وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کا قومی اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کا مکمل متن

پیر 16 مئی 2016 22:49

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔16 مئی۔2016ء ) شکریہ جناب اسپیکر ! میں آپکی اجازت اور آپکی وساطت سے کچھ معروضات ارکان ایوان کی خدمت میں پیش کرنا چاہتا ہوں جناب اسپیکر جیسا کہ آپ جانتے ہیں ۔ اپریل کے پہلے ہفتے میں ایک رپورٹ میڈیا میں آئی جسے پاناما پیپرز کا نام دیا گیا ۔ اس رپورٹ میں پاناما میں قائم ایسی آفشور کمپنیز کی نشاندہی کی گئی جن سے پاکستانی شہریوں اور پاکستان سے تعلق رکھنے والے سمندر پار پاکستانیوں کا تعلق بتایا گیا ۔

اس رپورٹ میں یہ واضح کر دیا گیا تھا کہ آفشور کمپنیز سے تعلق کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ کوئی شخص بدعنوانی کا مرتکب ہوا ہو ۔ اس رپورٹ میں میرے دو بیٹوں کا ذکر بھی آیا جو گزشتہ کئی سالوں سے بیرون ملک مقیم ہیں۔ اور لاکھوں دیگر پاکستانیوں کی طرح وہاں کے قوانین ضابطوں کے تحت اپنا کاروبار کر رہے ہیں ۔

(جاری ہے)

جناب اسپیکر میرے رفقاء کی یہ رائے تھی چونکہ پاناما پیپرز میں میرا کہیں ذکر نہیں اس لیے مجھے پہل کرنے اور خود احتساب کے لیے پیش کرنے کی ضرورت نہیں ۔

میرا اپنا رد عمل یہی تھا اگرچہ میری ذات کا ان پیپرز سے کوئی تعلق نہیں ۔ چونکہ میرے خاندان کا ذکرآیاہے ۔اس لیے مجھے یہ معاملہ بااختیار اور خود مختار کمیشن کے سپرد کر دینا چاہیے جو سارے معاملات کی چھان بین کرے۔ اور حقائق سامنے لائے۔ میں نے اپوزیشن کے کسی بھی مطالبے سے پہلے قوم سے خطاب کیا ۔ اور سپریم کورٹ کے ریٹائر جج صاحبان کی سربراہی میں ایک کمیشن کے قیام کا اعلان کر دیا ۔

میں اس بات پر جناب اسپیکر پختہ یقین رکھتا ہوں کہ اپنی زندگیاں انصاف کے اعلیٰ ترین ایوانوں میں گزارنے والے جج صاحبان ریٹائرڈ ہونے کے بعد بھی ایمانت اور دیانت منصفانہ ، غیر جانبدارانہ اور بے لاگ انصاف کے تقاضے پورے کر سکتے ہیں۔ مجھے افسوس ہوا کہ میرے مخلصانہ اعلان پر مثبت ردعمل کی بجائے جج صاحبان کو نشانہ بناتے ہوئے ایسا ماحول پیدا کر دیا گیا کہ نہایت اچھی شہرت کے حامل سابق چیف جسٹس صاحبان کے لیے کی کمیشن کی سربراہی قبول کرنا مشکل ہو گیا۔

پھر اپوزیشن کی طرف سے پارلیمنٹ کے ارکان پر مشتمل ایک کمیٹی قائم کرنے کی تجویزسامنے آئی ۔ حکومت نے اس تجویز پر بھی مثبت ردعمل کا اظہار کیا۔ لیکن ہمارے رابطوں کے باوجود کمیٹی کے قیام پر کوئی پیش رفت نہ ہو سکی ۔ پھر کہا گیا کہ FIAسے تحقیقات کرائی جائے۔ اس مطالبے کو تسلیم کرتے ہوئے ہم نے اپوزیشن سے کہا کہ وہ اپنے اعتماد کے افسران کو نامزد کر دے۔

