست نہیں ہو گا معاملات حل نہیں ہوں گے، بجلی کے نظام کی درستگی سمیت آبی ذخائر کی تعمیر کے حوالے سے پیش رفت سے ہمیں آگاہ کیا جائے۔

سینیٹر لیفٹیننٹ جنرل(ر) عبدالقیوم نے کہا کہ 1973 کا آئین بنانے والوں نے ملک پر احسان کیا ہے، 2010-13 تک مشترکہ مفادات کونسل کے 13 اجلاس ہوئے اور مجھے افسوس ہے کہ ہماری حکومت نے گزشتہ چار اجلاس کئے ہیں جو کہ کم ہیں، مردم شماری کا 2014 میں فیصلہ کیا گیا تھا مگر پھر مارچ 2016 میں ہونے کا عندیہ دیا گیا تھا مگر اب اعلیٰ حکام اس پر کیا کہتے ہیں، عوامی قرضہ کے حوالے سے بھی معاملات ہیں، پائیدار ترقی کے اہداف حاصل کرنے کیلئے تحلیل شدہ وزارتوں کے حوالے سے ان کو جن مسائل کا سامنا ہے، ان سے وہ آگاہ کریں۔

سینیٹر سسی پلیجو نے کہا کہ مشترکہ مفادات کونسل کیلء ایوان بالا کی طرف سے تجاویز وزیراعظم تک نہیں پہنچائی گئیں، پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے کو حالیہ ہونے والے اجلاس میں کوئی بحث نہیں کی گئی، قدرتی وسائل اور متواتر آئین کی خلاف ورزیوں کے معاملات کو بھی سی سی آئی میں نہیں لایا گیا، اس حکومت کی اس سے بڑی ناکامی کیا ہو گی کہ 90 دن میں سی سی آئی کا اجلاس اور مستقل سیکرٹریٹ کا قیام عمل میں نہ لانا ہے، وزیراعظم ہاؤس میں میڈیا سیل تو بنایا گیا ہے مگر سی سی آئی کا سیکرٹریٹ نہیں ہے، وزارت پانی و بجلی نے ایوان میں جب بھی جواب دیئے وہ جھوٹ کا پلندہ تھے، کابینہ کا اجلاس بھی صرف پانامہ پیپرز لیکس کے بعد ہوا، سندھ کے پانی کے معاملات پر تحفظات کو اب تک دور نہیں کئے گئے ہیں۔

وزیر بین الصوبائی رابطہ کو کئی دفعہ تجاویز دیں مگر وہ نہیں پہنچ سکیں، صوبوں کو ان کے جائز حقوق دیئے جائیں، ہم بین المذاہب ہم آہنگی کی بات کرتے ہیں یہاں صوبوں میں ہم آہنگی موجود نہیں ہے، سینیٹر محسن لغاری نے کہا کہ 2014-15 میں صرف ایک اجلاس ہوا، آئین کہتا ہے کہ 90 دن میں ہونی چاہیے، آئین کی خلاف ورزی کی جا رہی ہے، وزیراعظم قومی اسمبلی میں جا کر پانامہ لیکس کے بحران پر بات کر سکتے ہیں تو ان کو سینیٹ میں بھی آنا چاہیے یہ کم معتبر ہاؤس نہیں ہے، وزیراعظم کی غیر حاضری فیڈریشن کیلئے اچھا نہیں ہے، سی سی آئی کے فیصلوں سے فیڈریشن کے مسائل ہوں گے تو فیڈریشن مضبوط ہو گی۔

سینیٹر کریم خواجہ نے کہا کہ بے شمار مسائل ہیں، سندھ کے وفاق کے ساتھ وزیر اعلیٰ سندھ کہتے ہیں کہ ہمارے مسائل پر سننے کیلئے تیار نہیں ، معاملات میں بہتری لانی چاہیے، آئین پر عملدرآمد ہونا چاہیے اور مشترکہ مفادات کونسل کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے، اس کی کارکردگی اچھی نہیں ہے۔ سینیٹر عثمان کاکڑ نے کہا کہ سینیٹ اور پارلیمنٹ کے بعدسب سے اہم فورم مشترکہ مفادات کونسل ہے، آج تک سیکرٹریٹ قائم نہیں کیا گیا، رولنگ دینے میں آپ کنجوسی نہ کریں، اگر آپ رولنگ نہ دیتے تو سی سی آئی کا اجلاس 2018 تک نہ ہوتا، سینیٹ کی قرار دادوں پر اگر عملدرآمد نہیں ہوتا آپ کو رولنگ دینی چاہیے،18 ویں ترمیم کے بعد 8 نئی وزارتیں بنائی گئی ہیں، کم ترقیاتی علاقوں کو مکمل نظر انداز کیا جا رہا ہے، سی ی آئی کے فیصلوں پر عملدرآمد نہیں کیا جا رہا، این ایف سی ایوارڈ اہم ہے، یہ صوبوں کو دیا نہیں گیا، کچی کنال میں اربوں روپے کا فراڈ ہوا اس کی انکوائری ابھی تک نہیں کرائی گئی، عرب کے شیخوں کو شکار کی اجازت دی گئی، سی سی آئی کی مانیٹرنگ ہونی چاہیے۔

