ایجادات نومیں پاکستان 141 ممالک میں سے 131 ویں نمبر پر

Mian Nadeem میاں محمد ندیم منگل 17 مئی 2016 14:48

ایجادات نومیں پاکستان 141 ممالک میں سے 131 ویں نمبر پر

اسلام آباد(ا ردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔17مئی۔2016ء) گلوبل انوویشن انڈیکس کی رپورٹ2015میں معیشت اور ترقی پر ایجاداتِ نو میں پاکستان 141 ممالک میں سے 131 ویں نمبر پر ہے۔وزارتِ سائنس و ٹیکنالوجی نے قومی اسمبلی میں اس رپورٹ سے متعلق پوچھے گئے سوالات پر ملک کی خراب درجہ بندی کی جو وجوہات بیان کی ہیں ان میں سائنس اور ٹیکنالوجیکل ترقی کے لیے مجموعی قومی پیداوار (جی ڈی پی) کی کم شرح اورتعلیمی اداروں میں سائنسی تعلیم کا کمزور معیار ہے سائنس و تعلیم کی وزارت صرف پاکستان کی نچلی درجہ بندی پر زور دیتے ہوئے یہ بتانا بھول گئی کہ پاکستان میں 61 ہزار محققین کے ساتھ 10,670 پی ایچ ڈیز، جو کہ کہیں سے بھی ایک چھوٹی تعداد نہیں، کیوں ملک کی ٹیکنالوجیکل ترقی میں اپنا حصہ نہیں ڈال رہے ہیں۔

(جاری ہے)

یہاں تک کہ ہائیر ایجوکیشن کمیشن (ایچ ای سی) نے 2002 سے ہزاروں محققین کو پی ایچ ڈی کے لیے بیرونِ ملک بھیجا جس پر اربوں روپے خرچ کیے گئے۔ انوویشن انڈیکس میں پاکستان کی پچھلے پانچ سالوں کی کہانی میں دلچسپ حقائق کے انکشافات ہوتے ہیں۔اس حقیقت کے باوجود اسی اثنا میں ہزاروں پی ایچ ڈی تحقیق کار اپنی تحقیق مکمل کرنے کے بعد دوبارہ آئے، ملک کی صنفی عدم برابری کی درجہ بندی (جینڈر ان ایکوئیلٹی انڈیکس GII) میں 2011 سے نمایاں طور نیچے آئی ہے ۔

گلوبل انوویشن انڈیکس میں پاکستان کا درجہ 2011 میں اپنے عروج سے لے کر اب تک مسلسل زوال پذیر ہے، باوجود اس کے کہ اس دوران ہزاروں افراد اپنی پی ایچ ڈیز مکمل کر کے پاکستان واپس آئے ہیں۔اس سے واضح ہوتا ہے کہ پاکستان میں زوال پذیر بنیادی سائنسی تعلیم کی حالت پر رونے کے بجائے ہمیں مسئلے کو کہیں اور تلاش کرنا چاہیے۔سوئٹزرلینڈ جی آئی آئی کی فہرست میں پہلے نمبر پر ہے جس کے پاس 57 فیصد تحقیق کار بیرون ملک سے تعلق رکھتے ہیں، کیونکہ انہیں کئی طرح کی مراعات دی جاتی ہیں۔

مگر پاکستان میں تحقیق کاروں کو ایسے کوئی بھی خاص پیکجز، الاو¿نس یا مراعات مہیا نہیں کی جاتیں۔ایچ ای سی کی غلط پالیسیاں بھی پاکستان میں ریسرچرز کے درمیان مایوسی کی ایک وجہ ہیں۔ پاکستان کے بیشتر پی ایچ ڈی ریسرچرز ایچ ای سی کے زیرِ اختیار یونیورسٹیوں میں ملازم ہیں۔ایچ ای سی نے ٹینیور ٹریک سسٹم (ٹی ٹی ایس) کے ساتھ پی ایچ ڈی ریسرچرز کے لیے زیادہ تنخواہوں اور دوسری مراعات کا آغاز کیا، مگر اس نظام میں سنگین خامیاں ہیں اور اس کی پالیسیوں اور تعلیمی ڈھانچے میں نمایاں طور پر اصلاحات کی ضرورت ہے۔

پی ایچ ڈی مکمل کرنے کے بعد تنخواہ میں تھوڑے سے اضافے کے ساتھ عام پے اسکیل پر ملازمت کرنے والا ہر ریسرچر خود کو مالی فوائد کا اہل بنانے کی غرض سے اپنے پروموشن کی جدوجہد کرتا ہے۔پروموشن کے لیے ایچ ای سی کے موجودہ معیار میں ریسرچرز پر زیادہ سے زیادہ ریسرچ پیپرز شائع کروانے کے لیے کہا جاتا ہے، جبکہ معیار پر یا تو بہت کم، یا بالکل بھی زور نہیں دیا جاتا۔

یہی وجہ ہے کہ انجینیئرنگ کے شعبے میں ایک بھی پاکستانی ریسرچ جرنل ایسا نہیں ہے جسے بین الاقوامی سطح پر جانا جاتا ہو، یا جس میں شائع ہونے والی تحقیق نے سائنسی میدان پر زبردست اثر ڈالا ہو۔زیادہ تر پاکستانی ریسرچ جرنلز کی پالیسیوں اور ان کا جائزے کا طریقہ کار نہایت کمزور اور خامیوں سے بھرپور ہے۔پروموشن حاصل کرنے اور پی ایچ ڈی ڈگری کے حصول کے لیے جدوجہد کو جائز ٹھہرانے کے لیے ایک ریسرچر کے پاس ایچ ای سی کے معیار کو پورا کرنے کے لیے پاکستانی جریدوں میں اپنی تحقیق کو شایع کروانے کے علاوہ کوئی اور انتخاب نہیں بچتا۔

حتیٰ کہ قابل ریسرچرز بھی اس غیر پیداواری سرگرمی کا حصہ بننے پر مجبور ہوجاتے ہیں جو سائنسی اہمیت سے عاری ہوتی ہے۔یہ ریسرچرز کو ان سرگرمیوں سے بھی باز رکھتی ہے جو کہ پیداواری تحقیق کے لیے لازمی ہوتی ہیں، مثلاً اندرونِ ملک اور بیرونِ ملک ریسرچرز کو متوجہ کرنے کے لیے ریسرچ گروپس قائم کرنا، دوسری سائنسی برادریوں سے مشترکہ طور پر تخلیقی خیالات کا تبادلہ کرنا، سائنسی معلومات اور تحقیق کے فروغ کے لیے سائنسی تقاریب کا اہتمام کرنا۔

متعلقہ عنوان :