اس پیشکش کو بھی نظرانداز کر دیا گیا۔ پھر واحد مطالبہ یہ آیاکہ صرف سپریم کورٹ کے جج صاحبان پر مشتمل کمیشن کو ہی قبول کیا جائے گا۔ جس کی سربراہی جناب چیف جسٹس خود کریں۔ میں نے 22اپریل کو قوم سے خطاب کے دوران یہ مطالبہ بھی تسلیم کرنے کا اعلان کر دیا۔ جناب اسپیکر مجھے یقین تھا کہ اپنا واحدمطالبہ تسلیم کرنے کے بعد اپوزیشن مطمئن ہو جائے گی اور تحقیقات کا انتظار کرے گی۔

لیکن ہوا یہ کہ اسکے ساتھ ہیToRsکو بھی متنا زعہ بنا دیا گیا ۔ ہماری تین جامع ToRs پندرہ ToRs پیش کر دیں گئیں۔ میڈیا انکا جائزہ لے چکا ہے۔ اور آئینی اور قانونی ماہرین اپنی رائے دے چکے ہیں۔ اسمیں شائد ہی کسی سنجیدہ پاکستانی کوئی شک ہو کہ اپوزیشن کے ToRsکسی بدعنوانی کرپشن کی بجائے صرف اور صرف ایک ہی فرد کے گرد گھومتی ہے اور وہ فرد میں ہوں اور اسکی مزید تشریح کرتے ہوئے کہا گیا کہ اسکے معنی وزیر اعظم ہونگے ۔

اور پھر یہ بھی کہہ دیا گیا ہے کہ جہاں جہاں وزیر اعظم کا لفظ آئے گا اس کے معنی صرف نواز شریف لیے جائیں گے۔ ان ToRsکا سب سے دلچسپ پہلو یہ ہے کہ جس شخص کا ہزاروں لاکھوں صفحات پر مشتمل پاناما پیپرز میں ذکر تک نہیں ۔ اس پر کمیشن کا قیام اور تحقیقات کے آغاز سے پہلے ہی باضابطہ فرد جرم عائد کر دی گئی ہے ۔ جناب اسپیکر میں اس ایوان کو یقین دلاتا ہوں کہ حکومت معاملے کی بلا تاخیر اور فوری اور جامع تحقیقات چاہتی ہے۔

ہم نہیں چاہتے کہ ایک بار ملک پھر کسی کشمکش کا شکار ہو جائے اور پھر ایک بار دنیا کے سامنے تماشہ بن جائے۔ ایسے معاملات میں غیر ضروری تاخیر ہر گز م اور قوم کے مفاد میں نہیں ہوتی ۔ ملک کی تعمیر و ترقی پر مرکوز رکھنے کے لیے نیک نیتی کے ساتھ معاملے کی بے لاگ چھان بین چاہتے ہیں۔ میرے وزراء مسلسل کہتے رہے اور میں بھی کھلے دل کے ساتھ کہہ رہا ہوں کہ ہم کسی مسئلے کو کسی بات کو انا کا مسئلہ نہیں بنانا چاہتے ہم صرف پاکستان کی انا کا پرچم بلند رکھنا چاہتے ہیں اﷲ کے فضل سے ہمارا دامن صاف ہے ہمیں کسی آئینی یا قانونی استثناء کی ضرورت نہیں۔

ہم ماضی میں کئی کئی بار کڑے یک طرفہ اور انتقامی احتساب سے گزریں ہیں اور آج بھی کسی احتسابی عمل کا سامناکرنے کو تیا ر ہیں۔ اور ہم یہ بھی چاہتے ہیں جناب اسپیکر کہ بدعنوانی اختیارات سے ناجائز فائدہ اُٹھانے ٹیکس چوری کرنے ، کک بیکس لینے پیسہ غیر قانون طریقے سے پاکستان سے باہر بھیجنے اور سیاسی اثر و رسوخ سے اربوں روپے کے قرضے معاف کرانے کی اصل کہانی بھی عوام کے سامنے آ جائے ۔