سینیٹر جاوید عباسی نے کہا ہے کہ پارلیمنٹ کے بعد سب سے زیادہ احساس ادارہ سی سی آئی ہے، صوبوں نے اپنا کام نہیں کیا اور الزام وفاقی حکومت پر ڈالتے ہیں، کونسل کے اجلاسوں میں اہم مسائل کو زیر بحث لایا گیا اور فیصلے کئے گئے ، سی سی آئی کی میٹنگ ریگولر ہونی چاہیے، مشترکہ سیکرٹریٹ لازمی بنانا چاہیے۔ سینیٹر جمالدینی نے کہا کہ پتہ نہیں کہ سی سی آئی کو اہمیت کیوں نہیں دی جا رہی، یہ صوبوں کی کمزوری ہے، یہ وفاقی حکومت صوبوں کے مطالبات پورے کرپشن کو روکنے کیلئے کوششیں کرین چاہئیں، کچی کنال میں اربوں کا نقصان ہو رہا ہے، اس کو جلد مکمل کرنا چاہیے، افغان مہاجرین سمیت کئی مسائل ہیں جو مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس نہ وہنے کی وجہ سے حل نہیں ہو رہے۔

سینیٹر بابر اعوان نے کہا کہ مشترکہ مفادات کونسل کے فیصلوں پر عملدرآمد کو سنجیدگی سے نہیں لیا جا رہا، صوبوں اندرچند مخصوص ضلعوں اور حلقوں کے علاوہ سینٹرز کو کوئی فنڈز نہیں دیا جا رہا ہے، مخصوص حلقوں میں صوبوں کا 85فیصد خرچ کیا جا رہا ہے، احتساب کا کوئی نظام بنانا چاہیے، این ایف سی کا نظام اور مردم شماری نہیں کی جا رہی۔ سینیٹر سردار اعظم موسیٰ خیل نے کہا کہ مردم شماری ملک کا اہم مسئلہ ہے، مختلف بہانوں سے مردم شماری کو تاخیر کا شکار بنایا جا رہا ہے، بہت بڑا المیہ ہے کہ سی پیک سی سی آئی کے ایجنڈے پر نہیں ہے، یکجہتی کے قائل ہیں لیکن قومی برابری دی جائے۔

سینیٹر تاج حیدر نے کہا کہ وزیراعظم کی مسلسل آئین شکنی اور قانون شکنی کو جوز بنانے کیلئے کہا جا رہا ہے کہ صوبوں نے اجلاس کیلئے نہیں کہا، صوبوں نے وزیراعظم کو اجلاس بلانے کیلئے خطوط لکھے ہیں، نیشنل میڈیکل کونسل اور نیشنل ڈینٹل کونسل کو علیحدہ علیحدہ بنایا جائے اور صوبوں کو اختیار دیا جائے ۔ وفاقی وزیر بین الصوبائی رابطہ ریاض حسین پیرزادہ نے کہا کہ سی سی آئی کی رپورٹس ایک ریفرنس کے طور پر دی جاتی ہے مکمل تفصیلات اس میں نہیں دی جاتی ہیں، سی سی آئی کا 90 دن میں اجلاس نہ ہونا اور مردم شماری کا نہ ہونے کے حوالے سے سینیٹرز نے توجہ دلائی ہے، یہ صحیح ہے کہ سی سی آئی کے فیصلوں کے عملدرآمد کا نظام ابھی نامکمل ہے، ہماری وزارت نے مردم شماری کا مسئلہ سی سی آئی میں لایا، سی سی آئی نے فیصلہ کر کے فنڈز مختص کرا کر تمام ذمہ داری ادارہ شماریات کو دی، صوبوں کا مطالبہ ہے کہ مردم شماری جلد کرائی جائے ملک کی بھی ضرورت ہے، صحیح فیصلوں کیلئے مردم شماری ضروری ہے، دیامر بھاشا ڈیم کیلئے زمین خریدی ہے، 25فیصد کام حکومت خود کر رہی ہے اور اس کے بعد کمپنیوں کو سرمایہ کاری کی دعوت دی جائے گی، 10فیصد ابھی زمین خریدنی باقی ہے، سسٹین ایبل ڈویلپمنٹ گولز(ایس ڈی جی) کو پورا کرنا تمام وزارتوں کی مشترکہ ذمہ داری ہے، سی پیک کو وزارت منصوبہ بندی دیکھ رہی ہے، سینیٹ میں اتفاق بنتا نظر آ رہا ہے کہ اور صوبوں میں بھی کہ سی پیک کو مشترکہ مفادات کونسل میں لایا جائے، سی سی آئی کا سیکرٹریٹ کے حوالے سے جلد فیصلہ کیا جائے گا، سمری وزیراعظم کو بھیجی گئی ہے،مردم شماری نہیں روکی جائے گی۔

چیئرمین سینیٹ میاں رضا ربانی نے کہا کہ انسان وینٹی لیڈر پر اس وقت جاتا ہے جب اس کا سسٹم فیل ہو جاتا ہے، ہمارے سسٹم میں سی سی آئی وفاق کا دل ہے، دل کو صحیح معنوں میں فنکشن نہیں کرنے دیں گے تو جسم وینٹی لیٹر پر جائے گا، سسٹم کو فنکشنل رکھیں ، سی سی آئی کے کردار کو فعال بنائیں تا کہ اکائیوں کو احساس ہو کہ ان کی شراکت وفاق میں ہے اس کے بعد وہ وفاق کو مضبوط کریں گے ورنہ سی سی یو ہو جائے گا۔