اگر ایک میڈیا رپورٹ کو کسی تحقیق کے بغیر محض سیاسی عداوت شک اور بد عنوانی کی بنیاد پر بدعنوانی اور جرم قرار دیدیا گیا ہے۔ تو ان دستاویز اور مستند ریکارڈ کو کیوں نہ دیکھا جائے۔ جس میں ٹھوس ثبوتوں کے امبار لگے ہیں۔ جناب اسپیکر میں آپ کی اجازت سے ایوان کی توجہ ایک نہایت اہم بات کی طرف مبذول کرنا چاہتا ہوں میری گزارش ہے کہ یہ ایواناحتساب کے ایک موثر اور بے لاگ پر غور کرے ایسے نظام احتساب کی تشکیل اس میثاق جمہوریت کی ایک اہم شک ہے جس پر آج سے کوئی دس سال قبل میں نے اور محترمہ بینظیر بھٹو صاحبہ نے دستخط کیے تھے اور جسکی توثیق دیگر تمام قومی جماعتوں نے کی تھی ۔

میں جناب اسپیکر گزارش کرتا ہوں ۔ کہ اس ایوان میں ایسی مشاورت کا اعلان کرے جو مروجہ نظام احتساب کی کمزوریوں پر نظر رکھتے ہوئے ایک ایسا جامع نظام واضح کریں ۔ جس پر پوری قوم کو اعتماد ہو اور جو وطن عزیز پر پگڑی اچھالنے اور بہتان تراشی کے کلچر کو ہمیشہ کے لیے ختم کر دے۔ کسی تحقیق کے بغیر بے بنیاد الزام لگانے سے سیاست دان ہی بدنام نہیں ہوتے سیاست بھی بے وقار ہو جاتی ہے۔

اور پھر سیاست بے وقار ہو جائے تو جمہوریت بھی بے توقیر ہو جاتی ہے ۔ جناب اسپیکر ایک مطالبہ یہ بھی سامنے آیا۔ کہ میں پارلیمنٹ میں آ کر حقائق پیش کر دوں ۔ تو معاملہ ختم ہو جائے گا۔ لیکن جناب اسپیکر یہ معاملہ اب یوں ختم نہیں ہو سکتا۔ یہ معاملہ یوں ختم نہیں ہو سکتا اور نہ ہی اسے ایسا ہونا چاہیے بات چل ہی نکلی ہے تو دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا۔

قوم کو اصل حقائق کا پتہ چلنا چاہیے ۔جناب اسپیکر میرے دل میں پارلیمنٹ کی بہت عزت ہے یہ ایوان بیس کروڑ عوام کی نمائندگی کرتا ہے ۔ یہ ایوان کی بالادستی قانون کی حکمرانی اور جمہوریت کے استحکام کی تابندہ علامت ہے تقریباََ دو سال قبل شاہراۂ دستور پر دئیے گئے دھرنوں کے دوران اس ایوان کا کردار ہماری جمہوری تاریخ کا سنہری باب ہے اس ایوان کا نمائندہ ہونا میرے لیے بھی اعزاز کا باعث ہے۔

میں اس مقدس ایوان کو بتانا چاہتا ہوں کہ میرے پاس چھپانے کو نہ پہلے کچھ تھا اور نہ آج ہے سب کچھ کھلی کتاب کی طرح ہے میرا خاندان پاکستان کا واحد خاندان ہے جس نے سیاست میں کچھ بنایا یا نہیں البتہ گنوایا ضرور ہے ۔ میں کاروبار سے سیاست میں داخل ہوا سیاست سے کاروبار میں نہیں آیا۔ جناب اسپیکر میں ایسی باتوں سے گریز کرنا چاہتا ہوں ۔ لیکن دوسروں پر کیچڑ اچھالنے والوں کو بتانا چاہتا ہوں کہ میں نے بطور وزیر اعلیٰ پنجاب اور بطور وزیر اعظم پاکستان عوامی فلاح وبہبودکے بہت رفاہی اور ٹرسٹ کو ، رفاہی اداروں اور ٹرسٹ کو ،مفت سرکاری زمینیں دی ہونگی۔

مالی گرانٹس دیں ہونگیں۔ مشنری کی درآمد پر ٹیکسوں کی چھوٹ دی ہو گی ۔ ہمارے خاندان کے زیرکفالت اتفاق ہسپتال ، یا شریف میڈیکل کمپلیکس بھی بڑے رفاہی ادارے ہیں۔ لیکن جناب اسپیکر ان اداروں کے لیے ایک انچ سرکاری زمین لی نہ کوئی مالی گرانٹس ہمارے خاندان کے زیر انتظام چلنے والے اتفاق ہسپتال یا شریف میڈیکل کمپلیکس بھی بڑے رفاہی ادارے ہیں۔

لیکن جناب اسپیکر ایک انچ سرکاری زمین دی گئی نہ کوئی مالی گرانٹس اور نہ ہی کوئی اور مالی رعایت ۔کیا کوئی کرپشن کرنے سے سرکاری وسائل سے تجوریاں بھرنے والوں کا طرز عمل ایسا ہی ہوتا ہے۔ جناب اسپیکر اﷲ کے فضل و کرم سے ہمارے کاروبار کی کہانی محنت مشقت عزم و ہمت اور رزق حلا ل کیلیئے جدو جہدکی کہانی ہے اس میں قبضہ چوری کمیشن ،کک بیکس،کوٹے یا کسی قسم کی خیانت کا شہبہ تک نہیں۔

ہم نے کسی بھی کاروبار کے لیے حاصل کیے گئے قرضے کی پائی پائی ادا کی ہے اورقیام پاکستان سے کوئی گیارہ سال اور آج سے تقریباََاسی برس قبل اتفاق فاؤنڈری سے ہوا ۔ ہمارے کاروبار کا سب سے قیمتی اثاثہ میرے والد محترم کا اﷲ تعالیٰ پر پختہ ایمان محنت ، دیانت ، اور امانت تھا۔ وقت کے ساتھ ساتھ اس کاروبار نے ترقی کی منزلیں طے کیں۔ 1970تک اتفاق فاؤنڈری کو پاکستان میں اسٹیل اور انجییئرنگ کی سب سے بڑی صنعت کا مقام مل چکا تھا اور 1972میں جناب اسپیکر اتفاق فاؤنڈریز کو حکومت نے قبضے میں لے لیا ۔

یعنی نیشنلائز کر لیا۔ تو ہمیں مشینری زمین یا دیگر کوئی معاوضے طور پر ایک پیسہ بھی ادا نہیں کیا گیا ۔ نیشنلائزیشن سے قبل اتفاق فاؤنڈریز کا منافع لاکھوں میں نہیں کروڑوں میں تھا ۔نیشنلائزیشن کے وقت اتفاق فاؤنڈری کا ٹرن اوور ساڑھے چار کروڈ روپے تھا یہ میں 1971کی بات کر رہا ہوں جناب اسکے پاس ایک کروڑ اسی لاکھ کے اسٹاک موجود تھے اور فیکٹری کی زمین 700کنال کے وسیع رقبے پر پھیلی ہوئی تھی جناب اسپیکر میں آج سے 44سال پہلے کا زکر کر رہا ہوں جب ڈالر کی قیمت چار روپے تھی CSPافسر کی تنخواہ500ماہانہ تھی ۔

اور جو سونا آج پچاس ہزار روپے تولہ بک رہا ہے اُس وقت اسکی قیمت صرف 155روپے تولہ تھی یہ سارے حقائق اس دور سے تعلق رکھتے ہیں جب میرا یا میرے خاندان کے کسی فرد کا سیاست سے دور دور تک واسطہ نہ تھا جناب اسپیکر 8سال بعد اتفاق فاؤنڈری ہمیں واپس کی گئی تو یہ کھنڈر بن چکی تھی اسکی مشینری زنگ آلود ناکارہ ہو چکی تھی ۔ کروڑوں روپے منافع کمانے والی انڈسٹری چھ کروڑ روپے سالانہ کے خسارے میں جا چکی تھی ۔

ہمارے والد نے اس تباہ حال ڈھانچے کو ایک دفعہ پھر آباد کیا ۔ یہ میرے والد گرامی کی محنت و مشقت کا نتیجہ تھا کہ صرف ایک سال کی قلیل مدت میں بے جان ڈھانچہ پھر سے متحرک اور فعال صنعتی یونٹ بن گیا ۔ 1983تک اتفاق فاؤنڈری کا ٹرن اوور 60کروڑ روپے سے تجاوز کر چکا تھا ۔ اور یہ ادارہ چھ کروڑ روپے سالانہ کے خسارے سے نکل کر 60کروڑ 57لاکھ روپے سالانہ کا منافع کما رہا تھا ۔

1985تک اس اتفاق فاؤنڈر ی کا دائرہ مزید کئی کمپنیز تک پھیل چکا تھا۔ جناب اسپیکر میں یہ تفصیل ان لوگوں کے لیے فراہم کر رہا ہوں جو حقائق جو جان بوجھ کر جھٹلا رہے ہیں۔ میں اس ایوان کی اور پوری قوم کو بتانا چاہتا ہوں کہ سیاست کے میدان میں قدم رکھنے سے پہلے میری اور میرے خاندان کی الحمد اﷲ مالی حالت کیا تھی میں اﷲ تعالیٰ کے حضوراحساس شکر کہہ سکتا ہوں کہ مجھے وراثت میں ایک کامیاب ترقی کرتا ہوا اور پھلتا پھولتا ہوا کاروبار بھی ملا ۔

اور محنت دیانت جاں فشانی اﷲ تعالیٰ پر پختہ یقین اور خوف خدا کا درس بھی ۔ میں نے پوری دیانتداری کے ساتھ اپنے خاندانی کاروبار اور مالی حیثیت کی تفصیل بیان کر دی ہے لیکن آج عالی شان گاڑیوں میں گھومنے بڑے بڑے قطعہء زمین پر پھیلے محلات میں رہنے والے ۔ ہیلی کاپٹروں اور جہازوں میں گھومنے سیرو سیاحت کرنے والے بھی قوم کو آگاہ کریں ۔حضور آج عالی شان گاڑیوں میں گھومنے بڑے بڑے قطعہء ہائے زمین میں پھیلے محلات میں رہنے والے ہیلی کاپٹروں اور جہازوں میں گھومنے والے اور دنیا بھی کی سیر و سیاحت کرنے والے بھی مناسب سمجھیں تو اس ایوان اور قوم کو آگاہ کر دیں۔

کہ انکے سفر کا آغاز کیسے ہوا ۔ 70اور 80کی دہائی میں وہ کہاں کھڑے تھے اور آج انکی شاہانہ زندگی کے زرائع آمدنی کیا ہیں۔ کچھ لوگ یہ الزام بھی لگاتے ہیں جناب اسپیکر کہ ہم ٹیکس نہیں دیتے۔ جناب اسپیکر میں صرف اتنا بتا دوں کہ میرے خاندان کے صنعتی اور کاروباری اداروں نے گزشتہ 23سال کے دوران یعنی کہ اس میں سات آٹھ سال باہر کے بھی لگا لیں۔ جب اس ملک میں ہم نہیں تھے 23سال کے دوران تقریباََ دس ارب روپے ٹیکس اور حکومتی محصولات کی شکل میں ادا کیے جناب اسپیکر اسکی پوری تفصیل FBRکے ریکارڑ میں شامل ہے۔

میں یہ تفصیل آپکی خدمت میں پیش کر رہا ہوں جب میرے زاتی ٹیکس کے حوالے سے بھی بے بنیاد کہانیاں تراشی گئیں۔ میں گزشتہ 23برس کے دوراں آٹھ برس جبری جلا وطنی میں تھا ۔ باقی کے 15برس میں زاتی طور پر تین کروڑ ساٹھ لاکھ روپے ٹیکس ادا کر چکا ہوں ۔ یہ تفصیل بھی آپکی خدمت میں پیش کر رہا ہوں۔ یہ بھی FBRکے ریکارڈ پر موجود ہے۔ جناب اسپیکر میں اب آتا ہوں لندن فلیٹس کے بارے میں پھیلائی جانے والی من گھڑت کہانیوں اور بے سروپا افسانوں کی طرف کاش یہاں اسلام کی تعلیمات کے مطابق بغیر تحقیق کے الزام لگانے کا کلچر عام نہ ہوا ہوتا جناب اسپیکر 1972میں جب اتفاق فاؤنڈریز کو ایک پیسہ معاوضہ دیئے بغیرنیشنلائزیشن ہوئی یعنی نیشنلائز کر لیا گیا تو پاکستان کے دوسرے بہت سے کاروباری حضرات اور صنعت کاروں کی طرح ہمارے والد کے سامنے بھی بہت سے صنعت کاروں کو ہجرت پر مجبور کردیا۔

ہمارے والد ، محترم کاروبار کی غرض سے دبئی پہنچے اور گلف سٹیل کے نام سے ایک فیکٹری قائم کی جو دس لاکھ مربع زمین پر مشتمل تھی ۔اس فیکٹری کا افتتاح اس وقت کے دبئی کے حکمران شیخ راشد المخدوم مرحوم نے کیا تھا موجودہ رولر کے وہ والد تھے ۔ میں اس افتتاح کی یادگار تصویر آپکو دیتا ہوں ۔جناب اسپیکر یہ فیکٹری یہ چار یا پانچ تصویریں ہیں اور یہ اسکے متعلق ہیں ۔

یہ فیکٹری اپریل 1980ء تقریباً 30.37 ملین درہم جناب اسپکر یعنی 9ملین ڈالر میں فروخت ہوئی۔ اس وقت بھی میرا سیاست سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ جناب اسپیکر میں دوبارہ یہ بات بتانا چاہتا ہوں ، ہمارے والد محترم نے عدم تحفظ کے جس احساس کے تحت دبئی میں سرمایہ کاری کی تھی وہ 19999ء میں درست ثابت ہوا۔ جب ہمارے خاندان کا کاروبار ایک بار پھر مفلوج کردیا گیا ۔

ہمارے گھروں پر قبضہ کرلیا گیا ۔Old age home میرے گھر کو بنا دیا گیا اور ہمیں ملک بدر کردیا گیا ۔جناب والا یہ وہ وقت تھا ہمارے گھروں ہمارے دفتروں اورہمارے کاروباری اداروں کا سارا ریکارڈ قبضے میں لے لیا گیا جو بار بار کے تحریرکاغذوں کے باوجود ہمیں واپس نہیں ملا ۔ اس سارے ریکارڈ کا کئی کئی جگہ پر بڑی باریک بینی سے جائزہ لیا گیا اور ہمارے بنکوں کے گھاتوں کو کھنگالا گیا ۔

ملک سے باہر بھی ٹیمیں بھیجی گئی جناب اسپیکر اور اس دوران ہم جیلوں میں بند تھے ۔اور کرپشن منی لانڈرنگ ناجائز اثاثہ جات بنانے اور ریاستی وسائل کے ناجائز استعمال جیسے الزامات کی یلغار میں تھے ۔ حکومت وقت نے سرٹوڑ کوشش کرلی لیکن اﷲ کے فضل و کرم سے کسی بھی فورم پر ہمارے بارے میں رتی بھر بدعنوانی ثابت نہ ہوسکی ۔ ہمیں ایک ظالمانہ اور یکطرفہ احتساب میں بھی سرخ رو نکلے جس سے شاید ہی کوئی دوسرا خاندان گزر رہا ہو جب حکومت کی سرتوڑ کوششوں کے باوجود کرپشن تو کیا کوئی مالی بے ضابطگی بھ نہ مل سکی ۔

تو ہمیں سزاء دینے کے لئے طیارہ اغواء کے مضحکہ خیز ڈرامے کا سہارا لیا گیا ۔جناب اسپیکر تب ہمارے والد محترم حیات تھے ۔ انہوں نے جلاوطنی میں ایک بار پھر کمر باندھی اور جدہ میں ایک اسٹیل مل لگائی ۔ اس کی بنیادی سرمایہ کاری کیلئے دبئی فیکٹری سے حاصل ہونے والے سرمایہ نے بھی مدد کی ۔جدہ کی یہ فیکٹری جون 2005ء میں اپنی مشنری کی وسیع قطعہ اراضی اور دیگر اثاثوں سمیت تقریباً 64ملین ریال 17ملین ڈالر میں فروخت ہوئی ۔

جناب اسپیکر دبئی اور جدہ کی فیکٹریوں کے حوالے سے تمام ریکارڈ اور دستاویز موجود ہے ۔ حضوریہ ہیں وہ ذرائع اور وسائل جن سے لندن کے فلیٹ خریدے گئے ۔جناب اسپیکر میں بلاخوف تردید حتمی طور پر واضح اور دوٹوک جواب میں کہہ سکتا ہوں ۔ جدہ اسٹیل مل ہو یا لندن کے فلیٹ یا اور کوئی ادائیگی پاکستان سے ان کیلئے ایک روپیہ بھی باہر نہیں گیا ۔کمیشن کے قیام کے بارے میں جناب اسپیکر محترم چیف جسٹس کا خط موصول ہو چکا ہے ۔

ہمارے قانونی ماہرین اس کا جائزہ لے رہے ہیں ۔اگر مقصد حقیقت میں بدعنوانی اور بدعنوان عناصر کو بے نقاب کرنا ہے ۔ہمیں جناب چیف جسٹس کے خط کی روشنی میں ایک قابل عمل طریقہ کار طے کرنے میں کوئی مشکل پیش نہیں آنی چاہیے ۔جناب اسپیکر میری درخواست ہے آپ قائد حزب اختلاف جناب خورشید شاہ صاحب اور دیگر پارلیمنٹیرین کی مشاورت سے ایک پارلیمانی کمیٹی بنائیں جو اتفاق رائے سے جامع ٹرم آف ریفرنس دیکر معاملات کو حتمی شکل دیں ۔

تاکہ بدعنوانی کا ارتکاب کرنے والوں کا تعین ہو سکے اور انکا محاسبہ کیا جا سکے ۔جناب اسپیکر میں یہاں بھی کہنا چاہتا ہوں کہ ایوان کی مجوزہ کمیٹی جو بھی کمیٹی جو بھی فورم اور طریقہ کار طے کرے گی ۔ میرے یہاں بیان کردہ حقائق کی مزید تفصیل تمام تر شواہد کے ساتھ اس کے سامنے رکھ دی جائے گی ۔تاکہ الزام اور بہتان کا سلسلہ ختم ہو اور یہ تاثرنہ دیا جاسکے ۔

کچھ تو گناہوں میں لت پت ہیں اور کچھ ایسے بھی ہیں جن کے لباس سے فرشتوں کی خوشبو آتی ہے جناب اسپیکر اصولاً اخلاقیات کی بات کرنی ہے تو پھر الک الگ معیار اور الگ الگ پیمانے نہیں چلیں گے تلنا ہے تو سب کو ایک ہی ترازوں میں تلنا ہوگا ۔جنا ب اسپیکر 70 برس اس قوم کے مقدر کو ایسے ہی تماشوں کی بھینٹ چڑھایا جاتا ہے خدا خدا کرکے ہم سنبھلے ہیں ۔ہم نے واضح منزلوں کیلئے واضح راستوں کا تعین کرلیا ہے بڑی مشکل سے نوجوانوں کی مایوسی آنکھوں میں امید کے چراغ روشن ہو رہے ہیں ۔

ہماری معیشت مستحکم ہو رہی ہے ہمارے شہروں کا امن واپس آرہا ہے ۔ قومی سطح پر ہمارے وقار اور اعتماد میں اضافہ ہو رہا ہے ۔ ہر پاکستانی تسلیم کرنا ہے جناب اسپیکر کہ آج کا پاکستان تین سال پہلے سے زیادہ روشن زیادہ توانا اور زیادہ مستحکم ہے جناب اسپیکر میرا دل گواہی دے رہا ہے کہ اﷲ کے فضل و کرم سے 2018 کا پاکستان آج کے پاکستان سے بھی کئی زیادہ روشن کہیں زیادہ توانا کہیں زیادہ پرامن اور کہیں زیادہ مستحکم ہو گا اور انشاء اﷲ پاکستان زندہ باد